ضابطہ

(لیون ٹراٹسکی کے نام)
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل
یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل
یہ ضابطہ ہے کہ بنوں دست و بازوئے قاتل
یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ دل
یہ ضابطہ ہے حقیقت کو اک فسانہ کہوں
یہ ضابطہ ہے قفس کو بھی آشیانہ کہوں
یہ ضابطہ ہے کہوں دشت کو گلستاں زار
خزاں کے روپ کو لکھوں فروغِ حسنِ بہار
ہر اک دشمنِ جاں کو کہوں میں ہمدم و یار
جو کاٹتی ہے سرِ حق وہ چوم لوں تلوار
خطا و جرم لکھوں اپنی بے گناہی کو
سحر کا نور لکھوں رات کی سیاہی کو
مرے جنوں کو نہ پہنا سکو گے تم زنجیر
نہ ہو سکے گا کبھی تم سے میرا ذہن اسیر
جو دیکھتا ہوں، جو سچ ہے کروں گا وہ تحریر
متاعِ ہر دو جہاں بھی نہیں بہائے ضمیر
نہ دے سکے گی سہارا تمہیں کوئی تدبیر
فنا تمہارا مقدر، بقاء مری تقدیر

(حبیب جالب)