پاکستان: ترقی کی ذلت!
جو بھی تھوڑا بہت روزگاریہاں پیدا ہوبھی رہا ہے وہ سارا اسی غیر رسمی معیشت سے منسلک ہے۔ ورنہ ریاست کے پاس کوئی ایسی پالیسی موجود ہی نہیں جس سے سماج کو ترقی دی جاسکے۔
جو بھی تھوڑا بہت روزگاریہاں پیدا ہوبھی رہا ہے وہ سارا اسی غیر رسمی معیشت سے منسلک ہے۔ ورنہ ریاست کے پاس کوئی ایسی پالیسی موجود ہی نہیں جس سے سماج کو ترقی دی جاسکے۔
پاکستان کا شاید ہی کوئی دانشور، تجزیہ نگار، کالم نگار، بزنس مین، جرنیل یا سیاست دان ایسا ہوگا جس کوکبھی اس بلا نوشی کا اتفاق نہ ہوا ہو۔
ایک فیس بک اور سوشل میڈیا کی دنیا ہے جس میں غرق افراد اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہی گریزاں ہیں کہ اس ملک میں 82 فیصد آبادی بنیادی انٹرنیٹ کی سہولت سے ہی محروم ہے۔
بھٹو نے لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شراب نوشی کا سر عام اعتراف کیا تھا جس پر سامعین نے بہت تالیاں بجائی تھیں اور داد دی تھی۔
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ چترال سے آنے والے پی آئی اے کے طیارے کے بلیک باکس کی بجائے’’بلیک بکرے‘‘ کا اتنا زیادہ پرچار کردیا گیا ہے کہ لوگ بلیک باکس کی سائنسی معلومات کو ہی فراموش کر بیٹھیں۔
وسیع پیمانے پر آلودگی پیدا کرنے والے کوئلے کے پاور پلانٹ چین سے اکھاڑ کر اب پاکستان میں لگائے جا رہے ہیں اور یہاں کے حکمران ڈھٹائی اور بے شرمی سے اسے کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔
اگر نوازشریف کو اوپر سے کسی بھی طریقے سے ہٹا دیا جاتا ہے، جس کے امکانات ہیں، تو نئی حکومت اس سے کم بدعنوان، استحصالی، منافق اور جھوٹی نہیں ہوگی۔
80ء کی دھائی سے ٹریڈ یونین کی ترقی معکوس سمت میں رہی ہے، کل مزدوروں کا محض ایک فیصد سے بھی کم حصہ ٹریڈ یونینوں میں منظم ہے۔
ریاستی آقاؤں اور مختلف حکومتوں کی جانب سے علامتی مذمتوں کے باوجود حکمران طبقات کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں ہے کہ اس مذہبی جنون کو لگام دیں جو سماج میں پہلے سے محکومی کے شکار عوام پر قہر نازل کر رہا ہے۔
طبقہ جلد یا بدیر اس نتیجے پر پہنچے گا کہ مسائل کا حل آسان طریقوں اور راستوں پر نہیں ہے۔
انسانی زندگی کی تباہ کاریوں کے خلاف مدافعت نہ صرف ٹیکنالوجی کے منافع خوری کے اصراف کی وجہ سے کمزور ہورہی ہے بلکہ اس سے آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ سیارہ زندگانی کے لیے زیادہ ناگفتہ بہ ہورہا ہے۔
مثبت سرگرمیاں معدوم ہو چکی ہیں، تعلیمی اداروں کے اندر جیل خانوں جیسا ماحول ہے، طلبہ سیاست پر پابندی ہے، پارک اور گراؤنڈ قبضہ مافیا کے نشانے پر ہیں۔
موجودہ ریاستی کاروائی اس کے وجود کو ختم کرنے کی نہیں بلکہ اس کو تبدیل اور پھر سے تابع کرنے کی کاوش ہے۔
جہاں زندہ انسانوں کو معاشی اور سیاسی طور پر درگور کیا جا رہا ہے وہاں تاریخی ورثے کے تحفظ کا سوال تو اس نظام میں پیدا ہی نہیں ہوتا۔
حقوق پیسوں سے اگر ملیں تو پھر اس معاشرے کو فلاحی تو درکنار انسانی معاشرہ کہنا بھی محال ہو جاتا ہے۔