یوکرائن: امریکی سامراج کی بے بسی

[تحریر: عمران کامیانہ]
1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے پر مغربی سامراجی خوشی کے شادیانے بجارہے تھے۔ 1943ء میں سوویت یونین کے انہدام کا تناظر پیش کرنے والے عظیم مارکسی انقلابی ٹیڈ گرانٹ (1913-2006) نے 1991ء کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’آج یہ سامراجی جشن کے نشے میں دھت ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ روس میں مغربی طرز کی صحت مند سرمایہ داری کی بجائے مافیا سرمایہ داری پروان چڑھے گی۔ سرمایہ دارانہ روس ایک جارحانہ طاقت کے طور پر ان کے لئے وبال جان بن جائے گا۔‘‘ آج یوکرائن میں ہونے والے واقعات اور کریمیا کا روس کے ساتھ الحاق مغربی سرمایہ داری کے زوال اور بے بسی کی عکاسی کرتا ہے۔ روس کا سرمایہ دار حکمران طبقہ پیوٹن کی سربراہی میں اپنے جارحانہ عزائم کے ساتھ متحرک ہے۔ اس نظام کا معاشی بحران دنیاکے ہر خطے میں سفارتی، سیاسی اور سماجی بحران کو جنم دے رہا ہے۔
18 مارچ کو ماسکو میں ڈوما (پارلیمنٹ) کے سامنے فیصلہ کن تقریر کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کریمیا کو روسی تحویل میں لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے قبل 16 مارچ کو کریمیا میں ہونے والے ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت نے روسی فیڈریشن کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ صدر پیوٹن کی تقریر کے فوری بعد کریمیا کی حکومت نے روس کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں۔ تا وقت تحریر روسی پارلیمنٹ کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق ہونا باقی ہے۔
پیوٹن کی تقریر دراصل امریکی سامراج کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ کا درجہ رکھتی ہے۔ روس پر امریکہ اور یورپی یونین کی ’’وارننگ‘‘ اور دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا دورہ ماسکو بھی بالکل علامتی تھا کیونکہ روس کے پاس سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار موجود ہے۔ اس وقت روس کی حمایتی افواج کریمیا پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہیں جبکہ یوکرائن کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ کریمیا میں موجود اپنے 22000 فوجیوں کا انخلا جلد مکمل کرلے گی۔ پیوٹن کی حالیہ تقریر ، خطے میں مغرب کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے بیزاری اور غصے کی عکاس ہے۔ اپنی تقریر میں اس نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’انہوں (یورپی یونین اور امریکہ) نے ہم سے بار بار جھوٹا بولا ہے۔ مشرق میں نیٹو کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور ہماری سرحدوں پر فوجی تنصیبات کی تعمیر اسی فریب کی کڑیاں ہیں۔ ۔ ۔ یہ لوگ ہمیں دیوار کے ساتھ لگا دینا چاہتے ہیں کیونکہ ہم آزادانہ تشخص رکھتے ہیں، کیونکہ ہم سیدھی بات کرتے ہیں، کیونکہ ہم ان کی طرح منافق نہیں ہیں۔ لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور یوکرائن میں مغربی طاقتوں نے وہ حد عبور کی ہے۔ ۔ ۔ آج یہ بات واضح ہوجانی چاہئے کہ روس عالمی سطح کے معاملات میں اہم فریق ہے، ہمارے اپنے مفادات ہیں جن کا احترام کیا جانا چاہئے۔‘‘
سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس کی عسکری طاقت اور حلقہ اثر بڑی حد تک سکڑ گیا تھا۔ تاہم پچھلے کچھ سالوں کے دوران 1991ء کے بعد جنم لینے والے نومولود روسی حکمران طبقے نے معاشی، سیاسی، سفارتی اور عسکری لحاظ سے اپنی پوزیشن خاصی مستحکم کی ہے۔ امریکی سامراج کے پالیسی سازشاید ذہنی طور پر ابھی تک 90ء کی دہائی میں رہ رہے تھے اور انہیں یوکرائن کے معاملے میں روس کے ممکنہ رد عمل کا اندازہ نہیں تھا۔
روس کی جارحانہ حکمت عملی بے نقاب ہونے کے بعد نیٹو اور یورپی حکمرانوں کے ہنگامی اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لیکن مغربی طاقتیں کئی ایک سنجیدہ مشکلات اور تضادات کا شکار ہیں۔ ایک طرف عالمی مالیاتی بحران نے مغربی سامراج کو مفلوج کیا ہوا ہے تو دوسری طرف وہ روس کے ساتھ براہ راست عسکری تصادم مول لینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ خطے میں اپنے اتحادیوں کا ڈگمگاتا ہوا اعتماد بھی بحال کرنا چاہتے ہیں جو یوکرائن کے بعد خود کو روس کے نشانے پر آتا ہوا محسوس کررہے ہیں۔ اس بے بسی کے عالم میں 19 مارچ کو صدر اوباما نے ’’غیر آئینی ریفرنڈم‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے پیوٹن کے کچھ قریبی ساتھیوں کے اثاثے منجمند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ نام نہاد ’’پابندیاں‘‘ انتہائی مضحکہ خیز ہیں کیونکہ اس سے روس کو کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ امریکی سامراج کے اس بے دلانہ اور نحیف رد عمل نے صورتحال کو اور بھی واضح کر دیا ہے۔ روس پر صحیح معنوں میں اقتصادی پابندیاں اس لئے نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ یورپ توانائی کے معاملے میں روسی تیل اور گیس پر منحصر ہے۔ ماضی میں بھی ایک سے زیادہ مواقع پر یورپ کی گیس سپلائی بند کر کے پیوٹن جتلا چکا ہے کہ ایسا کوئی بھی قدم روس سے زیادہ یورپ کو نقصان پہنچائے گا۔ اسی طرح روس پر عسکری پابندیوں کی تجویز کو فرانس نے ویٹو کر دیا ہے کیونکہ روس اور فرانس کے درمیان اربوں ڈالر کے فوجی معاہدے موجود ہیں۔ فرانس کے علاوہ برطانیہ بھی روس پر پابندیوں کے حق میں نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں روسی سرمایہ داروں کی برطانیہ میں سرمایہ کاری پر ضرب لگے گی۔ صدر اوباما نے اگرچہ مستقبل میں سخت پابندیوں کے امکان کا اشارہ بھی دیا ہے لیکن ایسا کوئی بھی قدم پہلے سے زوال پزیر عالمی سرمایہ داری کو زیادہ گہرے بحران سے دوچار کرسکتا ہے۔ روسی سرمایہ داروں پر پابندیوں کے جواب میں روسی حکومت نے بھی کچھ امریکی سیاسی رہنماؤں کا ملک میں داخلہ ممنوع قرار دینے کا اشارہ دیا ہے۔ درحقیقت پیوٹن اقتصادی پابندیوں سے بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہے۔ یہ پابندیاں جتنی سخت ہوں گی داخلی طور پر اس کی مقبولیت میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔
کریمیا کی علیحدگی کے بعد باقی کے مشرقی یوکرائن میں صورتحال اور بھی نازک ہوگئی ہے۔ یوکرائنی حکومت کا زیادہ سخت قوم پرستانہ موقف یوکرائن میں روسی نسل کے ان افراد کو بھی ابھارے گا جو فی الوقت کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق سے خوش نہیں ہیں۔ کوئی ایک بھی واقعہ روس کی جانب سے براہ راست فوجی مداخلت پر منتج ہوسکتا ہے۔ ’’یوکرائن میں روسی آبادی کی حفاظت‘‘ کا بہانہ روس کے پاس پہلے ہی موجود ہے۔ ایسی کسی صورتحال کے لئے روسی فوج یوکرائن کی سرحد پر پہلے ہی تیاریوں میں مصروف ہے۔ کریمیا میں آبادی کے وسیع حصے نے روسی فوج کی تعیناتی کا خیر مقدم کیا ہے۔ ریفرنڈم میں دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں، اس بات سے قطع نظر کریمیا کی آبادی کی اکثریت روسی فیڈریشن کے ساتھ الحاق کے حق میں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کریمیا کے عوام یوکرائن میں بڑھتے ہوئے معاشی و سماجی خلفشارکے پیش نظر روس کو ایک حفاظتی ڈھال سمجھ رہے ہیں۔
یوکرائن میں مغربی مداخلت پر روس کے رد عمل نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے جب بنیادی طور پر متضاد مفادات ٹکراتے ہیں تو معاملات صرف طاقت کے زور پر ہی حل کئے جاسکتے ہیں۔ یوکرائن میں لمبے عرصے سے جاری مغربی طاقتوں کی دخل اندازی نے اس بحران کو جنم دیا ہے جو اب ان کے اپنے قابو سے بھی باہر ہے۔ روس کی براہ راست مداخلت نے صورتحال کو اور بھی پیچیدہ کر دیا ہے اور اب تمام فریقین اجلت اور بوکھلاہٹ میں اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے سرگرم ہیں۔ اس بحران کے مضمرات صرف یوکرائن تک محدود نہیں ہیں۔ روس نے درحقیقت اپنا کھویا ہوا تاریخی اثر و رسوخ بزور طاقت بہال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ روس اور مغرب کے درمیان مقابلہ بازی پورے خطے پر اثر انداز ہوگی۔
پچھلے سال اکتوبر میں شائع ہونے والی Credit Suisse کی سالانہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں امیر اور غریب کے درمیان سب سے وسیع خلیج روس میں موجود ہے۔ صرف 110 امیر ترین روسی شہری ملک کی 35 فیصد دولت پر قابض ہیں۔ یہ اعداد و شمار 1991ء میں سرمایہ داری کی بہالی کے بعد ہونی والی وسیع پیمانے کی لوٹ مار اور کرپشن کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہیں۔ پیوٹن عام روسی شہریوں کا نہیں بلکہ سرمایہ داروں، عسکری بیوروکریسی اور اشرافیہ کا نمائندہ ہے۔ کریمیا کے بحران کے نتیجے میں پیوٹن کی مقبولیت میں اضافہ وقتی ہے۔ روسی ریاست کا جارحانہ رویہ عوام کی معاشی مشکلات اور مصائب کا مداوا نہیں کرسکتا۔ پیوٹن کے ان الفاظ سے واضح ہے کہ روس کا حکمران طبقے امریکہ کے ساتھ دشمنی کا فائدہ داخلی سطح پر بھی اٹھانا چاہتا ہے، ’’کچھ مغربی سیاستدان ہمیں داخلی طور پر سنجیدہ نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ لوگ ’قوم کے غداروں‘ کو استعمال کریں گے یا معاشی مسائل بڑھا کر عوامی غصے کو ابھاریں گے؟ اگر ایسا ہوا تو ہم صورتحال کے مطابق ’جواب‘ دیں گے۔ ‘‘پیوٹن نے واضح طور پر عندیہ دیا ہے کہ ریاست کی مخالفت اور حکومت کی نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے برداشت نہیں کئے جائیں گے۔ آنے والے دنوں میں ان الفاظ کا عملی مظاہرہ بھی روسی عوام کو دکھایا جائے گا۔ روس کا حکمران طبقہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی جانب سے بہتر معیار زندگی کے لئے بلند کی جانے والی ہر آواز دبانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ حکمرانوں کی اس طبقاتی جارحیت کا جواب دنیا بھرکے محنت کشوں کو یکجا ہوکر دینا ہوگا۔