سرمایہ دارانہ نظام کیوں متروک ہے؟

[تحریر: لال خان]
سیاسی تماشوں سے لے کر فوجی مہمات، بنیاد پرستی، آئین کی پیچیدگیوں اور عدلیہ کی آزادیوں پر تو بحث و مباحثے دن رات میڈیا پر ہوتے ہیں لیکن بستر مرگ پر پڑی معیشت اور عوام کی بربادیوں کی بات شاید ہی کوئی کرتا ہو۔ پاکستانی سرمایہ داری کے تباہ کن بحران نے آبادی کے وسیع حصے کو معاشی بربادی میں غرق کر دیا ہے۔ اس نظام معیشت کے ’’ماہرین‘‘ کی مفلوج اور معذور معاشی پالیسیوں میں سماجی ترقی کی کوئی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ الٹا حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں معاشی دہشت گردی اگرچہ کھلا قتل عام کررہی ہے لیکن دنیا کے دوسرے خطوں، خاص کر ترقی یافتہ مغرب میں بھی سرمایہ دارانہ نظام عوام کا معیار زندگی مسلسل گراتا چلا جارہا ہے۔
پاکستان کے ’’ معیشت دان‘‘ جن سامراجی معاشی ماہرین کی بیہودہ تقلید اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں ان کے اپنے تناظر عالمی سرمایہ داری کی تیز گراوٹ نے غلط ثابت کردئیے ہیں۔ بی بی سی کے معاشی نامہ نگار اینڈریو واکر نے اپنے حالیہ مضمون میں واضح کیا ہے کہ 2008ء مالیاتی کریش سے بحالی میں عالمی سرمایہ دارانہ معیشت ناکام رہی ہے۔ اپنے مضمون کا آغاز وہ کچھ یوں کرتا ہے کہ ’’کیا ہم مالیاتی بحران پر کبھی بھی قابو پا سکیں گے؟ چھ سال قبل شروع ہونے والی گراوٹ سے نکلنے کی کوشش عالمی معیشت ابھی تک کررہی ہے۔ قرضہ، جس سے یہ سارا بحران شروع ہوا تھا اب بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے … دنیا کا کل قرضہ عالمی جی ڈی پی کے 385 فیصد پر کھڑا ہے جو کہ تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ اس کامطلب ہے کہ یہ ممالک جو مجموعی دولت معیشت کے تمام شعبوں میں پیدا کرتے ہیں اس سے چار گنا زیادہ قرضہ ان کے ذمے واجب الادا ہے۔ نوبل انعام یافتہ معیشت دان پال کرگمین کے بقول یہ سارا قرضہ ریاستوں نے نہیں بلکہ عوام نے ادا کرنا ہے۔‘‘

عالمی قرضے کا گراف (فنانشل سیکٹر کا قرضہ شامل نہیں)

2008ء کے معاشی بحران کے بعد سے دنیا بھر میں حکمران طبقہ ایک کے بعد دوسرے بحران میں لڑکھڑا رہا ہے۔ نظام میں پڑنے والی دراڑوں کو کاغذ چڑھا کر چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 2008ء سے قبل، کئی سالوں تک اس نظام کے دانشور دنیا کو یہ یقین دلانے میں مصروف تھے کہ سرمایہ داری کے تضادات پر قابو پا لیا گیا ہے، معاشی اتار چڑھاؤ کا سائیکل قصہ ماضی ہو چکا ہے اور ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز بس ہونے کو ہے۔25 مارچ 1868ء کو کارل مارکس نے فریڈرک اینگلز کے نام خط میں لکھا تھا کہ ’’انسانی تاریخ بھی فوسلز کے سائنسی مطالعے کی طرح ہے۔ بہترین ذہانت بھی آنکھوں کے سامنے پڑی چیز دیکھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ بعد میں جب وقت آتا ہے تو ہم ہر طرف اس چیز کے شواہد دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں جو پہلے نظر ہی نہیں آرہی تھی۔‘‘
1991ء میں دنیا بھر میں حکمران طبقے نے ’’کمیونزم کی حتمی شکست‘‘ پر شادیانے بجائے تھے۔ سامراج کے دانشوروں نے تو پاگل پن میں ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کاہی اعلان کر دیا تھا۔سوویت یونین کے انہدام نے مزدور تحریک کو عارضی پسپائی سے دوچار کیا اور رجعت کے اس عہد میں بڑے بڑے ’’کمیونسٹ‘‘ راتوں رات ’’لبرل‘‘ ہو کر اصلاح پسندی اور این جی اوز کے کاروبار میں غرق ہوگئے۔ اس مشکل وقت میں بھی مارکسزم کے ادراک کو سیاسی جدوجہد کا حصہ بنانے والے وضاحت کرتے رہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات نا حل پزیر ہیں جو بہت جلد عالمی معیشت کو بحران سے دوچار کر یں گے۔قرضوں میں اضافے، سٹہ بازی، سابق سوویت بلاک اور چین میں ملنے والی نئی منڈیوں، تیسری دنیا میں سستی لیبر کے استحصال اور قدرتی وسائل کی لوٹ مار نے سرمایہ داری کو وقتی آکسیجن تو فراہم کی لیکن تضادات کو دبا کر بحران کو ٹالنے کا نتیجہ زیادہ بڑے اور گہرے کریش کی شکل میں برآمد ہوا۔
1990ء کی دہائی میں، کئی ممالک میں نیشلائزیشن کے تحت چلنے والی منصوبہ بند معیشتوں کے خاتمے کے بعد کم و بیش ایک ارب افراد محنت کی عالمی منڈی کا حصہ بنے جس سے عالمی سرمایہ داری کو وقتی سہارا ملا ۔ پسماندہ ممالک میں ہونے والی پیداوار کو یورپ اور امریکہ میں کھپانے کے لئے قرضوں کے ذریعے مصنوعی قوت خرید پیدا کی گئی، سٹہ بازی عروج پر پہنچی اور 2008ء میں جعلی سرمائے (Fictitious Capital) کا یہ پہاڑ زمین بوس ہو گیا۔ زائد پیداوار کے بحران نے اپنا اظہار بینکوں کے انہدام کی شکل میں کیا۔ معیشت میں ریاست کی مداخلت کو ہر برائی کی جڑ قرار دینے والے ’’آزاد منڈی‘‘ کے علمبردار جب دیوالیہ ہونے لگے تو اسی ریاست کو مداخلت پر مجبور کیا گیا اور ریاستیں، بینکوں کے قرضے خرید کر خود دیوالیہ ہونے لگیں ۔’’آزاد منڈی‘‘ کی ’’آزادی‘‘ یہی ہے کہ منافع پراویٹائز ہوتا ہے اور نقصان نیشنلائز کر کے عوام پر لاد دیا جاتا ہے۔گزشتہ سات سال سے پوری دنیامیں یہی ہورہا ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی وہ مراعات ایک ایک کر کے واپس چھینی جارہی ہیں جو محنت کش عوام نے لمبے عرصے کی جدوجہد کے بعد حاصل کی تھیں۔ معاشی بحران، سیاسی انتشار اور سماجی افرا تفری نے پورے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ غیر معمولی واقعات تسلسل اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ سرمایہ داری اپنی اساس میں مقابلہ بازی اور معاشی عدم استحکام پر مبنی نظام ہے جس میں حکمران طبقے کے مختلف دھڑے منافعوں کی اندھی دوڑ میں نہ صرف محنت کش طبقے بلکہ ایک دوسرے سے بھی مسلسل برسر پیکار رہتے ہیں۔
سامراج کے دور اندیش اور سنجیدہ تجزیہ نگار سرمایہ داری کے بحران کی وجوہات جاننے کے لئے نہ صرف مارکس سے رجوع کرتے ہیں بلکہ بنیادی نکات پر بڑی حد تک اس سے متفق بھی ہیں۔ لیکن یہ لوگ اس نتیجے سے کبھی متفق نہیں ہوسکتے جو مارکس اخذ کرتا ہے یعنی ’’سماج کے معاشی ڈھانچوں اور پیداواری رشتوں میں بنیادی تبدیلی۔‘‘ دوسرے الفاظ میں ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کا مکمل خاتمہ۔ دوسری چوائس جو حکمران طبقے کے ان پالیسی سازوں کے پاس بچتی ہے وہ تضاد در تضاد کے شکار اسی نظام کو سطحی اقدامات کے ذریعے ’’ٹھیک‘‘ کرنے کی ہے۔ان کی مثال اس طبیب کی سی ہے جو بیماری کی بجائے علامات کا علاج کرتا ہے۔سطح کے نیچے کارفرما عوامل کو سمجھے بغیر اٹھائے گئے اقدامات ایک مسئلہ اگر حل کرتے ہیں تو اس سے کہیں بڑا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ خود کا دلاسہ اور عوام کو دھوکہ دینے کے لئے آخر کار یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ’’وقت کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہوجائے‘‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اصلاحات کی گنجائش اس نظام میں عرصہ پہلے ختم ہو چکی ہے۔حالات و واقعات ایک کے بعد دوسرے ملک کے عوام سے ’’بربریت یا سوشلزم؟‘‘ کا سوال زیادہ تلخ انداز سے پوچھ رہے ہیں۔ سلگتا ہوا یہ سوال محنت کش طبقے کی روایتی اصلاح پسند قیادت کا بھی امتحان لے رہا ہے۔
تاریخ کا مطالعہ دانشورانہ مو شگافیوں کی بجائے سماجی ارتقا کے بنیادی عوامل جاننے کے لئے کیا جانا چاہئے۔ صرف اسی صورت میں سمجھا جاسکتا ہے انسانی سماج کے ارتقا کو آگے بڑھانے والی مادی قوتیں موجودہ عہد میں کس طرح سے کارفرما ہیں اور معاشی تضادات کیونکر طبقاتی جدوجہد کو جنم دیتے ہیں۔ حکمران طبقے کے دانشوروں کے لئے یہ علم سات مہریں لگا کر بند کی گئی ممنوعہ کتاب کے مترادف ہے۔ ان کے نزدیک بے ترتیب واقعات کا مجموعہ ہی تاریخ ہے اور معیشت ایک ایسا ’’پراسرار‘‘ مظہر جسے سمجھا نہیں جاسکتا بلکہ توجیہات ہی پیش کی جاسکتی ہیں۔اس سماج میں ڈگریوں اور عہدوں کی فہرست جوں جوں طویل ہوتی ہے، جہالت کا تعفن بھی ناقابل برداشت ہوتا چلا جاتا ہے!
آج کا سرمایہ دار حکمران طبقہ ماضی کے جاگیر داروں کی طرح تاریخ کی اندھی کھائی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ عوام کو دینے کے لئے ان کے پاس بربادی، ذلت اور غربت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انسانیت کے مستقبل کے امین یہ مٹھی بھر حکمران نہیں بلکہ کروڑوں اربوں محنت کش ہیں جو اس نظام میں تمام تر دولت پیدا کرنے کے باوجود بھی ہر آسودگی سے محروم ہیں۔ یہ کھلواڑ زیادہ عرصے تک چلنے والا نہیں ہے!

متعلقہ:

بہتات میں قلت سے سسکتی انسانیت

نوجوانوں کا مستقبل کہاں ہے؟

یونان: یورپ کی نئی امید؟

امریکہ: ’’کمتر برائی‘‘ کا نامراد نظریہ!

کارپوریٹ گدھ