ایم کیو ایم کی سرزنش!
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کراچی کے محنت کش عوام کو مسلسل منتشر اور شہر کو مسلسل خوف و ہراس میں مبتلا رکھنے کے لئے کسی نہ کسی شکل میں ایم کیو ایم کی ضرورت ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کراچی کے محنت کش عوام کو مسلسل منتشر اور شہر کو مسلسل خوف و ہراس میں مبتلا رکھنے کے لئے کسی نہ کسی شکل میں ایم کیو ایم کی ضرورت ہے۔
1994ء کے بعد امیر اور غریب کی تفریق میں اضافہ ہی ہوا ہے جبکہ اے این سی سے جڑے کاروباری افراد کی ایک قلیل پرت ارب پتی بن چکی ہے۔
موجودہ ریاستی کاروائی اس کے وجود کو ختم کرنے کی نہیں بلکہ اس کو تبدیل اور پھر سے تابع کرنے کی کاوش ہے۔
جہاں زندہ انسانوں کو معاشی اور سیاسی طور پر درگور کیا جا رہا ہے وہاں تاریخی ورثے کے تحفظ کا سوال تو اس نظام میں پیدا ہی نہیں ہوتا۔
اس نظام زر کے اندر رہتے ہوئے اور آس پاس کے سرمایہ دارانہ ریاستوں کی موجودگی میں افغانستان میں امن، ترقی اور خوشحالی قائم کرنا ایک ناممکن عمل ہے۔
حقوق پیسوں سے اگر ملیں تو پھر اس معاشرے کو فلاحی تو درکنار انسانی معاشرہ کہنا بھی محال ہو جاتا ہے۔
حد یہ ہے کہ غیرت کے نام پر معصوم زندگیوں کے چراغ گل کرنے والے اس ’غیرت مند‘ معاشرے میں کوئی لڑکی 10 منٹ تک سڑک پر کھڑی نہیں رہ سکتی جس سے اس معاشرے کی غیرت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو جاتا ہے۔
کسی بھی تحریک کی حمایت میں مودی جیسے درندہ صفت حکمران کی لفاظی اسے مجروح اور بدنام ہی کر سکتی ہے۔ یہ لہو میں زہر فشانی کے مترادف ہے۔
دہشت گردی، جرائم، جنسی تشدد، قتل و غارت، استحصال وغیرہ، یہ سب کوئی الگ الگ مظاہر نہیں ہیں بلکہ اس گراوٹ، اذیت اور وحشت کے مختلف اظہار ہیں جس کا شکار یہ معاشرہ ہو چکا ہے۔
سعودی عرب کے مختلف شہروں میں 35 چھوٹی بڑی کمپنیوں میں محنت کش تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور خوراک و علاج کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
’عرب انقلاب‘ سے پیشتر پورے خطے میں 12 سے 15 فیصد بے روزگاری تھی۔ اس انقلاب کی پسپائی کے بعد اب یہ شرح 25 سے 30 فیصد ہوچکی ہے۔
ہمیں صرف غلام رہنے کی آزادی ہے۔
سندھ کے عوام نے بار بار پیپلز پارٹی سے امیدیں وابستہ کی ہیں لیکن پارٹی وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے نرغے میں ہے۔
فوجی آپریشنوں کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے میں ناکامی ہوئی ہے اور ریاستی جبر کا سب سے زیادہ شکار عام لوگ ہی ہو رہے ہیں۔
اربوں کھربوں کی دولت کے انبار لگانے والے بھی پاکستانی ہیں اور سعودی عرب کے سڑکوں پر پڑے کئی دن کے بھوکے محنت کش بھی پاکستانی ہی کہلاتے ہیں۔