فاٹا کا سوال
کسی نظام کو چلانے کے کئی انتظامی طریقے ہو سکتے ہیں لیکن جب تک بنیادی معاشی اور سماجی بنیادوں کو نہ بدلا جائے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔
کسی نظام کو چلانے کے کئی انتظامی طریقے ہو سکتے ہیں لیکن جب تک بنیادی معاشی اور سماجی بنیادوں کو نہ بدلا جائے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔
ایک طرف اسرائیلی ریاست کی قتل و غارت ہے تو دوسری طرف غربت، بیروزگاری اور محرومی کے عذاب ہیں۔
کسی صوبے یا انتظامی یونٹ کے وسائل وہاں کے تمام باسیوں کی فلاح پر خرچ ہوں تب ہی کسی بہتری کا سوال پیدا ہو سکتا ہے۔
لائن آف کنٹرول کے اُس پار فوجی جبر پر بات کرنے والے کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے اور اگر اِس طرف اپنے حقوق مانگے جائیں تو انہیں کفریہ کلمات گردانا جاتا ہے۔
داخلی خلفشار کو دبانے کے لئے بھی ایسی خارجہ محاذ آرائیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
آصف زرداری نے 4 مئی کو لاہور میں بیان دیا ہے کہ پیپلز پارٹی ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت تحریکِ انصاف سے بھی اتحاد کرنے کو تیار ہے۔
موجودہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر شام کی تعمیر نو اور قبل از جنگ کی حالت میں واپسی کبھی بھی نہیں ہوسکتی۔
میکرون کی نیو لبرل سرمایہ دارانہ حکومت کے خلاف یہ بغاوت تیزی سے مختلف شعبوں میں پھیلتی جا رہی ہے۔
27 اَپریل 1978ء کو برپا ہونے والا افغان ثور انقلاب وہ واقعہ تھا کہ آج چالیس سال بعد بھی اس کے اثرات پورے خطے کو متاثر کر رہے ہیں۔
ریاست اور سیاست کے حکمرانوں کی اس تاریخی نااہلی، بدعنوانی، معاشی کمزوری اور کردار کی گراوٹ کا خمیازہ بھی یہاں کے غریب عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
تمام تر معاشی پابندیوں اور سامراجی دھونس کے باوجود کیوبا میں آج بھی منصوبہ بند معیشت رائج ہے جس میں قومی ملکیت میں موجود صنعتیں غالب ہیں۔
اس کسان مارچ میں ریاست بھر کے ہزاروں کسان شریک ہوئے جوکہ انقلابی نعروں سمیت حکومت کی ناکامی کے خلاف نعرے بلند کر رہے تھے۔
تحریک کی پختونخواہ میں بنیادوں سے قطع نظر پنجاب، سندھ، بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اس کی حمایت بڑھ رہی ہے۔
تمام تر پسپائیوں کے باوجود آنے والے دنوں میں طبقاتی جدوجہد کے نئے طوفان ابھریں گے۔
مشال خان نے جن مسائل کے خلاف جدوجہد شروع کی تھی وہ اِس بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے ناگزیر مضمرات تھے۔