نجکاری کے نئے حملے کی تیاریاں
صحت، تعلیم، پانی، نکاسی آب اور دوسرے سماجی شعبوں کی نجکاری نے عوام کی زندگیوں پر قہر نازل کردیا ہے۔
صحت، تعلیم، پانی، نکاسی آب اور دوسرے سماجی شعبوں کی نجکاری نے عوام کی زندگیوں پر قہر نازل کردیا ہے۔
جو بھی تھوڑا بہت روزگاریہاں پیدا ہوبھی رہا ہے وہ سارا اسی غیر رسمی معیشت سے منسلک ہے۔ ورنہ ریاست کے پاس کوئی ایسی پالیسی موجود ہی نہیں جس سے سماج کو ترقی دی جاسکے۔
س نظام میں منافع کی ہوس بڑھتے بڑھتے ان سرمایہ داروں کی حالت ایک ایسے خونی بھیڑیے کی مانند ہوگئی ہے جس کے جبڑوں کو جب انسانی خون لگ جاتا ہے تو اسکی ہوس مزید بڑھ جاتی ہے۔
نیا سال پرانے سال کا ہی تسلسل ہو گا لیکن اس کی شدت پچھلے سال سے زیادہ ہو گی۔ غیر معمولی عدم استحکام اب معمول بن چکا ہے۔
پاکستان کا شاید ہی کوئی دانشور، تجزیہ نگار، کالم نگار، بزنس مین، جرنیل یا سیاست دان ایسا ہوگا جس کوکبھی اس بلا نوشی کا اتفاق نہ ہوا ہو۔
انقلابی سوشلزم سے پارٹی قیادت اتنی خوفزدہ ہے کہ ان کو ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں عوام اس راستے پر باہر ہی نکل پڑیں۔
اوباما نے اپنے آپ کو ایک ’تبدیلی‘ کی علامت اور ذریعے کے طور پرپیش کیا تھا۔ لیکن جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔
شامی انقلاب میں عوامی ریلا تمام تفریقات کو بھلا کر نکلا تھا جس کا مقصد تبدیلی لانا تھا۔ لیکن ایک انقلابی قیادت کی عدم موجودگی اور واضح راستہ نہ ہونے کی وجہ سے اس خلا کو بنیاد پرستوں اور سامراجی یلغار نے پورا کیا۔
علیحدگی پسند اور دوسری مقامی قیادتوں کو اب ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جس میں ایسا لگتا ہے کہ بجائے نوجوان اور عوام ان کے نقش قدم پر چلیں، تحریک ان کو آگے کی جانب دھکیل رہی ہے۔
ایک فیس بک اور سوشل میڈیا کی دنیا ہے جس میں غرق افراد اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہی گریزاں ہیں کہ اس ملک میں 82 فیصد آبادی بنیادی انٹرنیٹ کی سہولت سے ہی محروم ہے۔
بھٹو نے لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شراب نوشی کا سر عام اعتراف کیا تھا جس پر سامعین نے بہت تالیاں بجائی تھیں اور داد دی تھی۔
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ چترال سے آنے والے پی آئی اے کے طیارے کے بلیک باکس کی بجائے’’بلیک بکرے‘‘ کا اتنا زیادہ پرچار کردیا گیا ہے کہ لوگ بلیک باکس کی سائنسی معلومات کو ہی فراموش کر بیٹھیں۔
وسیع پیمانے پر آلودگی پیدا کرنے والے کوئلے کے پاور پلانٹ چین سے اکھاڑ کر اب پاکستان میں لگائے جا رہے ہیں اور یہاں کے حکمران ڈھٹائی اور بے شرمی سے اسے کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔
اگر نوازشریف کو اوپر سے کسی بھی طریقے سے ہٹا دیا جاتا ہے، جس کے امکانات ہیں، تو نئی حکومت اس سے کم بدعنوان، استحصالی، منافق اور جھوٹی نہیں ہوگی۔
80ء کی دھائی سے ٹریڈ یونین کی ترقی معکوس سمت میں رہی ہے، کل مزدوروں کا محض ایک فیصد سے بھی کم حصہ ٹریڈ یونینوں میں منظم ہے۔