جنگی حالات کیوں اور کب تک؟
’جنگیں ان سیاسی نظاموں سے ناقابلِ علیحدگی ہیں جو انہیں جنم دیتے ہیں۔‘
’جنگیں ان سیاسی نظاموں سے ناقابلِ علیحدگی ہیں جو انہیں جنم دیتے ہیں۔‘
وقتی خلل یا رکاوٹوں کے باوجود حکمران اس بغاوت کو کمزور اور بے سمت نہیں کر سکتے۔
مقبول بٹ نے بے شمار مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا لیکن جبر کا کوئی بھی طریقہ انکے آزادی اور انقلاب پر یقین کو متزلزل نہیں کر سکا۔
اس کھیل کے پیچھے چھپی معاشی بنیادوں کو زیر بحث لایا جانا اور ان کے تدارک کیلئے اقدامات ہی وقت کی ضرورت ہیں۔
قارئین کی بھرپور فرمائش پر ہم کچھ عرصہ قبل ’ایشین مارکسسٹ ریویو‘ (AMR) کے لئے اُن کی ایک خصوصی تحریر کا اردو ترجمہ شائع کر رہے ہیں۔
شجاعت بخاری کا قتل وہ چنگاری ثابت ہوا ہے جس نے بھڑک کر اس مخلوط حکومت کو بھسم کر دیا ہے ۔ لیکن اس کے پیچھے قربانیوں کی ایک طویل داستان کشمیری عوام نے رقم کی ہے۔
یہ لفظ ہیں، لفظوں سے نہ کبھی بھوک مِٹی ہے..
لفظوں کی سوغات نہیں چاہیے مجھے
کسی نظام کو چلانے کے کئی انتظامی طریقے ہو سکتے ہیں لیکن جب تک بنیادی معاشی اور سماجی بنیادوں کو نہ بدلا جائے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔
کسی صوبے یا انتظامی یونٹ کے وسائل وہاں کے تمام باسیوں کی فلاح پر خرچ ہوں تب ہی کسی بہتری کا سوال پیدا ہو سکتا ہے۔
لائن آف کنٹرول کے اُس پار فوجی جبر پر بات کرنے والے کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے اور اگر اِس طرف اپنے حقوق مانگے جائیں تو انہیں کفریہ کلمات گردانا جاتا ہے۔
تحریک کی پختونخواہ میں بنیادوں سے قطع نظر پنجاب، سندھ، بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اس کی حمایت بڑھ رہی ہے۔
یہ تحریکیں مختلف خطوں میں مختلف فوری ایشوز اور مختلف طرزوں پرابھری ہیں۔ لیکن بنیادی وجہ جبر اور استحصال کا یہ نظام ہے جو پوری دنیا میں عوام کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا رہا ہے۔
بظاہر یہ تحریک ایک قوم پرست تحریک نظر آتی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس میں جن مسائل کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے وہ تمام غریب طبقے کے مسائل ہیں۔
کبھی دھونس، ریاستی جبر اور بلیک میلنگ کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جائے گی تو کبھی لالچ اور ترغیب کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی جائے گی۔
حالیہ احتجاجی تحریک کی مزید اہمیت اس حوالے سے بنتی ہے کہ اس میں پشتونوں کے علاوہ دوسری قومیتوں کے عام لوگ بالخصوص نوجوان بھی شریک ہوئے ہیں۔