کس کس دہشت کے زخم؟

[تحریر: لال خان]
پشاور میں سکول کے بچوں کے قتل عام نے جہاں انسانی سماج کو لرزا کے رکھ دیا ہے وہاں وہاں غربت اور استحصال کے مارے اس ملک کے محنت کش عوام کی روح اور احساس اور بھی گھائل ہو گئے ہیں۔ حکمران کو کوئی ’’صدمہ‘‘ شاید پہنچا ہو لیکن ان کی روش بدلی ہے نہ بدل سکتی ہے۔ اس طبقے کی عیش و عشرت اور شان و شاکت پر کوئی آنچ نہیں آئی ہے۔ سرکاری محلات میں ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ اور دوسرے نمائشی اجلاسوں اور ’’اقدامات‘‘ پر کروڑوں روپے اڑائے جارہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کی اذیت کا اس اشرافیہ کو کوئی احساس نہیں ہے۔ مہنگائی کی تکلیف تو ویسے بھی غریبوں کے لئے ہوتی ہے۔ اعلیٰ ترین علاج سے لے کر مہنگی سے مہنگی تعلیم ان حکمرانوں اور ان کی اولادوں کی دسترس میں ہے۔ مصائب اور دکھ محنت کشوں کے لئے ہیں۔
ایک طرف بارود کی دہشت گردی سماج کو تاراج کر رہی ہے تو دوسری طرف آبادی کی بھاری اکثریت معاشی اور سماجی دہشت گردی کا شکار ہے۔ نام نہاد جمہوریت ہو یا کوئی فوجی حکومت، معاشی دہشت گردی کرنے والے سرمایہ دار، جاگیر دار طبقے کی حاکمیت ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ مدعی بھی وہی ہیں اور منصف بھی۔ غریبوں کے خون، پسینے اور آنسوؤں کے آخری قطرے نچوڑ کر بھی اپنی تجوریاں بھرتے چلے جارہے ہیں۔ ’’ترقی‘‘ کے دعوے سنیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ حکمران کسی اور ہی سیارے کی مخلوق ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امیر، امیرتر ہو رہے ہیں اور کروڑوں انسان محرومی کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن ہوتے چلے جارہے ہیں۔
پچھلے ہفتے جب مذہبی جنونیوں کی بارودی دہشت گردی کا دل سوز واقعہ پیش آیا تو اسی دوران معاشی دہشت گردی کی ایک رپورٹ بھی خبروں کے انبار میں کہیں گم ہوگئی۔ نیم سرکاری این جی اوز کے اعداد و شمار بھی حکومتی رپورٹوں کی طرح بڑی ’’احتیاط‘‘ سے جاری کئے جاتے ہیں لیکن SDPI کی رپورٹ کے مطابق اس ملک میں 30 لاکھ انسان ہر سال خط غربت سے نیچے گر رہے ہیں۔ یعنی یہ نظام زر 8219 انسانوں کو ہر روز غربت میں غرق کر رہا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال آٹے اور بنیادی غذائی ضرورت کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح’’دنیا نیوز‘‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 413000 بچے ہر سال غربت اور قابل علاج بیماریوں سے مرتے ہیں یعنی معاشی دہشت گردی 1132 بچوں کا قتل عام روزانہ کرتی ہے۔ ان بچوں کی ماؤں میں بھی مامتا ہوتی ہے، ان کے سینے میں بھی دل دھڑکتاہے۔ کھلنے سے پہلے مرجھا جانے والے یہ پھول اپنے والدین کے مستقبل کا سہارا ہوتے ہیں۔
اس المناک ملک میں 82 فیصد آبادی غیر سائنسی علاج کروانے پر مجبور ہے۔ 78 فیصد آبادی دو ڈالر یومیہ سے کم پر زندہ رہنے کی سزا کاٹ رہی ہے۔ غریب طبقات کی 265000 خواتین زچگی کے دوران نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ ڈھائی کروڑ بچوں نے سکول کی شکل نہیں دیکھی۔ نظام تعلیم یہ ہے کہ جو سکول تک پہنچ بھی جاتے ہیں ان کی اکثریت پرائمری سے پہلے ہی بھاگ جاتی ہے۔ لاکھوں بچے بانڈڈ لیبر پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے خاندان اپنے پرکھوں کا قرض اتارنے کے لئے نسل در نسل سود خوروں کے زنجیروں میں جکڑے ہیں۔ فروغ تعلیم اور بانڈڈ لیبر سے آزادی کے نام پر دیا گیا ’’نوبل انعام‘‘ اس نظام میں بچوں کو تعلیم دلا سکتا ہے نہ ہی یہ گروی بچے اس جبری مشقت سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ نوبل انعام دینے والے سامراجی آقا، وحشت پر مبنی اس نظام کے سب سے بڑے علمبردار اور محافظ ہیں۔
کشکول توڑنے کی باتیں کرنے والے یہ حکمران خود چلتے پھرتے کشکول بن چکے ہیں اور ان کشکولوں کی گہرائی کسی بلیک ہول سے بھی زیادہ ہے۔ ساری دنیا کی دولت بھی ان کی ہوس نہیں مٹا سکتی۔ ورلڈ بینک اور دوسرے سامراجی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کی انتہا کر دی گئی ہے جس سے اپنی تجوریاں بھری جارہی ہیں۔ SDPI کی رپورٹ کے مطابق ’’حکومت پاکستان نے ورلڈ بینک سے قرضے صرف ’میگا پراجیکٹس‘ کے لئے حاصل کئے ہیں اور عوامی فلاح، سماجی بہتری اور غربت سے خاتمے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے…گلوبل معیشت شدید زوال سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے اور غریبوں کے حالات بتدریج بد سے بد تر ہو رہے ہیں۔‘‘ (ڈیلی ٹائمز، 14 دسمبر 2014ء)
23دسمبر کو مشہور انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی تفصیلی رپورٹ کے مطابق بیرونی قرضہ 47ارب ڈالر ہوچکا ہے اور ہر شہری 82627 روپے کا مقروض ہے۔ داخلی قرضہ اس کے علاوہ ہے جسے اگر شامل کیا جائے تو فی پاکستانی قرضہ دو لاکھ تک پہنچ جاتا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ نئے پراجیکٹس کے لئے قرضے لئے جارہے ہیں تو موٹر وے اور ایئرپورٹس جیسے پرانے پراجیکٹ گروی رکھ کے ’’سکھکھ بانڈز ‘‘ بیچے جارہے ہیں تاکہ خزانے کا خسارہ کم کیا جاسکے۔ یہ بانڈ دراصل قرضے کی ہی ایک شکل ہیں۔ کون پوچھنے والا ہے؟ فیصلے بھی ان کے، معاشی پالیسیاں بھی ان کی اور کمیشن بھی انہی کے۔ ٹھیکے دینے والے خود ہی ٹھیکیدار بھی ہیں!
میڈیا ہے کہ ایک انتہا سے دوسری انتہا تک جانے میں دیر نہیں لگاتا۔ مالی مفادات اور ’’اوپر‘‘ سے ملنے والی لائن ہی اس آزاد میڈیا کی پالیسی بن جاتی ہے۔ آج کل ریاست کے قصیدے یوں پڑھے جارہے ہیں گویا فرشتوں پر مشتمل ہو۔ چند روز پہلے تک یہی میڈیا پولیس سے لے کر عدلیہ، رینجرز اور ریاست کے ہر ادارے کی کرپشن کا کچا چٹھا کھول رہا تھا۔ ایسا کون سا معجزہ ہوا ہے کہ ایک ہفتے میں ساری ریاستی مشینری پاک اور پرہیزگار ہو گئی ہے؟
ریاست بھی وہی ہے اور اس کے اندھے اہلکار اندھی طاقت کا استعمال بھی ویسے ہی کر رہے ہیں۔ کچھ مہروں کو تختہ دار کے ذریعے کھیل سے باہر کر دیا گیا ہے لیکن دولت مند آقاؤں میں سے کوئی پکڑا بھی نہیں گیا۔ دہشت کے کاروبار کا کوئی سرمایہ کار بھی کبھی گرفتار ہوا ہے؟ آلہ کاروں کو لٹکایا جارہا ہے اور آقاؤں کو چھوڑا جارہا ہے۔ دہشت گردی کرنے والے تو پہلے ہی موت کو جنت کا راستہ سمجھتے ہیں۔ پھانسی اور ریاستی جبر سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔ تھانوں میں بے کسوں پر تشدد اور بھی زیادہ شدت سے ڈھایا جائے گا۔ منہ سونگنے والے پولیس ناکوں پر عام لوگ ہی ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ شریفوں کی شرافت کا آخر کوئی تو مظاہرہ ہونا چاہئے۔ نظام ٹریفک پہلے ہی درہم برہم ہے جسے یہ ’’چیک‘‘ پوسٹیں اور بھی پرانتشار بنا رہی ہیں۔
دہشت گردی کی براہ راست ترغیب دینے والوں کے لاؤڈ سپیکر بدستور گرجتے رہیں گے، ہر قسم کے ملا دھاڑتے رہیں گے، فرقہ واریت کا زہر پھیلاتے رہیں گے اور نارمل انسانوں کا سکون برباد کرتے رہیں گے۔ لیکن شریفوں کی حکومتوں میں یہ سب چلتا ہے کیونکہ ملاؤں اور ان کے خلیجی سرپرستوں نے ہی آخر کام آنا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست اپنے تزویراتی اثاثوں کی ’’ڈانٹ ڈپٹ‘‘ سے آگے نہیں بڑھے گی۔ اس کی اصل درندگی محنت کشوں کی تحریکوں کے خلاف ہی بے نقاب ہوتی ہے۔ اس جذباتی اور نازک کیفیت میں ریاست کو دہشت گردی کے نام پر جو کھلی چھوٹ دی گئی ہے وہ ایسی ہی کسی ممکنہ تحریک کی تیاری ہے۔ دہشت گردی کو بھی یہ حکمران اپنے مقاصد کے لئے کس عیاری سے استعمال کرتے ہیں۔ ان حکمرانوں کو اپنی معاشی دہشت گردی کے ردعمل میں عوامی انتقام اور بغاوت کا خوف کھائے جارہا ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ محنت کش عوام جب انقلابی جرات کے ساتھ استحصالی طبقے اور اس کے نظام کے خلاف ابھرتے ہیں تو جابر سے جابر ریاستیں بھی ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ یہاں کے حکمران طبقے کے سیاسی و ریاستی اوزار تو تاریخی متروکیت سے زنگ آلود ہو کر پہلے ہی بکھر رہے ہیں۔ محنت کش عوام کا وقت آج خراب ہے، ہمیشہ تو نہیں رہے گا!

متعلقہ:

یہ بچے کس کے بچے ہیں؟

ننھے چراغوں میں لَو کی لگن

سانحہ کوٹ رادھاکشن: مذہب کی آڑ میں سرمائے کی وحشت!

پاکستان: بربادیوں کی داستان

پروری