عورت اور سرمایہ دارانہ نظام

دیوار کو آ توڑیں، بازارکو آ ڈھائیں!

| تحریر: کائنات |
brick kiln working womenایک محنت کش عورت کی زندگی اس کے آس پاس اور گھر سے شروع ہوکر خاندان اور کام کی جگہ پر گھومتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی دوسری ذلتوں اور اذیتوں کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشی بحران کے اس بدترین زوال نے عورت پر جاری مسلسل جبر و ظلم کی لاٹھی کو مزید مضبوط بنا دیا ہے۔ غیرت کے نام پر عورت کا قتل ان پر تیزاب پھینک کر چہرے کو مسخ کردینا، زندہ جلانا اور گھریلو تشدد تو اس سماج کا معمول بن چکا ہے۔ اس درندگی کا اور ظلم کا نشانہ بننے والی عورتوں کی اکثریت غریب گھرانوں اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ظلم کسی شکل میں بھی ہو ، وحشت اور جبر کوئی بھی روپ دھار لیں سارے عذاب غریبوں پر ہی نازل ہوتے ہیں۔ مارکسسٹوں کے لیے سماج کی طبقاتی تقسیم تمام تر جبر کی بنیاد ہے لیکن جبر کی اشکال مختلف ہو سکتی ہیں۔ طبقاتی جبر کے ساتھ ساتھ ایک قوم کے دوسری قوم پر جبر کی طرح خواتین پر جبر بھی اس سماج میں جاری ہے۔ عورت کسی بھی معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، لیکن موجودہ عہد کے سماج میں عورت کے کردار کو سمجھنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔ سماج کی ہر پرت میں عورت استحصال کا شکار نظر آتی ہے۔ آج کی عورت اس نیم سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ اقتصادی رشتوں کی وجہ سے اس معاشی بدحالی کا شکار ہے جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ یہ تمام تر غیرانسانی کیفیات اس نظام زر کی پیدا کردہ ہیں۔ بحیثیت مجموعی عورت گھر فیکٹری، یونیورسٹی، کالج، میڈیا انڈسٹری ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس سفاک نظام کی درندگی کا شکا ر ہونے والی سب سے بڑی جنس بنادی گئی ہے۔
پاکستان میں عورت کی حیثیت اور ناگفتہ بے حالت کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگا سکتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ اور یہی نہیں دی نیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق زچگی کے دوران مختلف پیچیدگیوں کے باعث 150080 خواتین بچے کو جنم دیتے وقت دم توڑ جاتی ہیں۔ پاکستان جیسا ملک جس میں 74 فیصد عورتیں ناخواندہ ہیں اور ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 58 فیصد کل آبادی غربت میں رہ رہی ہے اور خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے، جبکہ 29.6 فیصد شدید بھوک کا شکار ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ایک کروڑ 20 لاکھ لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں جس میں سے دس لاکھ پہلی سالگرہ سے پہلے فوت ہو جاتی ہیں۔ اس وقت انڈیا میں جسم فروشی کی منڈی سے قانونی طور پر منسلک خواتین کی تعداد 6 لاکھ 80 ہزار ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق اس منڈی عورتوں کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے، جس میں 12 لاکھ کم سن بچیاں بھی شامل ہیں جن کی عمر 18 سال سے کم ہے۔
حکمران اور درمیانے طبقے میں عورت کے استحصال اور شعوری یا لاشعوری طور پر اس کی قدر و منزلت، حیثیت اور رتبہ اور صنفی تعصبات کی وجہ بھی موجود ہے۔ اسکی مختلف شکلیں اور کیفیتیں ہیں۔ لیکن پھر آخری تجزیے میں عورت کی سماجی حیثیت بھی اس کی معاشی اور طبقاتی حیثیت سے ہی مطابقت رکھتی ہے۔ موجودہ عہد کی عورت جن مسائل کا سامنا کر رہی ہے، ان سے نجات پھر صرف طبقاتی جدوجہد میں ہی ہے۔
ماضی میں بورژوا نقلابات نے ’انسان کے حقوق‘ کی بات کی لیکن عملًا ان انقلابات میں عورت کو برابری حاصل نہ ہوسکی۔ دراصل سرمایہ داری میں عورت کی پیش رفت کچھ طبقاتی جدوجہد کی وجہ سے ہے اور کچھ پیداوار میں عورت کے تبدیل شدہ کردار کی وجہ سے ہوئی۔ 1848ء میں مارکس اور اینگلز نے بورژوا خاندان کے خاتمے کا مطالبہ پیش کیا تاہم ان کو معلوم تھا کہ خاندان کو ایک دم ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مادی بنیادوں کی موجودگی کے بغیر یہ مطالبہ پور ا نہیں ہو سکتا۔ یہ تب ممکن ہے جب سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکا جائے جس کی بنیاد پیداواری ہم آہنگی اور جمہوری منصوبہ بندی پر ہو اور انتظامی معاملات میں پورا معاشرہ حصہ لے۔ ایک بار پیداواری قوتیں ذاتی ملکیت اور قومی ریاست کی جکڑ سے آزاد ہو جائیں تو معاشی خوشحالی کی ایک ناقابل یقین سطح پر فوراً پہنچا جا سکے گا۔ خوف، لالچ، ہوس اور حسد کی پرانی ذہنیت تب ختم ہوگی جب ان مادی بنیادوں کو ختم کیا جائے گا جس نے انہیں جنم دیا تھا۔ زندگی کے حالات مرد اور عورت کے درمیان رشتوں اور ان کی سوچ اور فعل کی تبدیلی کے لیے راستہ صاف ہوگا۔ سماجی وجود ہی انسان کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ طبقاتی معاشرے کی بربریت جو خود غرضی، اناپرستی اور لوگوں کی بدحالی سے لاپرواہی پر زور دیتی ہے، یہ غلام داری کے باقیات ہیں۔
ہم مرد اور عورت کی مکمل برابری پر مبنی نئے سماج کی بات کرتے ہیں۔ جہاں ایسا معاشرہ سرمایہ دارانہ بربریت کی موجودگی میں قائم کرنا ناممکن ہے، وہاں ہمیں کم از کم ایک حقیقی پرولتاری اخلاقیات کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اور تحریک سے ان پسماندہ رجحانات کو نکال باہر کرنا چاہیے جو مرد اور عورت کے اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
طبقاتی سماج کے گند سے جنم لینے والی غلامانہ ذہنیت کے بالآ خر خاتمے سے ایک نئے مرد اور عورت کا جنم ہوگا جو پرانی تنگ نظر غلامانہ نفسیات سے حقیقی معنوں میں آزاد ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنے کے قابل ہونگے۔ مرد اور عورت مادی اشیاء کے لیے ذلت آمیز جستجوجو انسانی زندگی کو ذلیل اور مسخ کرتی ہے، سے آزاد ہونے پر پہلی مرتبہ یہ ممکن ہو گا ہ وہ بحیثیت انسان ایک دوسرے سے جڑیں۔ بیرونی دباؤ ، اناپرستانہ حساب کتاب یا ذلت آمیز انحصار سے آزاد ہو کر مرد اور عورت کے درمیان تعلقات حقیقی برابری کی بنیاد پر قائم ہونگے۔ آج جب حالات اتنے تلخ ہوچکے ہیں تو محنت کش طبقہ اتنے ہی بلند پیمانے پر حرکت میں آئے گا اور سب کچھ بدلتے ہوئے اپنے مقصد کی تکمیل کرے گا اور اس نظام کو للکارتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھے گا، جو ان کی نجات کی واحد ضمانت ہے۔