| تحریر: لال خان |
ترک وزیراعظم احمد داؤداوغلو کا خاموشی سے مستعفی ہونے کا اعلان، جو 22 مئی کو اے کے پارٹی (موجودہ حکمران پارٹی) کی کانگریس کے موقع پر اقتدار چھوڑدے گا، حکومت کے شدید بحران اور رجب طیب اردگان کی نیم بنیاد پرست حکومت کی موجودہ کیفیت کا پتا دیتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طیب اردگان کے صدارتی نظام حکومت کے منصوبے کی مخالفت کرنے پر داؤداوغلو اس انجام کو پہنچ رہا ہے۔ لیکن اس کا اپنے مالک سے خوف اتنا شدید ہے کہ ایک تقریر میں موصوف کا کہنا تھا، ’’کوئی بھی میرے منہ سے یا میرے دل سے ہمارے صدر (طیب اردگان) کے خلاف کبھی ایک لفظ بھی نہیں سنے گا۔‘‘
الجزیرہ نے طنزیہ انداز میں تبصرہ کیا، ’’اختتام بہت تیز اور شدید تھا۔ احمد داؤد اوغلو کو اصل طاقت کے مالک صدر رجب طیب اردگان کی مخالفت کرنے کے بعد جانا پڑا۔ داؤداوغلو کو ایک تابعدار وزیراعظم بننا تھا لیکن اس نے اردگان کی زیادہ متنازعہ پالیسیوں سے اختلاف کیا اور آئین کو تبدیل کرکے صدر کے اختیارات کو بڑھانے کے منصوبے میں ڈگمگا گیا۔ اس کے استعفے کا مطلب اردگان کی ترکی پر مزید سخت گرفت ہے اور متوقع طور پر وہ ایک زیادہ تابعدار وزیراعظم تعینات کرے گا۔اس سے بہت سے مغربی رہنماؤں کو پریشانی ہوگی جو اردگان کو قابو نہیں کر پارہے۔‘‘
اس صورتحال میں یہ اہم ملک ایک سیاسی بحران کا شکار ہوگا جو پہلے سے ہی سکیورٹی خطرات اور انسانی حقوق اور آزادی اظہار پر قدغن کی وجہ سے تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔ صدر اردگان کا آنے والے وزیر اعظم کے لیے پیغام یہ ہے: ’میرے اشارے پر چلو ورنہ تمہارے ساتھ بھی یہی ہوگا‘۔ 2014ء میں صدر منتخب ہونے کے بعد اردگان نے داؤداوغلو کو اے کے پارٹی کے سربراہ کے طور پر چنا تھا۔
یہ سب ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ترکی کو روزافزوں عدم استحکام کا سامنا ہے۔ ترکی کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے باغیوں کے ساتھ جنگ، داعش کے حملوں اور پناہ گزینوں اور مہاجرین کے سیلاب کے مسائل سے دو چار ہے۔ ترکی کو یورپی یونین کے ساتھ ایک اہم معاہدے کو بھی لاگو کرنا ہے جس کے تحت اسے یورپی یونین میں شمولیت اور مالی امداد کے بدلے میں مہاجرین کے داخلے کو روکنا ہے۔ اس معاہدے کامستقبل داؤد اوغلو کے جانے سے مشکوک ہوگیا ہے۔
سیاسی بے یقینی سے مالیاتی منڈیوں میں بھی بھونچال آگیا ہے۔ بدھ کو ترک لیرا امریکی ڈالر کے مقابلے میں 4 فیصد گراوٹ کے ساتھ روزانہ کی سب سے کم ترین سطح پر آگیا۔ پچھلی دہائی میں ترک معیشت کا دھماکہ خیز ابھار بڑا حیران کن اور پرفریب تھا۔ 2002ء سے ترک معیشت تقریباً چار گنا بڑھ گئی ہے جو زیادہ تر تعمیرات میں بڑھوتری کی وجہ سے ہوا، بے تحاشا شاپنگ مالز، فلک بوس عمارتوں اور انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبوں کی فراوانی ہوگئی۔ پاکستان میں شریف برادران نہ صرف اردگان کی معاشی پالیسیوں بلکہ اس کے آمرانہ ’جمہوری‘ کرتوتوں کو بھی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پچھلی دہائی میں بہت سی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی طرح ترک معیشت بھی عالمی مالیاتی بحران کے دوران، جب زیادہ تر مغربی معیشتیں جمود کا شکار تھیں، کمزور ہوئے بغیر بڑھتی رہی۔
لیکن تمام تر ابھرتی ہوئی منڈیوں کی مانند ترکی کی معاشی نمو بھی ایک نازک بلبلے میں تبدیل ہوگئی ہے جو مغربی معیشتوں کے اسی بلبلے کی مانند ہے جو 2008ء اور اس کے بعد کے کچھ سالوں میں پھٹا۔ پچھلے سال ترکی کی کرنسی اور مالیاتی منڈیوں میں تیز زوال پزیری ہوئی لیکن ابھی تک ترکی کے معاشی بلبلے اور اس کے خطرناک نتائج کے بارے میں بہت ہی کم آگاہی پائی جاتی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں ترکی کی مالیاتی پالیسیوں کی بنیادی کم شرح سود ہے۔ 2011ء میں ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان نے کہا تھا، ’’سود یا سود کے لیے قرض پر شرعی قوانین کی پابندی کے عمل درآمد کا بہترین طریقہ صفر شرح سود کی پالیسی ہے۔ ہم حقیقی شرح سود کو آنے والے عرصے میں ختم کریں گے تاکہ لوگ اپنی آمدنی کام کرکے بڑھائیں نہ کہ سود کے ذریعے۔‘‘
فوربز میگزین نے اس پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھا، ’’یقیناًکم ترین شرح سود عارضی معاشی ابھار لانے کے حوالے سے جانی جاتی ہے جس کی بنیاد قرضوں اور اثاثوں کے بلبلوں پر ہوتی ہے۔ یہ بات اردگان کو بھی پتہ ہے جس نے ترکی کو 2023ء تک دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں لانے کا تہیہ کیا ہے۔ 2008ء سے ترکی کے نجی شعبے کو جاری ہونے والے قرضے چار گنا بڑھے ہیں اگرچہ ملک کا حقیقی جی ڈی پی تقریباً ایک تہائی بڑھا جس کا بڑا حصہ قرضوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔‘‘ صفر شرح سود کی پالیسی اردگان کے مذہبی عقائد کا شاخسانہ نہیں ہے، جیسا کہ وہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، بلکہ یہ گرتی ہوئی معیشت کو قرضوں کے ذریعے سہارا دینے کی مایوس کن کوشش ہے۔ لیکن یہ پالیسی یورپ، امریکہ اور جاپان وغیرہ میں پہلے ہی بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔
اردگان ترکی کا ’’سلطان‘‘ ہونے کی غلط فہمی کا شکار ہے اور اپنے دماغ میں عثمانی سلطنت کو دوبارہ زندہ کرنے کا سامراجی منصوبہ رکھتا ہے۔وہ اپنی جابرانہ حکومت کو جاری رکھنے کے لیے تباہ کن راستے پر گامزن ہے اور کسی بھی انتہا پر جا سکتا ہے۔ وہ ترک حکمرانوں کے پسندیدہ طریقوں یعنی تشدد، جنگ، قومی تعصبات، اسلامی بنیاد پرستی کو ہوا دے کربحرانات کو حل کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ وہ کسی بیرونی ملک، جیساکہ شام، کے ساتھ براہ راست جنگ نہیں چھیڑ سکتا اس لیے وہ کردوں کے ساتھ خانہ جنگی کو پھر ہوا دے رہا ہے تاکہ قوم پرستی کی بنیاد پر حمایت لے سکے۔ وہ عراقی سرحد پر PKK کے کیمپوں پر بمباری کر رہا ہے اور کرد آبادی کے بڑے علاقوں کو ’’فوجی سیکیورٹی زون‘‘میں تبدیل کررہا ہے۔ بہت سے کرد سیاست دانوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔لیکن اس بے لگام حکمت عملی سے کچھ بھی نہیں مل رہا۔ اس کا اظہار اردگان کی جانب سے کھلے عام کرد آبادی کے خلاف تشدد کی حمایت سے ہوتا ہے ۔
مشرق وسطیٰ بالخصوص شام میں ترکی کی پالیسیاں ناکام ہوگئی ہیں اور ترکی اور داعش کے بیچ ایک غیررسمی اتحاد کے ناقابل تردید ثبوت منظر عام پر آئے ہیں۔ یہ بات اب بالکل واضح ہے کہ ترک ریاست داعش کے خلاف جنگ کی آڑ میں کردوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
چنگیز اختر، جو استنبول پالیسی سینٹر کا ایک تجزیہ نگار ہے، نے حال ہی میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ، ’’اردگان خوشامدیوں کے ٹولے کے نرغے میں ہے اور حقیقت سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے فیصلے ترکی اور خطے کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس سے ترکی میں انتشار اور پہلے سے خطرات میں گھرے خطے میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ مختصراً اردگان اب مسئلے کے حل کی بجائے خود ایک مسئلہ ہے۔‘‘
2013ء میں غازی پارک کی اردگان مخالف تحریک اور اپنی پارٹی کے خلاف کرپشن کے الزامات کے بعد اردگان اپنی حاکمیت کوزیادہ وحشیانہ طریقے سے مسلط کرنے کے لیے زیادہ حواس باختہ ہوچکا ہے۔ لیکن اس دوران ترکی میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی کئی تحریکیں چلی ہیں جن پر بدترین ریاستی تشدد کیا گیا۔ آئی ٹی یو سی (ITUC) کے جنرل سیکرٹری شاران برو کے بقول، ’’حکومت یونینز کو کچلنا چاہتی ہے اور ترکی میں محنت کشوں کو ان کے تمام جائز حقوق سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ اس سے معیار زندگی مزید برباد ہوگا۔‘‘
اس بار یوم مئی کے موقع پر دو سو افراد کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب لوگ یکم مئی کے روایتی جلسے کی جگہ تکسیم اسکوائر کی طرف جارہے تھے ۔ایک شخص پولیس تشدد سے ہلاک ہوا۔ لیکن ریاستی جبر کے باوجود استنبول کے ضلع بکیرکوئے اور دوسری جگہوں میں ہزاروں لوگوں نے یوم مئی کی ریلیوں میں شرکت کی۔ ڈوبتی ہوئی معیشت، حکومتی بحران اور عوام کی بگڑتی ہوئی کیفیت میں ترک سماج میں بغاوت پل رہی ہے۔ اس بغاوت کو ناگزیر طور پر پھٹنا ہے۔ جب یہ ابھرے گی تو نہ صرف اس جعلی سلطان کی جابرانہ حکومت کا خاتمہ ہوگا بلکہ محنت کش اور نوجوان سماج کو تبدیل کرنے کی جدوجہد میں آگے بڑھیں گے۔
متعلقہ: