| تحریر: راشد خالد |
نون لیگ کی دائیں بازو کی رجعتی مزدور دشمن حکومت عوامی اثاثوں کی نیلامی کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اقتدار میں آتے ہی جو بڑی ’’خوشخبری‘‘ اس حکومت نے غریب عوام اور محنت کشوں کو دی وہ 64 اداروں کی نجکاری کی تھی۔ اس کے بعد مسلسل کوشش جاری ہے۔ پہلے پی آئی اے کی نجکاری کی بات کی گئی، مگر پورے ادارے کی نجکاری ممکن نہیں ہو سکی اور اسی طرح او جی ڈی سی ایل کی نجکاری کا اعلان بھی ہوا میں تحلیل ہو گیا جب او جی ڈی سی ایل کے محنت کشوں نے تحریک کا آغاز کیا اور تیل کی ترسیل روک دی، مگر دوسری طرف عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کی گراوٹ کی وجہ سے اس ادارے کے حصص کی قیمت حکومت کی دی گئی ابتدائی بولی سے بھی کم لگائی گئی۔ اس میں بھی ناکامی کے بعد حکومت واپڈا کی نجکاری کرنے کی طرف جا رہی ہے۔ واپڈا کی نجکاری کے خلاف پورے پاکستان میں محنت کشوں کی پر زور تحریک چل رہی ہے اور حکمرانوں کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار نظر آ رہا ہے۔ وزرا کے پتلے نذ ر آتش کیے جارہے ہیں اور ان کے خلاف شدید نعرے بازی بھی جاری ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے احتجاجی ریلیوں، دھرنوں اور تالہ بندی کا عمل جاری ہے مگراس کے باوجود حکومت اپنے عوام دشمن ہتھکنڈوں پر ڈھٹائی سے قائم ہے۔ تحریک میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اسلام آباد میں واپڈا کے محنت کشوں نے نجکاری کمیشن کے اراکین کو آئیسکو ہیڈ کوارٹر میں داخلے سے روک دیا اور اس کے بعد اسی تسلسل میں لیسکو کے محنت کشوں نے بھی نجکاری کمیشن کا راستہ لیسکو ہیڈ کوارٹر کے سامنے دھرنے کی صورت میں روک دیا۔ جس کی بدولت نجکاری کمیشن کے نمائندگان اور لیسکو حکام کو ایک خفیہ مقام پر میٹنگ کرنا پڑی، اس میٹنگ کی خبر جب محنت کشوں تک پہنچی تو محنت کشوں نے اس مقام پر دھاوا بول کر وہاں کی بجلی بند کر دی اور گھیراؤ کر کے نعرہ بازی کی تو لیسکو حکام اور نجکاری کمیشن کے نمائندوں کو بھاگ کر وہاں سے جان بچانی پڑی۔ لیکن اس سب کے باوجود حکومت واپڈا کی نجکاری پر بضد ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات میں حکومت نے آئی ایم ایف کی پالیسیوں ہی کے تحت توانائی کے شعبے میں 600 ارب روپے کے گردشی قرضے کو ختم کرنے کے لئے نجکاری اور قیمتوں میں اضافے کی پالیسی منظور کی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں غریب عوام کو بجلی کی پہلے سے بھی زیادہ قیمتوں میں مزید اضافہ بھگتنا ہو گا۔ اس گردشی قرضے کے بار بار جمع ہونے کی وجہ ڈسٹریبیوشن کمپنیوں(ڈسکوز) کی ناقص کارکردگی بتائی جا رہی ہے اور اس کارکردگی کو بہتر کرنے کا واحد حل آئی ایم ایف اور پاکستانی ریاست کے پاس ان کمپنیوں کو بیچ دینا ہے۔ اور اس کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ نجی اداروں کی کارکردگی ریاستی اداروں کی نسبت بہتر ہوتی ہے اس لئے ان اداروں کو نجی ہاتھوں میں دینے سے ان کی کارکردگی بہتر ہو جائے گی اور ریاستی خسارے اور گردشی قرضے کے معمے کو حل کر لیا جائے گا۔ اس ضمن میں اگلے مالی سال کے دوران تین کمپنیوں، لیسکو، فیسکو اور آئیسکو کو نجی شعبے میں دیا جائے گا۔
یہ توجیہہ گھڑتے وقت حکمران طبقہ ماضی کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔ گردشی قرضے کا معمہ ہے کہ حل ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ نون لیگ کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی گردشی قرضے کی ادائیگی کا اعلان کیا تھا اور جولائی 2013ء میں 480 ارب روپے گردشی قرضے کی مد میں ادا بھی کیے تھے۔ پھر اتنی کم مدت میں کیونکر گرشی قرضے کا اژدھا ایک بار پھر پھن پھیلائے کھڑا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کی نااہلی سے زیادہ اس ریاست کی معاشی پالیسیوں کا دیوالیہ پن ہے، وہ تمام ترغلیظ معاہدے ہیں جو نجی پاور جنریشن کمپنیوں اور آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے۔ جن کی بدولت نجی پاور کمپنیاں بجلی کا ایک واٹ بنائے بنا بھی ریاست سے پیسے وصول کر رہی ہیں اور فرنس آئل پر سبسڈی کی وجہ سے بجلی بنانے کی بجائے فرنس آئل کی خرید و فروخت کا غیر قانونی دھندہ کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ انہی نجی کمپنیوں سے سبسڈی کے باوجود مہنگے داموں بجلی خریدی جاتی ہے جسکی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں لگاتاراضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ناصرف یہ بلکہ نجی شعبے میں جتنی بھی سرمایہ کاری ہوئی، وہ تمام تر آئل، گیس یا کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تھے، جو انتہائی مہنگے طریقہ کار ہیں اور پانی، جس سے سستی بجلی بنائی جا سکتی ہے، اس مد میں کوئی قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ جس کی وجہ سے عوام کو ناصرف مہنگی بجلی خریدنا پڑتی ہے بلکہ لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے میں بجائے ان نجی کمپنیوں کی سبسڈی ختم کرنے کے، عوام کو بجلی کی قیمتوں میں دی جانے والی ریلیف ختم کی جا رہی ہے۔ یعنی غلط ریاستی پالیسیوں کا تمام تر خمیازہ غریب محنت کش عوام پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار واپڈا کا محنت کش نہیں بلکہ خون چوسنے والی یہ جونک نما کمپنیاں ہیں۔
ایک اور چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ موجودہ 600 ارب روپے کے گردشی قرضے میں سے 335 ارب روپے پاور ہولڈنگ کمپنی کے ذمے ہیں۔ پاورہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ (PHCL) کا ادارہ 2009ء میں اسی گردشی قرضے کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ مگر بجائے گردشی قرضے کو ختم کرنے کے یہ ادارہ محض لوٹ مار کا ایک ذریعہ بن کر رہ گیا ہے اور وہ تمام تر قرضے جو عوام کی خون پسینے کی کمائی سے لوٹ کر خونخوار نجی کمپنیوں کو ادا کر دیئے گئے تھے، وہ خرچ بھی ہو گئے اور ابھی تک واجب الادا بھی ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی ہر طرف ایسی ہی کارستانیاں ہیں۔ اب ایک بار پھر عوام کے پیسے سے یہ قرضے ادا کئے جائیں گے۔
اس گردشی قرضے کا ذمہ دار بار بار ادارے کے محنت کشوں کی کرپشن اور عوام کی بجلی چوری بتائی جاتی ہے۔ لیکن کیا واقعی یہ درست ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ جہاں تک واپڈا کے محنت کشوں کی کرپشن کی بات کی جاتی ہے تو حقیقت میں اصل کرپشن اس ادارے میں بیٹھی نوکر شاہی کر رہی ہے جو میٹر اور تاریں تک بیچ کھاتی ہے۔ اور کونسے عوام ہیں جو بجلی کا بل ادا نہیں کرتے! اگر دو ماہ تک عام صارفین بجلی کا بل ادا نہ کریں تو فوری طور پر بجلی کا کنکشن کاٹ دیا جاتا ہے۔ پھر کیسے عوام کو بجلی چوری کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے؟ در حقیقت اصل بجلی چور یہاں کے بڑے سرمایہ دار، جاگیردار، سول اور فوجی بیوروکریسی اور یہ حکمران ہیں۔ ابھی بھی واپڈا کے سب سے بڑے نادہندگان میں جی ایچ کیو، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس ہیں۔ سب سے بڑے بجلی چور اس ملک کے سرمایہ دار ہیں جو حکمران بن کر بیٹھے ہیں۔ ان کی صنعتوں میں نہ صرف یہ کہ بجلی اور گیس چوری کی جاتی ہے بلکہ کوئی ٹیکس بھی ادا نہیں کیا جاتا۔ مزید یہ کہ مزدوروں کو کئی کئی ماہ اجرت بھی ادا نہیں کی جاتی جو پہلے ہی انتہائی کم ہوتی ہے۔ ٹھیکیداری اور ڈیلی ویجز پر مزدوری کروانے کے علاوہ یونین کا حق بھی غصب کر لیا جاتا ہے۔ ان صنعتوں میں مزدوروں پر تشدد اور جبری مشقت روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ موجودہ حکمرانوں پر تو یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے اپنی فیکٹری میں مزدور راہنما کو احتجاج کرنے پر جلتی ہوئی بھٹی میں پھینک کر قتل کر دیا تھا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بجلی چوری اور خسارے کا کوئی ذمہ دار ہے تو وہ یہ حکمران طبقہ ہے نہ کہ غریب عوام۔
اسی غلیظ سرمایہ دار طبقے اور سامراجی پالیسیوں کے باعث ریاست کا معاشی بحران، قرضوں پر انحصار اور نوآبادیاتی ممالک کی سرمایہ داری کا تاریخی استرداد یہاں کے حکمران طبقے کو عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی پالیسیوں کا اور زیادہ مطیع بناتا چلا جاتا ہے۔ جس طرح یہاں کی سرمایہ داری آزادانہ بنیادوں پر ارتقا کرنے سے قاصر ہے، ویسے ہی یہ حکمران طبقہ بھی سامراجی غلامی کا طوق اتارنے کا یارا نہیں رکھتا۔ اور جس معیشت کی بنیادیں ہی بیرونی قرضے پر استوار ہوں وہاں کیسے کوئی اپنی پالیسی بنا کر اس کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اسی لئے ان بدعنوان حکمرانوں کو آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو خدائی فرمان کے طور پر ماننا ہوتا ہے۔ معاشی بحران کو کم کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے پاس اس وقت تیسری دنیا کے ممالک کے لئے جو اکسیر نسخہ ہے، وہ نجکاری کا ہے۔ جس کی بدولت ریاستی اخراجات میں کمی کی جائے اور قومی اثاثوں کی نیلامی سے ریاستی خزانے میں کچھ سرمایہ ٹھونسا جا سکے۔ اسحاق ڈار نے بھی اس سال جولائی تک غیر ملکی ذخائر میں اضافہ کرکے انہیں 18.5 ارب ڈالر تک لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ غیر ملکی ذخائر کو اس سطح تک لے جانے کے لئے ان کی نظر پھر ان اداروں پر ہی ہے اور ان کی نجکاری سے حاصل ہونے والے مال پر۔ ان ذخائر میں اضافے کا مقصد صرف یہی ہے کہ سامراجی مالیاتی ادارو ں کو سود سمیت قرضوں کی ادائیگی جاری رہے۔
واپڈا کی نجکاری کوئی پہلی نجکاری نہیں ہے۔ اگر سرکاری زبان کو استعمال کیا جائے تو یہ نجکاری کا چوتھا مرحلہ ہے۔ اس سے پہلے نجکاری کے تین مراحل میں 167 ریاستی اداروں کی نیلامی کے ذریعے 476.212 ارب روپے حاصل کئے گئے۔ اس دوران 70ء کی دہائی میں ہونے والی نیشنلائزیشن کو لوٹایا گیا۔ بینکنگ سیکٹر کو بیچا گیا، توانائی کے شعبہ میں نجی سرمائے کی حوصلہ افزائی ریاستی قرضوں کی مد میں کی گئی، پاور جنریشن کمپنیوں کو بیچا گیا اور پھر آخری مرحلے میں پی ٹی سی ایل اور KESC کی نجکاری عمل میں لائی گئی جبکہ اسٹیل مل کی نجکاری کو محنت کشوں نے اپنی تحریک کے ذریعے رکوایا۔ اس نجکاری کے دوران یہاں کے جمہوری اور فوجی حکمرانوں نے مل کر لوٹ مار کی اور عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ اپنے ذاتی اکاؤنٹس میں منتقل کیا۔ لیکن اس نجکاری کی اس لوٹ مار سے ملکی معیشت کو کیا فائدہ پہنچا؟ اس کے ساتھ ہمیں اس نجکاری کے تباہ کن اثرات کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ نجکاری سے حاصل کئے گئے اربوں روپے ملکی معیشت میں بہتری کے لئے استعمال ہونے کی بجائے مالیاتی خساروں کو پورا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے۔ اور چونکہ پاکستان میں ہونے والی نجکاری آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ہوتی آئی ہے اور موجودہ نجکاری کا پلان بھی آئی ایم سے 6.6 ارب ڈالر کے قرضوں کی اقساط کے حصول کے لئے لایا گیا ہے، سو اس سے حاصل ہونے والی خطیر رقم بیرونی قرضوں کی واپسی یا سود کی مد میں ملک سے باہر چلی جائے گی۔ لیکن اس کے باوجود ملک پر موجود قرضے کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں اور اب تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہیں۔ حالت یہ ہے کہ قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے قرضے لیے جا رہے ہیں۔
ملکی معیشت کی بحالی کا ایک اور اکسیر نسخہ ’’فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ‘‘ بھی بتایا جاتا ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے یہ حکمران اس جوہر نایاب کی رٹ لگاتے نہیں تھک رہے مگر اس بیرونی سرمایہ کاری نے پاکستانی سماج کو جو چارچاند لگائے ہیں، وہ خوردبین لگا کر بھی ہم دیکھ نہیں سکے۔ بجلی کی پیداوار کے شعبے میں آنے والی بیرونی سرمایہ کاری کا نتیجہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب اور مہنگی بجلی کی صورت میں نازل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں صنعتیں بند ہونے سے کروڑوں افراد بیروزگار ہوئے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کی گردان کرنے والے حکمرانو ں کی اپنی دولت بیرونی بینکوں میں محفوظ ہے۔ چند ماہ پہلے وزیر خزانہ کی صرف ایک دیہاڑی کے چالیس لاکھ ڈالر دبئی بھیجنے کا انکشاف بغیر کسی تحقیقات کے دبا دیا گیا ہے۔ لیکن یہ واقعہ بیرونی سرمایہ کاری کی پالیسی کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔
1990ء سے پہلے کوئی بھی بینک کسی ایک فرد یا خاندان کی ملکیت میں نہیں تھا، مگر بینکنگ سیکٹر اور دیگر شعبوں کی نجکاری میں من پسند افراد کو نوازا گیا اور آج وہی من پسند افراد ریاست کے طاقتور ترین افراد ہیں جو معاشی پالیسیاں اپنی من مرضی سے بنواتے ہیں۔ سو مزید ہونے والی نجکاری پاکستان میں کسی بیرونی سرمایہ کاری کو لانے کی بجائے یہاں کے سرمایہ دار طبقے کی خواہشوں کے مطابق ہی کی جائے گی۔ جس میں میاں منشا جیسے لوگوں کا بڑا شیئر ہو گا۔
جس ادارے کی بھی نجکاری ہوئی اس میں سب سے پہلا حملہ ڈاؤن سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کی صورت میں محنت کشوں پر کیا گیا۔ یونین کو توڑا گیا، محنت کشوں کے یونین بنانے کے حق کو چھینا گیا، مستقل روزگار کی جگہ کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز روزگار کو متعارف کروایا گیا جس میں محنت کشوں کے پاس اپنے حقوق کے تحفظ کا کوئی سیاسی حق موجود نہیں ہوتا۔ ہڑتال کو شجرممنوعہ قرار دے دیا گیا۔ PTCL اور KESC کی نجکاری ہمارے سامنے اس سارے عمل کی منہ بولتی حالیہ تصویریں ہیں۔ جہاں سے80 ہزار سے زائد محنت کشوں کو زبردستی نکال دیا گیا۔ کارکردگی تو خیر جو بہتر ہوئی وہ پی ٹی سی ایل استعمال کرنے والے پورے ملک میں اور کراچی کے عوام لوڈشیڈنگ کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
ایسے میں واپڈا کی نجکاری پاکستانی سماج پر کیا اثرات مرتب کرے گی؟ واپڈا پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ ہے، جس میں سب سے زیادہ محنت کش موجود ہیں۔ واپڈا سے ہزاروں ملازمین کی جبری برطرفی کی صورت میں جہاں پاکستان میں پہلے سے موجود بیروزگاری میں اضافہ ہو گا وہیں پاکستان میں مزدور تحریک پر بھی یہ سب سے فیصلہ کن حملہ ہو گا۔ واپڈا میں پاکستان کی سب سے بڑی یونین بھی موجود ہے۔ واپڈا کی نجکاری کا مطلب پاکستان میں یونینائز یا منظم محنت کشوں پر سب سے بڑا حملہ ہو گا۔ پاکستان میں پہلے ہی 2 فیصد سے کم محنت کشوں کے پاس یونین جیسی سہولت موجود ہے اور یہ حکمران اس تعداد میں بھی کمی کرتے جا رہے ہیں۔ نجی شعبے میں چھوٹی موٹی یونین اگر موجود ہے بھی تواکثر وہ سرمایہ داروں کی باندی کا کردار ادا کرتی ہے اور بہت سی جگہوں پر مزدوروں کو دبانے کے کام آتی ہے۔ لیکن سرکاری شعبوں میں بھی یونین کا کردار لگاتار مسخ ہوتا جا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس مزدور دشمن پالیسی کی مخالف نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی بھی سندھ میں ہسپتالو ں اور سکولوں کی بد ترین نجکاری کر رہی ہے۔ دیگر تمام جماعتیں بھی اقتدار کے مزے لوٹنے کے چکر میں آئی ایم ایف کی غلامی کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ایسے میں یونین قیادتیں بھی زوال پذیر ہیں اوراپنے آپ کو مزدوروں کے اجتماعی مفادات کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہی ہیں۔
نجکاری کا مسئلہ صرف ٹریڈ یونین کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ اور اس کے لیے ایک مربوط لائحہ عمل درکار ہے۔ موجودہ ٹریڈ یونین قیادت کے پاس وہ نظریاتی بنیادیں موجود نہیں جس کی بنیاد پر نجکاری کے اس حملے کا مقابلہ کیا جا سکے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد بائیں باز و کے ٹریڈ یونین راہنما بھی جلد یا بدیر نظریاتی زوال پذیری کا شکار ہو کر مفاد پرستی میں غرق ہوتے چلے گئے۔ اگر کسی نے اس کے باوجود بھی مزدوروں کے مفادات کے لیے ڈٹ جانے کا عزم کیا تو نظریاتی اساس نہ ہونے کے باعث مایوس ہو کر تحریک سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس دوران حکمرانوں کے حملے بھی پوری شدت سے جاری رہے اور نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور دیگر مزدور دشمن قوانین کے ذریعے مزدور تحریک کو کچلا جاتا رہا۔ ایسے میں اب مزدور تحریک ایک فیصلہ کن موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ واپڈا کی نجکاری میں اگر یہ حکمران کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان میں مزدور تحریک پر تابڑ توڑ حملوں کا ایک نئے سلسلوں کا آغاز ہو گا۔ کام کے اوقات کار پہلے ہی بارہ گھنٹے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ کم ازکم اجرت تاریخ کی کم ترین سطح پر موجود ہے اور کئی کئی ماہ تک ادا بھی نہیں کی جاتی۔ یونین نا پید ہے۔ محکمہ لیبر خصی ہو چکا ہے۔ فیکٹری حادثات میں ہر روز درجنوں مزدور ہلاک یا زخمی ہو جاتے ہیں۔ مزدور کی زندگی اتنی ارزا ں ہو چکی ہے کہ سیفٹی کے لیے چند روپے بھی زیادہ قیمتی تصور کیے جاتے ہیں۔ ایسے میں جو رہاسہا پنشن اور مستقل ملازمت کا حق چند اداروں میں موجود ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ کام کے اوقات کار ختم کر کے غلامی کی نئی شکلیں سامنے آئیں گی۔ بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ اجرتوں میں مزید کمی ہو گی اور عوام کی ذلت اور محرومی میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔ دوسری جانب واپڈا کی نجکاری کے خلاف جنگ میں مزدور کی کامیابی ان حکمرانوں کے حوصلے پست کرنے کے ساتھ ساتھ پوری ملک کی مزدور تحریک کو ایک نئی جرات اور حوصلہ فراہم کرے گی اور محنت کش اپنے لیے مزید حاصلات لینے کے لیے آگے بڑھیں گے۔
مزدوروں اور حکمرانوں کا یہ معرکہ واپڈا میں سجا ہے اور یہ اکا دکا دھرنوں، احتجاجی مظاہروں اور نیم دلی سے ہونے والی تالہ بندی سے سر نہیں ہو سکے گا۔ اس کے لئے ایک جامع لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ پہلے تو واپڈا کے ایک ایک محنت کش کو اس لڑائی کی نظریاتی بنیادیں فراہم کرتے ہوئے اس میں پرونا ہو گا، پھر اس لڑائی کو پاکستان کے باقی محنت کش طبقے کے ساتھ جوڑنا پڑے گا۔ کیونکہ اب کہ یہ لڑائی واپڈا کی لڑائی نہیں بلکہ یہ ان شہنشاہوں کی منہ زوریوں اور محنت کشوں کے حقوق کی لڑائی بن چکی ہے۔ اب کے قیادت کا کٹھن امتحان ہے، کیونکہ یہ لڑائی کسی بونس، کسی الاؤنس کی نہیں بلکہ مزدور تحریک کے بقا کی لڑائی ہے۔ اس لڑائی کے لیے ایک واضح اور دو ٹوک حکمت عملی درکار ہے جو موجودہ ٹریڈ یونین قیادت دینے سے کترا رہی ہے۔ واپڈا کے محنت کشوں کو حکمرانوں کے حملوں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی قیادت کا احتساب بھی جاری رکھنا ہو گا۔ ماضی میں متعدد بار قیادت کے فریب نے تحریکوں کو زائل کیا ہے۔ 2005ء میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے عمل میں بھی ایسا ہی کچھ دیکھنے میں آیا۔ اس وقت پورے ملک میں ایک عظیم الشان ہڑتال نجکاری کے عمل پر کاری ضرب لگانے جا رہی تھی جب قیادت کی غداری نے تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ اس غداری کے نتیجے میں 70 ہزار ملازمین برطرف ہو چکے ہیں اور بچے کھچے ملازمین کو بھی جلد ہی نکالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے بنے اس ادارے کا منافع جہاں نجی مالکان کے اکاؤنٹ میں جا رہا ہے وہاں اس کی تمام زمینیں اور انفرااسٹرکچر بھی نجی مالکان کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس سے ملکی خزانے کو ہونے والی آمدن نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس تجربے کی روشنی میں واپڈا کے محنت کشوں کے لیے یہ لڑائی دو دھاری تلوار بن چکی ہے۔
اس جنگ میں لڑائی کی بجائے مفاہمت یا مصلحت کا راستہ یا قیادت کے جرائم پر پردہ پوشی پاکستان میں مزدور تحریک کی موت کا راستہ ہے جس کے بعد ٹریڈ یونین اس ملک میں ایک ماضی بن کر رہ جائے گی۔ آگے بڑھنے کا واحد رستہ لڑائی اور ان حملوں کے خلاف کھلی جنگ کا راستہ ہے۔ اس کے لیے محنت کشوں کے پاس سب سے مؤثر ہتھیارہڑتال ہے۔ اس ہڑتال کو واپڈا سے دیگر اداروں میں پھیلانا بھی ضروری ہے تاکہ نجکاری کی اس مزدور دشمن پالیسی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو سکے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس لڑائی کو عوام کے ساتھ جوڑنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ حکمران اپنے پالتو میڈیا کے ذریعے عوام میں سرکاری اداروں کے خلاف نفرت کا بیج بو چکے ہیں اور اسی کے ذریعے ان عوام دشمن پالیسیوں کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ سرکاری اداروں اور انفرااسٹرکچر پر اخراجات میں کمی کرنے کے باعث بھی ان اداروں کی کاکردگی متاثر ہوتی ہے جس کے باعث عوا م کا ان کے خلاف غم و غصہ بھڑکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ واپڈا کے محنت کش اس ادارے کے صارفین تک اپنا پیغام پہنچائیں اور انہیں اس نجکاری کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ حکمرانوں کا کاسہ لیس میڈیا انہیں یہ موقع فراہم نہیں کرے گا۔ اس کے لیے ان کے پاس مؤثر ہتھیار بجلی کے کے بل ہیں جو کروڑوں افراد تک ہر ماہ پہنچتے ہیں۔ اس بل کے ساتھ جانے والا لیف لیٹ عوام کے نام پیغام بن سکتا ہے۔ جو حکمرانوں کے گھناؤنے عزائم کو بے نقاب کرے گا اور نجکاری کے خلاف عوامی رائے عامہ کو تیار کرے گا۔ اتنے بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہونے کے بعد نجکاری کے خلاف لڑائی زیادہ مؤثر ہو سکے گی۔
نجکاری کے خلاف اس تحریک کا پہلا اور حتمی مطالبہ نجکاری کی پالیسی کا خاتمہ اور پھر نجی شعبے کو محنت کشوں کے اشتراکی کنٹرول میں دینا ہے۔ اس کے علاوہ نجکاری کمیشن اور وزارت نجکاری کا خاتمہ کر کے نیشنلائزیشن کمیشن کا قیام اہم مطالبہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مزدور وں کے حقوق کے مکمل تحفظ کے لیے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مزدور راج قائم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تمام قرضے ضبط کر کے یہاں بسنے والے کروڑوں افراد کو سود کے چُنگل سے آزاد کیا جائے اور یہاں پیدا ہونے والی تمام دولت یہاں پر علاج، تعلیم، صاف پانی اور دیگر بنیادی ضروریات پر خرچ کی جائے۔
متعلقہ:
نجکاری: معاشی بحالی یا محنت کش عوام کا معاشی قتل؟