سال 2019ء: افق پر منڈلاتے بحران اور انقلابی طوفان
’’پرولتاری انقلاب کے معروضی حالات نہ صرف پک کے تیار ہو چکے ہیں بلکہ اب تو گلنے سڑنے لگے ہیں۔‘‘
’’پرولتاری انقلاب کے معروضی حالات نہ صرف پک کے تیار ہو چکے ہیں بلکہ اب تو گلنے سڑنے لگے ہیں۔‘‘
’’چینی خاصیتوں والا سوشلزم‘‘، جو چین کا سرکاری نظریہ ہے، بنیادی طور پر ریاستی سرمایہ داری کی ایک شکل ہے۔
جدلیاتی طور پر چیزیں اپنی الٹ میں تبدیل ہوچکی ہے اور سستی لیبر والا یہی چین آج مغرب کے سامنے ایک معاشی طاقت کے طور پر کھڑا ہے۔
پروٹیکشنسٹ تجارتی پالیسیاں امریکہ کی معاشی شرح نمو میں عارضی اضافہ تو شاید کریں لیکن ان سے مستقبل کے تضادات اور مسائل بڑھیں گے۔
گزشتہ دہائیوں کی تمام تر ترقی کے باوجود آج بھی چین کا شمار دنیا کی بڑی غربت والے پانچ ممالک میں ہوتا ہے۔
’معاشی استحکام‘ کے حصول کے لئے مستقل کٹوتیوں، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ وغیرہ کی جو پالیسیاں لاگو کی گئی تھیں‘ ان کا نتیجہ سیاسی اتھل پتھل کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
یہ بحران معیشت سے بڑھ کر سرمایہ دارانہ نظام کے ساختی بحران میں بدل گیا ہے۔
چین عالمی سرمایہ دارانہ طاقت کے طور پر اس نظام کے عروج کے دور میں نہیں بلکہ زوال کے عہد میں ابھرا ہے۔ اس نے تضادات کو حل کرنے کی بجائے انہیں مزید بڑھاوا دیا ہے۔
ایک بات واضح ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جانے کے جو خواب حکمران دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سراب اور دھوکہ ہیں۔ یہ منصوبے حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کے منصوبے ہیں۔
چین کے سپرپاورنہ بن سکنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ چین میں سرمایہ دارانہ صنعت کاری کا ابھاراس نظام زر کے عروج کی بجائے اسکے زوال کے دورمیں شروع ہوا تھا۔
عالمی سرمایہ داری کو اپنی شرح منافع بڑھانے یا برقرار رکھنے کے لیے جس سستی مگر ہنر مند محنت اور انفراسٹرکچر کی تلاش تھی، چین کا سماج اور محنت کی منڈی اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھے۔
نیا سال پرانے سال کا ہی تسلسل ہو گا لیکن اس کی شدت پچھلے سال سے زیادہ ہو گی۔ غیر معمولی عدم استحکام اب معمول بن چکا ہے۔
| تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: حسن جان | ’’پرانوں کو بھول جاؤ، نئے کو گلے لگاؤ۔۔۔‘‘ یہ ہمیشہ نئے سال کا حوصلہ افزا پیغام ہوتا تھا۔ لیکن تمام تر رقص و سرودکی محفلوں کے باوجود حکمران طبقات اور ان کے پالیسی سازوں کی محفلوں میں مستقبل کے بارے میں کسی […]
| تحریر: لال خان | چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) پر حکمران سیاست میں مباحث اور اختلافات کا شور ہے۔ یہ درست ہے کہ پسماندہ علاقوں اور محروم قومیتوں کو نئے انفراسٹرکچر (اگر بنتا ہے تو!) سے محروم رکھنا زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ لیکن اس راہداری پر […]
| تحریر: لال خان | سوموار 24 اگست کو اکتوبر1987ء کے بعد سٹاک مارکیٹ کا سب سے کریش ہوا۔ اسے ’سیاہ سوموار‘ قرار دیا جا رہا ہے جس نے عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کی کمزوری کو پھر سے عیاں کر دیا ہے۔ 2008ء کے بعد اب ایک نئی عالمی کساد […]