کشمیر کی بغاوت طبقاتی یکجہتی کی متقاضی ہے!
کشمیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی جدوجہد آخری تجزیے میں طبقاتی جدوجہد ہے۔
کشمیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی جدوجہد آخری تجزیے میں طبقاتی جدوجہد ہے۔
پچھلے مالی سال میں وفاقی حکومت نے 2.1 ہزار ارب روپے کے قرضے لیے جو روزانہ اوسطاً 5.7 اَرب روپے بنتے ہیں۔
سرمایہ داری کی سیاست، سفارت اور معیشت میں مسئلہ فلسطین کا کوئی حل موجود ہی نہیں ہے۔
محنت کش طبقے کے ان گنت گمنام شہیدوں کو ان کی زندگی اور موت سے بھرپور جدوجہد کا صلہ اس جدوجہد کا حصہ بن کر ہی دیا جا سکتا ہے۔
تمام تر نظریاتی کمزوری کے باوجود معراج محمد خان اس سرمائے کی سیاست کے کوئی روایتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ ایک بہادر اور بے لوث سیاسی کارکن تھے۔
سرمایہ داری کے بحران کے پیش نظر اب حکمران عوامی فلاحی بہبود کے تمام شعبوں سے فنڈز کاٹنے کے اقدامات کر رہے ہیں اور انہیں سلسلہ وار انداز میں سالانہ بنیادوں پر کم کرنے کے منصوبوں پر گامزن ہیں۔
اپنے ’’سلطانی‘‘ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے طیب اردگان کی حکومت اب مشرقی وسطیٰ میں بربادی پھیلانے میں دوسری کئی سامراجی طاقتوں کی طرح پوری طرح ملوث ہے۔
چیف جسٹس سندھ کے بیٹے کا اغوا اور امجد صابری کے لرزہ خیز قتل نے ان تمام دعووں کو مشکوک کردیا ہے جوپچھلے چند ماہ سے کئے جارہے تھے۔
اردگان کی کیفیت درحقیقت ضیاالحق کے آخری دنوں سے مماثل ہے جب وہ مادی حقائق سے یکسر کٹ کے افغانستان اور وسط ایشیا میں بھی اپنی ’خلافت‘ کے خواب دیکھنے لگا تھا اور اپنے امریکی آقاؤں کو آنکھیں دکھاتا تھا۔
عام لوگوں نے‘ جن میں بلاشبہ اردگان کے طرز حاکمیت کو پسند کرنے والوں کی نسبت اس کے مخالفین کی غالب اکثریت تھی، نے دلیرانہ کردار ادا کرتے ہوئے تاریخ رقم کردی۔
نام نہادآزاد کشمیر کو آج جن بنیادی مسائل کا سامنا ہے ان کا حل اس نظام کے اندر ممکن نہیں۔
سرمایہ دارانہ سماجوں کی جدید شکل میں پولیس کا قیام انیسویں صدی کی دوسری چوتھائی کے دوران محنت کشوں کی ہڑتالوں، شہروں میں ہنگاموں اورغلاموں کی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔
وانی کی ہلاکت درحقیقت ایک ایسا واقعہ تھا جس نے قومی، معاشی اور سماجی جبر کے خلاف عام کشمیریوں کی مجتمع شدہ نفرت کے بارود کو آگ لگا دینے والی چنگاری کا کام کیا۔
بنیاد پرست، قوم پرست اور الحاق نواز جماعتوں میں سے ہر ایک امیدوار اقتدار کے حصول کیلئے بلند و بانگ دعوے کر رہا ہے لیکن کوئی ایک پارٹی بھی ابھی تک کوئی واضح اور ٹھوس پروگرام اور منشور پیش نہیں کر سکی ہے۔
اس جنگ کے دوران لاکھوں بے گناہوں کو لقمہ اجل بھی بنا دیا گیا۔ لہو کے دریا بہائے گئے۔ اسلحے سے لے کر تیل تک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور امریکی جرنیلوں نے سینکڑوں ارب ڈالر کمائے۔