[تحریر: قمرالزماں خاں]
گزشتہ روز دوخبریں ایک ہی وقت میں سننے کو ملی ہیں۔ ایک اچھی خبر کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔ دوسری خبر ہمیشہ کی طرح بری کہ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں آئندہ ماہ (جنوری 2015ء) سے اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان دونوں خبروں کو اگر ایک اور بڑی خبر کے تناظر میں دیکھا جائے تو پھر حکمرانوں کے کارناموں اور ’’قوم و ملک ‘‘ کے لئے ان کے جذبات کو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔ خبر یہ ہے کہ جولائی 2008ء میں 147 ڈالر فی بیرل اور اس سال کے وسط تک 100 ڈالر فی بیرل رہنے والا تیل اب جنوری 2015ء کے سودوں کے لئے تقریباً 50 فیصد مزید گر کر54 ڈالر فی بیرل تک ہوچکا ہے۔ تیل کی قیمتیں ان دنوں گری ہیں جب ڈالر بھی 110 روپے سے کم ہو کر 100 کے آس پاس آچکا ہے۔ لیکن پاکستان میں تیل کے نرخوں میں صرف 25 فیصد کمی کی گئی ہے۔ نہ صرف پیٹرولیم مصنوعات بلکہ بجلی کے نرخوں میں بھی40 سے 50 فیصد کمی کی واضح گنجائش حکومت کے پاس موجود ہے۔ اسی صورت میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کے فوائد عوام تک پہنچائے جاسکتے ہیں۔ اس کمی سے معیشت کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی ہوگا۔ قوت خرید بڑھے گی اور روز مرہ ضرورت کی اشیا کی قیمت کم ہونے پر ’’معاشی سائیکل‘‘ کے تیز ہونے کے امکانات واضح ہیں۔ اسی طرح مینوفیکچرنگ اور تجارت میں اضافے سے نیا روزگار پیدا ہو گا۔
وزیر خزانہ حکمران طبقے کے دوسرے نمائندوں کی طرح سچائی اور حقیقت پسندی کا راستہ کسی طور اختیار کرنے پر تیار نہیں ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کی وجوہات میں بھی ڈنڈی ماری جارہی ہے۔ حکومت کی ’’مالیاتی پالیسیوں‘‘ کو اسکی وجہ قراردیا جارہا ہے جو سراسر غلط بیانی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان کی اپنی کوئی مالیاتی پالیسی سرے سے موجود ہے نہ کبھی رہی ہے۔ سامراجی مالیاتی ادارے ہی اس ملک کی معاشی پالیسیوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والے قرضے کی تازہ قسط اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں تیز گراوٹ کی وجہ سے بڑھے ہیں کیونکہ ریاست کو درآمدی تیل کی ادائیگیوں میں بچت ہورہی ہے۔ پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں کی گئی کمی عالمی قیمتوں سے کسی طور مناسبت نہیں رکھتی۔ عالمی معاشی ماہرین کے مطابق اگر تیل کی قیمتیں 60 ڈالر فی بیرل ہوں تو اس سے عالمی سطح پر صارفین کو کم ازکم 1300 ارب ڈالر کا فائدہ ہونا چاہئے۔ مگر پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتو قیمتوں میں فوری اضافہ کردیا جاتا ہے مگر کمی پر معمولی سے ریلیف کو سیاسی کارنامہ بنا کرپیش کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں غیر معمولی کمی کے برعکس پاکستان میں معمولی سی کمی کا عندیہ عوام دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔
عوام کے خلاف جاری سرمایہ دارانہ منافعوں کی جنگ کا ایک میدان بجلی کے نرخوں میں نہ رکنے والا اضافہ ہے۔ کمی کے ریاکارانہ اعلانات کے برعکس حقیقی طور پر اضافوں کی بھرمار جاری ہے۔ بجلی کے نرخوں میں کئی طرح کے اضافے کئے جاتے ہیں جو بجلی کے صارفین حتیٰ کہ خود واپڈا ملازمین کی سمجھ سے بھی باہر ہوتے ہیں۔ جابجا ٹیکسوں اور جرمانوں کے ساتھ نام نہاد ’’فیول ایڈجسٹ منٹ‘‘ کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ 2014ء کے آخری مہینوں میں بجلی کے نرخوں میں کمی کو واپس لے لیا گیا ہے۔ نومبر، دسمبر اور جنوری 2015ء کے بلوں میں قسطوں کی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ’’ریلیف‘‘ والی رقم کی واپسی ہورہی ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ ریلیف 70 ارب روپے کی زائدبلنگ ثابت ہونے پر سیاسی دباؤ اور عدالتی فیصلے کے تحت دیا گیا تھا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں تاریخی کمی کے بعد بجلی کے نرخ بھی خاطر خواہ کم ہونے چاہئیں کیونکہ کل پیدا ہونے والی بجلی کاتقریباً 40 فیصد درآمدی تیل سے بنتا ہے۔ باقی بجلی پانی اور گیس جیسے سستے ذرائع سے بنتی ہے۔ مگر بجلی کے نرخوں کو کم کرنے کی بجائے IMF کے حکم پربڑھانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اور یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ یہ حکومت اور ریاست عوام دوست ہیں نہ ہی پاکستان کے عوام کے پاس فی الوقت ایسی سیاسی طاقت اور قیادت موجود ہے جو ان کے معاشی، سماجی اور سیاسی مفادات کا تحفظ کرسکے۔ سیاست کے میدان میں موجود تمام پارٹیوں کی حیثیت اس استحصالی معاشی نظام اور سرمایہ داری کے آلہ کار سے زیادہ نہیں ہے۔ حکمران سیاست کا ہر رجحان عالمی مالیاتی اداروں کے تمام عوام دشمن احکامات کی تابعداری کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے پر عمل کرکے فوری طور پر بجلی کے نرخ کم کئے جائیں۔ تیل کی قیمتوں کے دوبارہ بڑھنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ عالمی سطح پر تیل کی صنعت پر اجارہ داری کے لئے سعودی عرب اور امریکہ (شیل پٹرولیم) کی لڑائی اتنی جلدی تھمنے والی نہیں ہے۔ اسی طرح وینزویلا، ایران اور روس کی معیشتوں کو کمزور کرنے کے لئے عالمی سطح پر جو ’’آئل گیم‘‘ کھیلی جارہی ہے اس کے متذکرہ بالا ممالک کو تو نقصانات ہوں گے مگر دنیا بھر میں تیل کی کھپت کرنے والی مصنوعات، سروسزاور ٹرانسپورٹ کے شعبے کو زبردست فوائد حاصل ہورہے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی ایک تہائی پیداوار نجی IPPs کرتی ہیں جن کے ہوشربا منافعوں اور لوٹ مار میں ایندھن کی قیمت میں تیز گراوٹ کے بعد مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستانی حکومت اور اسکی رنگ برنگ کی اپوزیشن پارٹیاں عوام کو مسلسل گمراہ رکھنا اپنا اولین سیاسی فرض سمجھتی ہیں۔ درآمدی بل کم ہونے کی وجہ سے ڈالر روپے کے مقابلے میں مزید نیچے گرسکتا ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں صارفین کی بچت بڑھنے کی وجہ سے پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی (ترسیلات زر)رقوم میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس ساری صورتحال کا براہ راست فائدہ اس عوام کو ہونا چاہئے جو1994ء میں ’’نجی شعبے‘‘ کے وارد ہونے کے بعد سے مقامی اور سامراجی IPPs کی تجوریاں بھر رہے ہیں۔
اگر موجودہ صورتحال میں بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائے گئے تو مہنگائی کی ایک اور لہر عام لوگوں کی زندگی اجیرن کردے گی۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے کھاد کی قیمتوں میں فوری اضافہ ہوجائے گا جس سے زرعی اجناس کی پیداوراری لاگت بڑھ جائے گی۔ بجلی مہنگی ہونے سے زندگی کے ہر شعبے پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ’’دھرنوں سے معیشت پر مضر اثرات مرتب ہوئے‘‘ کے حکومتی موقف کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ریاست کے ایک دھڑے کی جانب سے رچائے جانے والے اس ڈرامے سے بھی حکمران خوفزدہ تھے اور اب ’’خطرہ‘‘ ٹل جانے کے بعد عوام پر نئے سرے سے معاشی حملے شروع ہونے والے ہیں۔ مہنگائی میں اضافے کے یہ اقدامات ثابت کرتے ہیں کہ شریف برادران کی ’’سنجیدگی‘‘ محض دکھاوا اور ڈرامہ بازی ہے۔ ان کی سنجیدگی اپنی صنعتی اور کاروباری سلطنت کو ترقی اوروسعت دینے کے علاوہ کسی شعبے میں نظر نہیں آتی، کم ازکم عوام کو معاشی طور پر سانس دلوانے پر انکا کوئی یقین نہیں ہے۔
موجودہ معاشی تبدیلیاں ایک بار پھر ثابت کرتی ہیں کہ ’’منڈی ‘‘کے تمام نقصانات صارفین (محنت کش طبقے) پر ڈالے جاتے ہیں اور فوائدلینے والے یا تو کاروباری کارٹیل ہیں یا پھر ریاست اس بچت سے سامراجی مالیاتی اداروں کی جھولی بھر دیتی ہے۔ ریاست کا کرداراپنے معاشی نظام سے وضع ہوتا ہے۔ منڈی کی معیشت پر یقین رکھنے والی حکومت کو ’’منڈی کی قوتوں‘‘ کی اطاعت کرنا پڑتی ہے اور یہی قوتیں معاشی حاصلات کو عوام کی بجائے انکے مدمقابل کھڑی کمپنیوں، بنکوں اور تجارتی قوتوں کی طرف کردیتی ہیں۔ تیل کی قیمتوں کی عالمی سطح پر بے نظیر گراوٹ نے ایک بار پھر ’’حکمران طبقے‘‘ کے حقیقی نظریات، نقطہ نظر اور عوام کی جانب انکے نام نہاد جذبات کو بے نقاب کردیا ہے۔ حالات برے ہوں تو بھی عوام سے قربانی مانگی جاتی ہے اور اگر کہیں سے کوئی ریلیف ملے تو عوام کو اسکے ثمرات اور فوائدسے محروم رکھا جاتا ہے۔
اس نظام میں رہتے ہوئے کسی ’’اچھے‘‘ کی گنجائش بالکل ختم ہوچکی ہے۔ حسب توقع ’’نظام بدلنے‘‘ کے لئے میدان میں نکلی ’’ریڈی میڈ سیاسی قوتوں‘‘ نے پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا شروع کردیا ہے۔ انکی ’’تبدیلی‘‘ کا مطلب بھی اسی نظام میں ایسی تبدیلی ہے جو انکو اقتدار کے قریب کرسکے۔ عوام کے لئے تبدیلی تب ہوگی جب پورے کا پورا نظام ہی انکے مفادات کو مدنظر رکھ کر تشکیل دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب عوام کی اقتدار میں براہ راست شرکت ہو۔ ’’خواص‘‘ کے اس سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش عوام کا کردار محنت سے دولت پیدا کرنے والے پرزوں سے زیادہ نہیں ہے اور حکمرانی کاحق اس دولت کو لوٹنے والے طبقے کے پاس ہے۔ اس تناظر میں عام لوگوں کو کہیں سے غیبی مد د ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی اور قیادت انکے مفادات کی سیاست کررہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں محنت کشوں اور پسے ہوئے طبقات کی اپنی کوئی قیادت سماج میں اسکے مفادات کی لڑائی لڑنے کے لئے موجود نہیں ہے۔ اب راستہ تو یہی ہے کہ عوام کو اپنا حق چھیننے کے لئے ہرصور ت سیاسی میدان میں خود نکلنا ہوگا ورنہ رائج الوقت معیشت اور سیاست انکے لئے خسارے کا سامان ہے۔
متعلقہ:
تیل کا کھیل