ونزویلا: پارلیمانی انتخابات میں رد انقلاب کی فتح

| تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: حسن جان |

وینزویلا کی نیشنل الیکٹورل کونسل نے پارلیما نی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کیا۔ رد انقلابی اپوزیشن MUD نے بولیوارین PSUV کی 46 نشستوں کے مقابلے میں 112 نشستیں حاصل کیں۔ یہ ایک خطرناک شکست ہے اور یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اس کا تجزیہ کریں تاکہ آنے والے واقعات کی پیش بینی کرسکیں۔
سب سے پہلے تو اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ سڑکوں پر کسی قسم کی ہنگامہ آرائی، نتائج سے انکار کی رٹ اور عالمی ذرائع ابلاغ میں نتائج کے بارے میں کسی قسم کی ’’دھاندلی‘‘ کی بات نہیں ہوئی۔ ماضی میں جب کبھی بولیوارین انقلاب کوئی الیکشن جیت جاتا (پچھلے سترہ سالوں میں اس نے کئی الیکشن جیتے ہیں)تو جھوٹ اور غلط بیانی کا ایک طوفان کھڑا ہوجاتاتھا۔ ’’وینزویلا میں آمریت ہے‘‘، ’’وہاں آزادئ بیان نہیں ہے‘‘، ’’ایک جابر حکومت‘‘ جیسی باتیں سی این این، فاکس نیوز اور ہسپانوی اے بی سی اور الپائس کی شہ سرخیوں میں ہوتیں۔ یہ ایک عجیب ’’آمریت‘‘ ہے جو صرف اس وقت وجود رکھتی ہے جب سرمایہ دارانہ پارٹیوں کو شکست ہوتی ہے لیکن جب انقلابی قوتوں کو شکست ہوتی ہے تو یہ ایسے غائب ہوجاتی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
capriles-venezuelaاس الیکشن میں ٹرن آؤٹ بہت زیادہ تھا۔ 19 ملین ووٹروں کا 74.25 فیصد، قومی اسمبلی کے 2010ء کے انتخابات کے مقابلے میں آٹھ پوائنٹ زیادہ۔ اگرچہ یہ 2013ء کے صدارتی انتخابات (80 فیصد)کی نسبت کم تھا ۔صبح سویرے ہی غریب علاقوں اور بڑے شہروں میں محنت کشوں کے علاقوں میں ووٹ ڈالنے کے لیے بے تحاشا سرگرمی نظر آرہی تھی لیکن اپوزیشن کے ووٹروں میں اس سے زیادہ سرگرمی اور جوش و خروش دیکھنے میں آرہی تھی۔سارا دن پولنگ سٹیشنوں پر لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں اور بالآخر نیشنل الیکٹورل کونسل کو ووٹنگ کے وقت کو ایک گھنٹہ بڑھا کر سات بجے کرنا پڑا۔ بہت سی جگہوں پر پولنگ بوتھ ایک یا ایک سے زیادہ گھنٹے تک کھلے رہے تاکہ قطار میں کھڑے ہر شخص کو ووٹ ڈالنے کا موقع مل سکے۔ ’’جمہوری‘‘ اپوزیشن کے اہم رہنماؤں نے انتہائی بے شرمی سے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور پولنگ سٹیشنوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
اگر ہم 2010ء کے قومی اسمبلی کے انتخابات کے اعداد و شمار دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ جہاں انقلابی پارٹیوں کے ووٹ عمومی طور پر اسی سطح پر رہے، وہیں پر اپوزیشن کے ووٹوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اضافی شمولیت کرنے والے اور نئے ووٹروں کی اکثریت نے اپوزیشن کو ووٹ دیا۔ اگر ان نتائج کو حالیہ 2013ء کے صدارتی انتخابات سے موازنہ کیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ PSUV کے 1.5 ملین ووٹ کم ہوئے ہیں جبکہ اپوزیشن نے نہ صرف اپنے ووٹوں کو برقرار رکھا بلکہ اس میں تھوڑا سا اضافہ بھی ہوا۔
اگرچہ یہ ووٹ اب بھی طبقاتی بنیادوں پر منقسم ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ اپوزیشن نے انقلاب کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں بھی اپنی جگہ بنالی ہے۔دارالحکومت کاراکاس کے مغرب میں محنت کشوں کا علاقہ آنٹیمانو اب بھی شاویزی ہے (PSUV کا ووٹ 37,000، 55 فیصد، جبکہ اپوزیشن کا ووٹ 40 فیصد)، جبکہ 2010ء میں PSUV کا ووٹ39000، 68 فیصد، اور اپوزیشن کاووٹ 15000، 27 فیصد تھا ۔ یہاں پر اپوزیشن نے 2013ء کے صدارتی انتخابات کی نسبت 21000 ووٹ حاصل کرکے اپنی ووٹوں میں اضافہ کیا ہے۔ جبکہ بالائی متوسط طبقے اور بالائی طبقے کا علاقہ بروتا، کاراکاس کا مشرقی حصہ، زور و شور سے رد انقلاب کا حامی رہا (اپوزیشن کا ووٹ 31000، 85 فیصد اور PSUV کا ووٹ 4600، 12فیصد) لیکن نتائج تقریباً وہی تھے جو 2010ء میں تھے۔
اپوزیشن نے حتیٰ کہ انقلاب کے گڑھ کاراکاس کے علاقے 23 ڈی انیرومیں بھی معمولی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ 2010ء میں PSUVنے اپوزیشن کے 16,000 کے مقابلے میں 29,000 ووٹ حاصل کیے (ٹرن آؤٹ 70 فیصد)، جبکہ اس دفعہ PSUV نے اپوزیشن کے 25,140 کے مقابلے میں 25,017 حاصل کیے اور ہار گئی (77 فیصد ٹرن آؤٹ)۔

شکست کی وجوہات کیا ہیں؟
بہت سے عوامل ایسے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتاجیسے انقلاب کے خلاف میڈیا کی مہم، سامراجی مداخلت اور دھمکیاں (براہ راست امریکہ اور بالواسطہ کولمبیا، گایانا، ارجنٹائن کے نئے صدر میکری، او اے ایس وغیرہ کے ذریعے)، معیشت کا سبوتاژ اور بڑھتی ہوئی عدم تحفظ اور جرائم۔ تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ عوامل فیصلہ کن تھے کیونکہ یہ عوامل پچھلے الیکشنوں میں بھی موجود تھے جن میں PSUV کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
بہت سے ایسے نئے مسائل تھے، بالخصوص معاشی میدان میں، جنہوں نے معاملات کو بد سے بدتر کردیا۔ خاص کر تیل کی قیمتوں کی گراوٹ سے حکومت کے پاس پیسے کی شدید کمی پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے اس کے پاس اپنی سماجی پالیسیوں اور داخلی منڈی میں خوراک کی فراہمی کے لیے پیسے نہیں تھے جو پرائس کنٹرول کے خلاف سرمایہ دارانہ پروڈیوسروں کی بغاوت کی وجہ سے سکڑ گئی تھی۔
ہائپر انفلیشن، بنیادی اشیائے خورد ونوش کی شدید قلت، منافع خوری، بلیک مارکیٹ، ان سب نے اہم کردار ادا کیا۔ ماڈورو نے الیکشن کے نتائج کو قبول کرتے ہوئے اپنی تقریر میں اس کا ذکر کیا۔ اس نے کہا، ’’ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاشی جنگ جیت گئی ہے۔‘‘ یہ ایک جزوی وضاحت ہے۔ انقلابی عوام نے ماضی میں سرمایہ دار طبقے کے ہر معاشی حملے کا مقابلہ کیا، بالخصوص مالکان کی دو مہینے کی ہڑتال اور دسمبر 2002ء سے فروری 2003ء تک چلنے والی تیل کی صنعت کے سبوتاژ کے دوران۔ لیکن اس دفعہ ایسا کیوں نہیں ہوا؟
مندرجہ بالا عوامل کے ساتھ ساتھ یہ وسیع احساس بھی موجود تھا کہ بولیوارین قیادت یا تو نا اہل ہے یا چاہتی ہی نہیں ہے کہ فیصلہ کن انداز میں مسائل کو حل کرے۔گروپو پولر اور اس کے مالک منڈوزا کا اشیائے صرف کی قلت پیدا کرنے کے کردار کی صرف مذمت کرنا کافی نہیں ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے اور عوام کی بڑی اکثریت اس چیز سے آگاہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان مذمتوں کے بعد کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ گروپو پولر کو ضبط کرنے کی بار بار دھمکیا ں دی گئیں۔ اس سال یوم مئی میں پولر کے محنت کش بولیوارین مارچ میں پیش پیش تھے لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔
اس سے بڑٖھ کر، افسرشاہی اور بد عنوانی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے جس سے بولیوارین عوام کی وسیع پرتوں اور اس کے سرگرم عناصر میں ناامیدی، شکوک و شبہات اورحتیٰ کہ بد اعتمادی نے جنم لیا تھا۔ قومیائی ہوئی اور ریاستی ملکیت والی فیکٹریوں میں جہاں مزدوروں نے مزدور کنٹرول اور انتظام کے عناصر کو کسی حد تک لاگوکرنے کی کوشش کی تھی اسے افسرشاہی نے شکست دے دی ہے اور وہ اب بد انتظامی اور کھلی بدعنوانی سے لدی ہوئی ہے، اس سے دراصل سرمایہ دارانہ اپوزیشن کے اس دعوے کو تقویت ملی کہ نیشنلائزیشن بیکار چیز ہے۔ اس سے بھی بد تر یہ ہے کہ اس سے مزدور کنٹرول کے لیے جد وجہد کرنے والے محنت کش طبقے کے سرگرم کارکنا ن مایوس ہوجاتے ہیں۔
ایسے بھی لوگ ہوں گے جو اس شکست کی ذمہ داری عوام اور ان کی ’’کمتر شعوری سطح‘‘ پر ڈالیں گے۔اس طرح کی باتیں پہلے سے سنائی دے رہی ہیں۔ ’’انقلاب نے انہیں تعلیم، صحت اور گھر دیئے اور انہوں نے ووٹ اپوزیشن کو دئیے۔‘‘ یہ مکمل طور پر جھوٹی دلیل ہے جسے اصلاح پسند اور بیوروکریٹس جواز بناتے ہیں۔ اس سے کسی چیز کی وضاحت نہیں ہوتی۔
اسی محنت کش طبقے اور غریب عوام نے ان گنت مواقع پر انقلابی جبلت، قربانی اور بولیوارین انقلا ب سے وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ یہ عوام ہی تھے جنہوں نے 2002ء میں کُو، 2002-03ء میں مالکان کی تالہ بندی، 2004ء میں ریفرنڈم کو شکست دی اور لاکھوں کی تعداد میں شاویز کے کہنے پر PSUV کی تعمیر اور سوشلزم کی جد وجہد میں حصہ لیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہر بار جب انہوں نے آگے بڑھ کر حکمران طبقے سے طاقت چھیننے کے لیے ریاستی اداروں میں سوشلسٹ ورکرز کونسلز بنائیں، فیکٹریوں پر قبضہ کرکے انہیں مزدور کنٹرول کے تحت چلانے کی کوشش کی، جاگیروں کو اپنی تحویل میں لیا، محلوں میں سوشلسٹ کمیون بنائیں تو ان کے راستے میں بیوروکریسی نے رکاوٹیں کھڑی کیں اور انہیں پیچھے دھکیلا، یہی بیوروکریسی بولیوارین تحریک کی صفوں میں سرمایہ داروں کے دلال ہے۔
صرف تین مثالیں اس کی وضاحت کے لیے کافی ہیں۔ انڈسٹریاس ڈیانا ایک فوڈ پلانٹ ہے جو خوردنی تیل اور مارجرین کو پروسس کرتا ہے جسے شاویز نے 2008ء میں قومی تحویل میں لیا تھا اور اسی وقت سے مزدور کنٹرول کے تحت چل رہا ہے۔ 2013ء میں ماڈورو کے وزیر خوراک اوسوریو نے مزدوروں سے مشورہ کیے بغیر اور ان کی مرضی کے خلاف ایک نیا منیجر تعینات کیا۔ مزدوروں نے مزاحمت کی اور کہا کہ اس معاملے میں ان سے مشورہ ہونا چاہیے۔ مزدور کنٹرول کے مسئلے پر ایک جنگ چھڑ گئی۔ بالآخر مہینوں کی جد وجہد کے بعد مزدور کامیاب ہوگئے اور نئے منیجر کو ہٹا دیا گیا۔
اسی طرح کا ایک جھگڑا فاما ڈی امریکا میں ہوا، جو ایک کافی پروسیسنگ پلانٹ ہے جسے مزدوروں کی جدوجہد کے نتیجے میں 2010ء میں ضبط کرلیا گیا۔ ان دنوں انتظامیہ کی جانب سے سرگرم مزدور رہنماؤں میں سے ایک کی برطرفی کی وجہ سے جھگڑا چل رہا ہے۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ یہ برطرفی مزدوروں کی تنظیم پر ایک سیاسی حملہ ہے۔
ایک دوسرے واقعہ میں سینکڑوں مزدوروں کو وزارت ماحولیات سے اس وقت نکال دیا گیا جب اسے دوسرے سے ضم کرکے اس کی تنظیم نو کی گئی۔ مزدور اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں لیکن ابھی تک حکام کی جانب سے ان کی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔
یہ ایسی چند مثالیں ہیں جو ہر سطح پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس سیاق و سباق میں ’’انقلاب‘‘ اور ’’سوشلزم‘‘ کی باتیں محض کھوکھلے نعرے لگتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا تھا ’’ایک سنجیدہ خطرہ موجود ہے کہ اپوزیشن پارلیمانی انتخابات میں ایک اچھا نتیجہ حاصل کرے گی یا حتیٰ کہ اکثریتی نشستیں حاصل کرے گی۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ عوام کا قصور نہیں بلکہ ان کے لیڈروں کا ہوگاجنہوں نے مسلسل سرمایہ دار طبقے کی دولت کو ضبط کرنے سے اجتناب کیا ہے اور اس کے بجائے نجی سرمایہ داروں سے اپیل کی ہے یا انتظامی اقدامات کے ذریعے سرمایہ دارانہ منڈی کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

آگے کیا ہوگا؟
یہ بات بالکل واضح ہے کہ ردانقلابی قومی اسمبلی میں جیتی گئی اپنی اس کامیابی کو انقلاب کی حاصلات کے خلاف استعمال کریں گے ۔ وہ وینزویلا کو درپیش معاشی مسائل کو پرائس کنٹرول کے خاتمے، سماجی خدمات کے اخراجات میں کٹوتی، کرنسی کی قیمت کو گرانے اور مزدوروں کی قیمت پر حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
Venezuelaسب سے بڑھ کر وہ اس فتح کو ان اداروں کی طاقت پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کریں گے جو ابھی تک بولیوارین تحریک کے ہاتھ میں ہیں اور پہلی ہی فرصت میں صدارتی ری کال ریفرنڈم کرانے کی کوشش کریں گے۔ وہ ایک عام معافی کا قانون پاس کرکے ان تمام رد انقلابی کارکنوں اور سیاست دانوں کو جیلوں سے رہا کریں گے جو 2014ء کے فسادات میں 43 افراد کے قتل میں ملوث تھے۔
پہلی بات یہ ہے کہ یہ شکست انقلابی کارکنا ن کے لیے ایک کاری ضرب ہوگی۔ سالوں تک تحریک کو ایک کے بعد دوسری کامیابی مل رہی تھی۔ تاہم اس تمام معاملے کے بعد شکست کی وجوہات پر ایک شدید سیاسی بحث ہوگی جس طرح سپین کے انقلاب میں جب اکتوبر 1934ء کی بغاوت کے کچلے جانے کے بعد سوشلسٹ تنظیموں میں بے تحاشا ریڈیکلائزیشن دیکھنے میں آئی تھی، ونیزویلا میں ہونے والی شکست کو بولیوارین تحریک کے زیادہ ریڈیکل اور انقلابی دھڑے کی مضبوطی پر منتج ہونا چاہیے۔
اسی دوران تحریک کے اصلاح پسند اور بیوروکریٹک دھڑے پر مزید دباؤ بڑھے گا۔ پہلے سے ہی ’’مذاکرات‘‘ اور ’’سمجھوتے‘‘ کی باتیں ہورہی ہیں۔ کچھ اعلیٰ بد عنوان عہدیدار پہلے سے ہی اپنی مراعات اور لوٹ مار کی حفاظت کے لیے وفاداری تبدیل کرنے کا سوچ رہے ہوں گے۔ اس سے بولیوارین تحریک کی ایک صحت مند صفائی کو جنم لینا چاہیے۔
وینزویلا کے عوام پچھلی دہائی کی فتوحات کو آسانی سے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ سرمایہ دار اپوزیشن کتنی تیزی سے اہم سماجی پروگرامز کو ختم کرے گی جیسے کیوبا کے ڈاکٹروں کو واپس بھیجنا، تعلیمی پروگراموں کا خاتمہ، نئی تعمیر شدہ یونیورسٹیوں پر حملہ، پینشن کے حقوق کو محدود کرنا، ریاستی اداروں کی نجکاری، ریاست میں سیاسی تطہیروغیرہ۔ وہ اب پر اعتماد ہوچکے ہیں اور اس اعتماد کے نشے میں وہ اپنی چادر سے باہر بھی پاؤں پھیلا سکتے ہیں۔ کوئی بڑی اشتعال انگیزی عوام کو بغاوت پر اکسا سکتی ہے جو بلاشبہ انتخابی میدان میں شکست کھا چکے ہیں لیکن کسی طرح بھی کچلے نہیں گئے۔
جدوجہد کے اس نئے میدان میں حتمی سوال اہم اسباق سیکھنا ہے: اصلاح پسندی کا وقت (یعنی سرمائے کی ضبطگی کے بغیر وسیع سماجی پروگرامز لاگو کرنا) اب ختم ہوچکا ہے۔ بولیوارین انقلاب اس شکست سے صرف ایک صورت میں نکل سکتا ہے کہ وہ ایک واضح سوشلسٹ پروگرام اپنائے۔ صدر ہوگو شاویز کی تقریر ’’پتوار کا رخ موڑ دو‘‘ میں بیان کیے گئے دو اہم فریضوں کو عملی جامہ پہنایا جائے: ایک سوشلسٹ معیشت کی تعمیر اور بورژوا ریاست کو اکھاڑ پھینکنا۔
ایک نظریاتی جدوجہد درکار ہے۔ بولیوارین تحریک کو اس دھچکے سے نکلنے کے لئے انقلابی سوشلسٹ پروگرام درکار ہے!