سانحہ گیاری؛ سیا چن محاذ

تیرا میرا آسماں تو ایک ہے، پھر زمیں تقسیم کیسے ہو گئی؟

تحریر:رؤ ف لُنڈ:-

ماہ رواں کے دوسرے ہفتے کے آ غاز میں گیاری (سیاچن محا ذ)پر علیٰ الصبح تین، چار بجے تقریباً ایک کلو میٹر لمبائی چوڑائی اور تقریباً ڈیڑھ سو فٹ سطح رکھنے والے گلیشیر ( بر فانی تو دہ) کے تلے دب جانے والے پا کستانی فو جیوں اور عام شہریوں پر جو سانحہ گزرا ہے وہ انتہا ئی کرب ناک اور افسوس ناک ہے۔اس سانحہ کے شکا ر ہو نے والوں کو ’’اس جہان سے رخصت ہو نے والے‘‘کہنے سے اگر چہ ایک دکھ بھرا احساس ہو تا ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اب تک ان متا ثرین میں سے کسی کے بھی زندہ سلا مت بچ جانے کے کوئی امکا نا ت با قی نہیں رہے۔ کسی زلزلے کی وجہ سے ، کسی تودہ گرر نے سے یا کسی بھی دیگر بھاری بھر کم کو چ تلے آ جا نے والوں کی زند گی بچ جانے کے زیا دہ امکانا ت ابتدائی تین گھنٹوں، پا نچ گھنٹوں یا پھر آٹھ گھنٹوں تک ہو تے ہیں۔ لیکن جوں جوں وقت گزر تا جا تا ہے ایسے حا دثات کا شکار ہو نے والوں کی زند گی کے امکانا ت اسی رفتا ر سے کم ہوتے چلے جا تے ہیں۔ ایسے سانحوں سے دو چار ہو نے والوں کے لئے بچ جا نے کی دعائیں یا تسلیاں لواحقین کے دل رکھنے یا ان کا غم غلط کر نے کے سا تھ سا تھ دراصل یہ اعتراف بھی ہو تا ہے کہ اس نظام سرمایہ میں ایسا کوئی بندو بست ممکن نہیں کہ جس کے لئے سرما یہ کو نفع کی بجا ئے کسی بھلائی کے کام لا یا جائے۔ایسے حالات میں بعض اوقات تو دعا اور تسلیوں میں مبالغہ آمیزی اور معجزہ نمائی کے رحجانا ت بڑ ھاجا تے ہیں کہ کامران خان جیسے بزعم خو د نامی گرامی تجزیہ نگار اور دانشور اپنے ٹی وی پروگرام میں تیسرے چوتھے رو ز بھی فو جی ما ہرین سے یہ سوال کر تے پائے جا تے ہیں کہ ’’کیا ان لوگوں کے پا س کھا نےپینے کا کوئی سامان بھی ہے یا نہیں؟‘‘
اٹھا رہ ، انیس ہزار فٹ کی بلندی سے گزر نے والے بر فانی تو دے تلے دب جا نے والی139قیمتی جانوں کا دکھ اپنی جگہ لازمی امرسہی( اب تو ایک خبر کے مطابق اس فہر ست کے ایک ممبر آصف مسیح کے زندہ ہو نے کی اطلا ع آ ئی ہے کہ جب اخبا ر والے اس کے گھر گئے تو اس کی بیوی نے بتا یا کہ وہ زندہ ہے کیونکہ وہ تو دہ گز رنے سے چار، پانچ روز قبل ایک حا دثے میں زخمی ہو کر سی ایم ایچ سکر دو میں زیر علا ج ہے۔ یہاں یہ با ت بھی غور طلب ہے ایک خاکروب کو گلیشیر جیسے محا ذ پر بھیجنے کا کیا مطلب ؟ کہ جب وہاں نہ گند گی ہے نہ آ لو د گی ، کو ئی گر د وغبا ر نہیں اور کوئی گلی نا لی بھی نہیں لیکن طبقا تی نظام میں ایسی با توں کے سو چنے کے لئے بھلا کس کے پا س وقت ہو تا ہے؟) گیاری کے متاثر ین کے نکالنے کے لئے ملکی و غیر ملکی ماہرین کی ٹیمیں مسلسل کوششوں میں لگی ہو ئی ہیں لیکن بد قسمتی سے ہر لمحہ بدلتا ہو ا مو سم ان کے سا منے ایک نئی مشکل لا کھڑی کر تا ہے۔ اس وقت ہما را فریضہ ان اقدا ما ت یاان اقدما ت کے نتا ئج دیکھنا اور ان کو زیر بحث لا نا ہی واحد مقصد نہیں بلکہ اس با ت کو بھی دیکھنا ہے کہ ایسے محا ذ کھو لنے کی ضر ورت ہی کیا ہے۔ جد ید ٹیکنیک کے ایسے عہد میں اگر ایک جگہ بیٹھ کر ہزاروں کلو میٹر ز تک میز ائل داغے جا سکتے ہیں تو پھر یسے محا ذوں پر فوجیوں کو سسک سسک کر جا ن دینے کے لئے کیوں بھیجا جا رہا ہے؟اس کے پیچھے کیا نفسیا ت کار فرما ہے اور ایسے محاذ کھو لنے والوں کے مقاصد کیا ہو تے ہیں؟۔ ایٹمی طا قت ہو نے پر شیخیاں بگھارنے والے پا ک و ہند کے حکمرانوں نے کبھی یہ سو چا کہ تباہی کے آلا ت و اسباب پر اربوں ،کھربوں رقم خر چ کرنے کی بجائے آفتوں ، مصیبتوں ، دکھوں اور اذیتوں کا شکا ر ہو نے والوں کی زند گیوں کو محفوظ رکھنے کی طرف تو جہ دیں؟
لیکن اس استحصالی نظام میں ایسا کرنا، ایسا سوچنا ممکن نہیں ہوتا۔با لشویک انقلا ب کے بانی ولادیمیرلینن کے بقول جنگیں اور قدرتی آ فات محض خوفنا ک ہی نہیں خوفناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہیں۔ جنگوں اور قدرتی آفات کی خوفناکی کا شکار محروم اور محنت کش طبقہ ہوتا ہے۔ جبکہ حکمران طبقہ ان جنگوں اور آفات سے اپنے منافعوں میں خوفناک حد تک اضافہ کرتے ہیں۔
استحصال کرنے اور استحصال کیے جانے والے طبقوں میں کشمکش کی وجہ کچھ ہونے یا کچھ نہ ہونے کی ایک وسیع خلیج ہوتی ہے۔ حکمران طبقہ اگر ایک طرف اپنی ساری توجہ اپنے منافعوں کے بڑھانے پر مرکوز رکھتے ہیں تو دوسری طرف وہ محروم اور استحصال کیے جانے والے طبقے کے ممکنہ رد عمل سے خوفزدہ بھی رہتے ہیں۔ اس لئے وہ محروم طبقے کے ممکنہ رد عمل کے نتیجہ میں ابھرنے والی کسی تبدیلی یا تحریک کو ضائع کر نے یا اس کا رخ بدلنے کے لئے نان ایشوز (ایسے مسائل جن کا عام آدمی کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا) ابھارے جانے پر زیا دہ توجہ اور محنت صرف کر تے ہیں۔ حکمران طبقہ اپنی حکمرانی کبھی جمہوریت تو کبھی آ مریت کے ذریعے قائم رکھتا ہے۔ تاہم دونوں صورتوں میں ان کی قدر مشترک محنت کش طبقے کا استحصال کرنا اور اسے جاری رکھنا ہو تا ہے۔ حکمران طبقہ اپنے استحصال کو عوام کے ذہن میں قابل قبول بنا نے کے لئے کئی حربے اختیار کرتا ہے اور تقدس کے لئے جذبے تخلیق کر تا ہے۔ حکمران طبقے نے اس حوالے سے آج تک جن جذبوں اور جس تقدس کو استعمال کیا ہے وہ مذہبی جذبات اور وطن کا تقدس ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حکمران طبقہ خود کو ہمیشہ مذہب اور وطن کے تقدس سے بالا و مبرا سمجھتا ہے۔
پاکستان کی عوام کو تحریک پاکستان اور تخلیق پاکستان سے لے کر اب تک (ماسوائے 1968-69ء کی انقلابی تحریک اور پھر اس تحریک کے دباؤ کی وجہ سے 1972-74ء تک کی حاصلا ت کے) ہر عہد میں نت نئے نان ایشوز میں الجھایا گیا ہے۔ ضیاءالحق آمریت میں اس کا تناسب کچھ زیادہ رہا ہے۔ ضیاءآمریت میں 1968-69 ء انقلا بی سرکشی کی جسارت کرنے والے محنت کش طبقے کو سزا کے لئے جس طر ح تختہِ مشق بنایا اسے نہ صرف تاریخ میں سیاہ دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا بلکہ اس عہد کے منحوس سائے اب تک بھی دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو ایک طرف جبر کے ذریعے قائم رکھا تو دوسری طرف اس جبر کی شد ت سے تو جہ ہٹا نے کے لئے کئی نان ایشوز کھڑے کیے۔ ان نان ایشوز کی اگر چہ ایک طویل لسٹ ہے۔ لیکن تین ایسے نان اشوز ہیں جو قابل ذکر ہیں۔ پہلا، ضیاء دُور میں پولیس کے ایک سپاہی کو ولایت کے درجہ پر فائز کیا گیا۔ پو لیس کا یہ کانسٹیبل پیر سپاہی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کی کرامت یہ تھی کہ وہ لوگوں کے دکھوں، بیماریوں اور تکلیفوں کا علا ج پانی پر پھونک مار کر تا تھا۔ اس کے اس ناٹک کاہوا اتنا ابھارا گیا کہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں مجمع لگنے شروع ہو گئے۔ اس کی آ مد کے اعلانات ہوتے، کھلے میدان میں کسی اسٹیڈیم میں اہتمام ہوتا، پیر سپاہی کے لئے بلندوبالا سٹیج سجایا جاتا، دُور دراز سے آئے ہوئے بے شمار لوگ پانی سے بھری بوتلوں کے ڈھکن کھول کر ہا تھ میں لیے کھڑے ہو تے، پیر سپاہی سٹیج پر نمودار ہو تے اور پھر زیر لب کچھ پڑھ کر لاؤڈ سپیکر کے مائک پر پھونک مارتے، اس پھونک کا اثر ہر بوتل کے پانی تک پہنچتا اور لوگ بوتلوں کے ڈھکن بند کر کے اپنے گھروں کو لوٹ جا تے۔ پیر سپاہی کی اس کر امت کو پاکستان ٹیلی ویثرن کی نشریات پر بڑی شدومد کے ساتھ دکھایا جاتا اور تمام بڑے بڑے اخبارات اس روح پر ور منظر کو شہ سرخیوں میں جگہ دیتے تھے۔ ایک طویل عرصہ تک لوگوں کو اس نان ایشو کی بھینٹ چڑھانے کے بعد اس پیر سپاہی کو اس طرح منظر سے غائب کیا گیا کہ ان کے ہاتھوں ’’شفا یا ب ہونے‘‘ والوں میں سے کسی کو آج اس کی قبرکا پتہ تک معلو م نہیں۔ اسی طرح کے دوسرے نان ایشو ’’کلہاڑا گروپ کی کاروائی‘‘ نے بھی ضیاء دُور میں خوب جھنڈے گاڑے۔ اس کی دہشت کو بہت پھیلایا گیا یہ کلہاڑا گروپ جہاں کا ارادہ کرتا پہنچ جاتا، جس گھر میں چاہتا گھس جا تا اور پھر وہاں کے کئی افراد یا تمام افراد کے سر کچل کر رکھ دیتا اور بڑی کا میابی سے چھومنتر ہو جاتا۔ اس ناٹک کی بڑی دھاک بٹھائی گئی۔ لوگ اپنے ساتھ ہر زیادتی کو بھول کر اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو پہلوؤں میں لے کر جا گتی آنکھوں سے راتیں گزارنے پر مجبور ہوتے اور پھر یک لخت یہ منظر بدلا گیا اس کلہاڑا گروپ یا اس کے کسی ممبر کا آ ج تک کوئی پتہ نہیں، کوئی تحقیق سامنے نہیں، کسی تھانے یا کسی عدالت کی کاروائی کے ریکارڈ پر شاید ڈھونڈنے سے بھی کوئی پتہ نہ چلے ، بس خاک نشینوں کا خون تھاکہ جسے رزق خا ک بنا دیا گیا۔ اسی طرح سیاہ چن محاذ بھی ضیاء الحق آمریت کی ایک دین اور ایک نشانی ہے۔ سیا ہ چن کا یہ جنگی محاذ دنیا کا بلند ترین محاذ ہے جو تقریباً پچیس، تیس سالوں سے یہاں قائم ہے۔ اس با ت کا تعین اگرچہ آ ج تک نہیں ہو سکا کہ اس محا ذ کھولنے کی پاک و بھارت فوجوں میں سے پہل کس نے کی؟ لیکن یہ امر متنازعہ نہیں ہے کہ سیاہ چن کا یہ محا ذ صر ف خوفناک ہی نہیں بلکہ مہنگا ترین محا ذ بھی ہے۔ ہند و پاک کے ریٹائرڈ فوجیوں، سابقہ و موجود سیاست دانوں اور حکمرانوں کے ٹیلی ویثرن کے چینلوں پر کئی کئی بار اس با ت کے برملا اظہار کہ اس محا ذ کو کھولنے اور اسے جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، کے باوجو د آج تک قائم ہے اور’’ پہلے آپ ، پہلے آ پ‘‘پر مبنی انانیت کی نفسیات کا شکار رہ کر پتہ نہیں کب تک قائم رہے گا۔ سیا ہ چن کے اس محاذ پر متعین ہو نے والی فو جوں کا آ ج تک اتنا نقصان ایک دوسرے کے ہا تھوں نہیں ہوا جتنا مو سم کی شدت اور بے رحمی کے ہا تھوں ہوا۔ اس محا ذ کی سفاکی کا اندازہ اس امر سے بخو بی لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں پر موجود فوجی تین تیز قدم بھی اٹھا لیں تو گر پڑتے ہیں کیو نکہ آ کسیجن نہ ہونے کے برابرہو تی ہے جس سے دم گھٹنے لگتا ہے۔ مسلسل بر ف باری ہو نے، رگوں میں خون منجمند ہونے والی بر فانی ہواؤں کے چلنے سے وہاں کا درجہ حرارت سردیوں میں منفی ساٹھ درجہ سینٹی گریڈ اور گرمیوں میں منفی پندرہ درجہ سینٹی گریڈ سے زیا دہ ہو تا ہے۔ سردی کی اس شدت کی وجہ سے سیا ہ چن میں تعینات فو جیوں کے ہا تھوں اور پاؤ ں کی انگلیاں گل سڑ کر جھڑ جا تی ہیں۔ فو جیوں کو محض ایک کپ پانی کے حصول کے لئے جتنی بر ف پگھلانی پڑتی ہے اس سے سینکڑوں روپوں کا مٹی کا تیل جلا نا پڑتا ہے۔ ایک روٹی سو روپے سے زیا دہ میں پڑتی ہے ایک فوجی کا لباس لاکھ سوا لاکھ روپے میں تیا ر ہو تاہے۔
اسی طرح جنگی ساز و سامان کی تر سیل، اس کے تحفظ ، فوجیوں کی نقل و حرکت ، ان کے حفاظتی اقدامات اور خوراک وغیرہ پر ایک اندازہ کے مطابق آٹھ لاکھ روپے فی گھنٹہ خر چ ہو تے ہیں۔ پچھلے پچیس، تیس سال تک ان اخراجا ت کے گوشوارے کو ریاضی کے حساب کتاب اور اس کے جمع ضر ب کے پیمانوں پر جانچا اور جانا جائے تو یہ آنکھیں کھول دینے کے لئے ہی نہیں بلکہ دل دہلا دینے والے اعداد و شمار سامنے آ ئینگے۔ آج اگرچہ وقت کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک کی فوجوں کو سیاہ چن کے محا ذ سے ہٹا لیا جا ئے مگر ذلت و خواری پر مبنی اس نظا م زر پر یقین رکھنے والوں اور اسے جاری رکھنے والوں کو بھلا کیا ضر ورت پڑی ہے کہ وہ یہ سوچنے کی ہمت کریں کہ سیاہ چن کے محاذ پر کیے جانے والے ان اخراجا ت کے بدلے کتنے ہسپتال ، کتنے تعلیمی ادارے، کتنی نہریں، کتنے ڈیمز، کتنی ریلوے لائنیں، کتنے جہاز بنائے جا سکتے ہیں، خلا ؤں کی وسعتوں کو کس طرح سمیٹا جا سکتا ہے؟موت اور دکھوں کی فراوانی اور ارزانی کو کس طرح روکا جا سکتا ہے؟ کتنی رہائشی سکیمیں بنائی جاسکتی ہیں؟ جہالت کی اذیت، جسم کی تڑپ اور روح کے گھاؤ کس طرح ختم کیے جا سکتے ہیں؟ سونامیوں کو کس طرح شکست دی جا سکتی ہے، بھپرے دریاؤں اور سیلابوں کا رخ کیونکرموڑا جا سکتا ہے؟ زمینی کٹاؤ اور ماحولیا تی آلودگی سے بچاؤ کے لئے کس طرح وافر جنگل اگائے جا سکتے ہیں؟ نت نئی سائنسی تحقیق سے کس طرح انسان کو اس کی معراج تک پہنچایا جاسکتا ہے؟ انسان کو چیزوں اور ضرورتوں کی محتاجی سے کس طرح نجا ت دی جا سکتی ہے؟ لیکن اس وقت حکمران طبقے کو انسانوں کے دفا ع سے زیادہ اپنے مفا دات عزیز ہیں، اپنے اثاثے عزیز ہیں اور ان کا دفا ع عزیز ہے۔ لیکن پھر دوسری طر ف انسانوں کی اکثریت (محنت کش طبقہ) کی زندگی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جا ئے تو معلوم ہو گا کہ انہوں نے ہمیشہ اور ہر دور میں اپنی زندگیوں سے نہ صر ف پیار کیا ہے بلکہ اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے خواب بھی دیکھے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیر کے لئے جدوجہد بھی کی ہے۔ اور اپنی اس جدوجہد سے دکھوں، تکلیفوں، اذیتوں اور ذلتوں کے سما ج کو بدلا بھی ہے اور اب بھی وہ وقت دور نہیں جب محنت کش طبقہ حکمرانوں کی ان بے بنیاد لڑائیوں سے روگردانی کر کے تاریخ کے میدان میں اترے گا اور ایک سرخ سویرا، ایک سوشلسٹ انقلاب بر پا کر کے اپنی تقدیر اپنے ہا تھوں میں لے گا اور انسان کو اس کے اصل مقام اور ایسے مقام پر متمکن کر ے گا کہ جس پر انسانیت بجا طور پر فخر کرسکے گی۔