سعودی عرب: لڑکھڑاتی بادشاہت کی جارحیت
جہاں ایک طرف سعودی بادشاہوں کی عیاشیوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے وہاں سعودی عرب میں غربت میں بھی تیزی آرہی ہے۔
جہاں ایک طرف سعودی بادشاہوں کی عیاشیوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے وہاں سعودی عرب میں غربت میں بھی تیزی آرہی ہے۔
ایک طرف ٹرمپ کی جیت سے پھیلنے والی مایوسی اور دوسری طرف اس سے وابستہ امیدیں، دونوں کے ٹوٹنے کے لئے بہت طویل عرصہ درکار نہیں ہو گا۔
کوئی جیتے یا ہارے، امریکی انتخابات میں جیت وال سٹریٹ کی ہی ہوتی ہے۔
حکمران طبقے نے بہت چالاکی سے کراچی پر حکمرانی کرنے والے ظالموں کے پہلے گروہوں کی جگہ پردیگر ظالم گروہوں کو مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔
بحرانوں میں اپوزیشن پارٹیاں اپنے مجرمانہ کردار کے حامل قیدیوں کو چھڑاتی ہیں۔ دھرنوں اور لاک ڈاؤن کی دھمکیوں اور یلغار کی آڑ میں کئی طرح کی سودے بازیاں ہوتی ہیں۔
تحریک انصاف ایک ایسا غبارہ ہے جس کی ہوا کئی بار نکلنے کے بعد ریاست اور میڈیا کے کچھ حصوں کی جانب سے دوبارہ بھرتی جاتی رہی ہے لیکن یہ عمل ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتا۔
ایسی کیفیات میں جھوٹ اور منافقت کا راج زوروں پر ہوتا ہے اور جن کے منہ سے حادثاتی طور پر بھی سچ نکل جائے وہ پہلا نشانہ بنتے ہیں۔
جب تک محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان میں نہیں اترتا، یہ ریاستیں ان کو برباد کرتی رہیں گی۔
امریکی سامراج کے خطے میں تیزی سے زوال اور کمزوری کی بدولت مشرقی وسطیٰ میں ایک خلا پیدا ہوا ہے جسے مختلف علاقائی قوتیں اپنے سامراجی عزائم کے تحت پرکرنے کی کوششوں میں ہیں۔
صرف نواز لیگ ہی نہیں، دولت کی اس مسلط کردہ سیاست کا ہر نمائندہ اس کے آگے بچھا جا رہا تھا۔
کوربن کے خلاف چلنے والی مہم دوسری جنگ عظیم کے بعد کے عرصے میں اپنی مثال نہیں رکھتی۔
اگر موصل سے داعش کا صفایا بھی کردیا جاتا ہے تو نہ داعش ختم ہوگی اور نہ ہی یہ بربریت، جس میں بہت سے مذہبی گروہ خون کی ہولی کھیل رہے ہیں اور ریاستیں ان کی پشت پناہی کررہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پارٹی کے اتنے زوال کے بعد اس کی بحالی ہوسکے گی؟
اس نظام کے رکھوالوں کی خواہشات کے برعکس ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ نہیں ہو پایا اور آج عالمی سرمایہ داری ایک ایسے گہرے اور طویل معاشی بحران میں دھنس چکی ہے جس کا موازنہ 1929ء سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
آج اسلامی بنیاد پرستی کی بربریت ہو یا سامراجی قوتوں کی وحشت، افغانستان اور دنیا بھر کے عوام کے لئے وہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔