5 جولائی کا شب خون: جبر مسلسل کے چالیس سال
عوامی تحریک نے ملکیتی رشتوں کوچیلنج کردیا تھا لیکن اصلاحات کے محدودیت کی وجہ سے ہر دلعزیز قیادت بھی ملکیت کا خاتمہ نہ کرسکی۔
عوامی تحریک نے ملکیتی رشتوں کوچیلنج کردیا تھا لیکن اصلاحات کے محدودیت کی وجہ سے ہر دلعزیز قیادت بھی ملکیت کا خاتمہ نہ کرسکی۔
ان جعلی لڑائیوں کا مقصد محض مالی مفادات کا حصول اور غریب عوام کو بربادیوں میں دھکیلتے ہوئے اس نظام زر کی رکھوالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی میں برصغیر میں بائیں بازو کی سیاست کا کلیدی کردار رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین کے اپنے کئے گئے تجزے کے علاوہ کسی اور تناظر میں 1977ء کی فوجی بغاوت یا پھر بھٹو کے قتل کو دیکھنے سے کبھی بھی درست نتائج پر نہیں پہنچا جاسکتا۔
اس نظام کی حدود میں بھٹو کا اقتدار میں آنا ہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ جس نظام کے ڈھانچوں میں کوئی حکومت تشکیل پاتی ہے وہ نظام ہی حکومت کو چلاتا ہے۔
انقلابی سوشلزم سے پارٹی قیادت اتنی خوفزدہ ہے کہ ان کو ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں عوام اس راستے پر باہر ہی نکل پڑیں۔
اگر نوازشریف کو اوپر سے کسی بھی طریقے سے ہٹا دیا جاتا ہے، جس کے امکانات ہیں، تو نئی حکومت اس سے کم بدعنوان، استحصالی، منافق اور جھوٹی نہیں ہوگی۔
عوام کی سیاست کی نعرہ بازی فریب اور دھوکہ دہی بن جاتی ہے جب تک اس کو طبقاتی تضادات اور تصادم کی سائنسی سوچ اور نظریات کے تحت انقلابی سوشلزم سے نہ جوڑا جائے اور حتمی فتح تک نہ لڑا جائے۔
سوال یہ ہے کہ پارٹی کے اتنے زوال کے بعد اس کی بحالی ہوسکے گی؟
مرتضیٰ بھٹو نے حکمران سیاست اور نظام سے دشمنی مول لی تھی۔ مسلح جدوجہد کا راستہ اپنانے والوں کو ایک کہیں زیادہ مسلح اوردیوہیکل حاکمیت کبھی فراموش کرتی ہے نہ کبھی چھوڑا کرتی ہے۔
سندھ کے عوام نے بار بار پیپلز پارٹی سے امیدیں وابستہ کی ہیں لیکن پارٹی وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے نرغے میں ہے۔
تمام تر نظریاتی کمزوری کے باوجود معراج محمد خان اس سرمائے کی سیاست کے کوئی روایتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ ایک بہادر اور بے لوث سیاسی کارکن تھے۔
پاکستانی سیاست میں لنگوٹ کسے ہوئے پہلوان خواہ کسی بھی پارٹی سے وابستہ ہوں، فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ’لائن‘سے آگے پیچھے ہونے کی ہمت رکھتے ہیں نہ اس کرپٹ سیاسی اشرافیہ میں اتنی صلاحیت تاریخی طور پر موجود ہے۔
| تحریر: ظفراللہ | کئی دہائیاں ایسے گزر جاتی ہیں جب بظاہر یہ لگتا ہے کہ وقت رک سا گیا ہے۔ جیسے کچھ تبدیل نہیں ہورہا اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ طویل جمود یا نیم جمود کی کیفیت سماج پر غالب ہوجاتی ہے۔ ان کیفیات میں سوچ اور شعور قدامت […]
| تحریر: لال خان | 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور کے منٹو پارک میں ہونے والے جلسے کو تحریک انصاف کے ایک نئے جنم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ شرکا کی تعداد جو بھی ہو، انہیں جیسے بھی لایا گیا ہو یا وہ خود آئے ہوں، لیکن یہ اس قسم […]