تھرپارکر: ترقی کی بربادی
اکیسویں صدی میں قدم رکھنے کے باوجود بھی تھرپارکر کے لوگ اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔
اکیسویں صدی میں قدم رکھنے کے باوجود بھی تھرپارکر کے لوگ اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔
درمیانے طبقے کا پس منظر رکھنے والے نودولتی مہاجر رہنما خود کو ریاست کی حاکمیت کے لئے ناگزیر سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے۔
جس سوچ نے اس وحشت اور درندگی کو جنم دیا ہے اسکی بنیادوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے اور ٹرمپ کے خلاف نفرت سارے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
ایسے قبائل جن میں نسلوں سے دشمنیاں بھی چل رہی تھیں ایک دوسرے کی قتل وغارت کی تاریخ پائی جاتی ہیں ان کی نئی نسل کو نقیب اللہ کے اس بہیمانہ قتل نے ایک یکجہتی میں پرو دیا ہے۔
جس آگ میں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا لہو جل رہا ہے، سامراجی منافع خوری، برصغیر کے حکمرانوں کا تسلط اور مالیاتی مفادات کی تکمیل اسطرح سے بہتر ہو رہی ہے۔
انسان کی لاکھوں سالوں کی محنت اور کاوش سے معرض وجود میں آنے والے یہ پیداواری ذرائع سرمائے کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
افغانستان کو سب عالمی اور علاقائی سامراجی گدھ نوچ رہے ہیں۔ کوئی ’تعمیر نو‘ کے نام پر یہ کھلواڑ کر رہا ہے تو کوئی منشیات کے کالے دھن پر پلنے والی جہادی پراکسیوں کی براہِ راست پشت پناہی کر رہا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بالخصوص ضیاالحق کے دور سے جمعیت کو ریاست اور انتظامیہ کے کچھ حصوں کی پشت پناہی ہمیشہ حاصل رہی ہے۔
بھارت کے قانون، عدل اور انصاف کے سب سے اعلیٰ بھگوان پر اس کے اپنے ججوں کے یہ الزامات پورے ریاستی نظام کی حقیقت کو عیاں اور عدلیہ کی اصلیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔
ایک متروک نظام کے نمائندے کبھی بھی ترقی پسند اور سائنسی فکر کے مالک نہیں ہو سکتے۔
جب سماج کے سلگتے ہوئے مسائل کا کوئی حل نہ ہو تو مذہبی انتہاپسندی اور تعصبات کو ہوا دے کر سماج کو تقسیم کر کے طبقاتی جبر اور استحصال کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔
حالیہ انتخابات میں عوام کی خاطر خواہ شرکت کو شاید کچھ حلقوں میں ’’جمہوریت‘‘ کی کامیابی گردانا جا رہا ہے لیکن اِس سے نیپالی عوام، بالخصوص نوجوانوں کے بائیں جانب جھکاؤ اور دباؤ کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
یہ کھوکھلی بڑھک بازیاں اور پالیسیوں میں تزلزل تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی قوت امریکی سامراج کے زوال کا اظہار ہے۔
آج بالعموم پوری دنیا ایک عدم استحکام اور انتشار کی زد میں نظر آتی ہے۔