مزدور انجمنوں کی زوال پذیری اور لائحہ عمل

[تحریر: قمرالزماں خاں]
توقعات کے عین مطابق دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی پاکستان مسلم لیگ نواز کی رجعتی حکومت نے آتے ہی ہر طرف سے محنت کشوں پر حملے شروع کردیے ہیں۔ ایک طرف سامراجی ہدایات پر روزمرہ استعمال کی اشیاء اور خدمات کے شعبوں کے نرخ بڑھانے کے سابق حکومت کے عمل میں خاطر خواہ تیزی پیدا کردی گئی ہے جس کے براہ راست منفی اثرات اکثریتی محنت کش طبقے پر مرتب ہورہے ہیں تو دوسری طرف نج کاری کی تیاریاں کی جارہی ہیں جس سے نہ صرف متعلقہ شعبوں کی مصنوعات اور خدمات اور زیادہ مہنگی ہوجائیں گی بلکہ اجارہ داریوں کو فروغ ملے گا اور نوازبرادران کی حصہ داری میں اقربا پروری کے نئے ریکارڈ قائم ہونگے۔ مزدوروں کی غالب اکثریت پہلے سے ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔ غربت، افلاس، پسماندگی کے ساتھ ساتھ طویل اوقات کار اور انتہائی کم اجرتوں کی چکی میں پسنے والے مزدوروں کے حالات دن بدن خراب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پبلک سیکٹر کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت برباد کرکے اسکی تشہیر کی جارہی ہے تاکہ نج کاری کی راہ آسان ہو۔ اس ضمن میں پاکستان اسٹیل ملز کی طرح کچھ شعبوں کی زبوں حالی میں ٹریڈ یونین لیڈر شپ کی بے پناہ بدعنوانیاں اور شاہانہ زندگی برقرار رکھنے کی تگ و دو مزدوروں کے اور ادارے کے عمومی مفادات پر غالب آچکی ہے۔ ایسے اداروں کو نج کاری سے بچانے کے لئے محنت کشوں کو انتظامیہ اور حکومت کے ساتھ ساتھ اپنی نام نہاد قیادت کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کی ضرورت ہے۔
سب سے زیاہ تکلیف دہ حالات نجی شعبے میں ہیں۔ جہاں تقریباََ 98 فی صد فیکٹریوں، کارخانوں، اداروں، دفاتر، ہوٹلز، ورکشاپس، شاپنگ مالز، سکولوں، کالجز، یونیورسٹیوں‘ اسپتالوں، ٹرانسپورٹ کے شعبے اور دیگر جگہوں میں یا تویونین موجود ہی نہیں ہے اور جہاں ہے وہاں بھی اسکا وجود زیادہ تر مزدور مفادات کے حوالے سے غیر موثر ہے۔ نجی شعبے میں کام کرنے والے محنت کشوں کی زندگیاں بلا مبالغہ 1886ء سے بھی بدتر ہوچکی ہیں۔ آٹھ گھنٹے کی مزدوری کے بعدبغیر اوور ٹائم کے کام کرایا جانا نجی شعبوں میں معمول کی بات ہے، جہاں صرف آنے کا ٹائم مقرر ہے مگر جانے کا کوئی ٹائم فکس نہیں ہے۔ گارمنٹس کی فیکٹریوں میں جہاں زیادہ تر خواتین کارکن کام کرتی ہیں دس دس گھنٹے بغیر ٹیک لگائے کام کرایا جاتا ہے۔ چھٹی کسی صورت نہیں ملتی۔ کسی مجبوری کی حالت چھٹی کرنے پر نوکری سے فارغ کردیا جاتا ہے اور واجبات کی ادائیگی نہیں کی جاتی۔ خواتین ورکرز کا جنسی استحصال عام بات ہے۔ یہی صورتحال تعلیمی اداروں اور نجی اسپتالوں کی ہے۔ حادثات میں ہلاکتیں صنعتی زندگی میں معمول بن چکی ہیں جس پر کوئی خاص ہل چل نہیں ہوتی۔ سرمایہ دار مزدوروں کی جان کی حفاظت کے لئے ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کو کسی قسم کا کوئی خوف ہے۔ سرکار سرمایہ داروں کی ہے، مزدوروں کی محنت لوٹ کر الیکشن کے کاروبار میں کروڑوں روپے صرف کرنے والے اقتدار پر قابض ہیں لہٰذا اس طرف سے کوئی خوف نہیں ہے۔ جہاں تک مزدوروں کے مفادات کا تحفظ کرنے والے سرکاری اداروں کا تعلق ہے تو ان کا سوائے مالکان سے ہلکی پھلکی رشوت بٹورنے کے‘ مزدور کے حقوق دلوانے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ دوسری طرف مزدوروں کی انجمنیں گہرے زوال کی کیفیت میں ہیں۔ زیادہ تر مزدور انجمنیں مفاہمت اور مصالحت پر یقین رکھتی ہیں اور ان کا کردارمحض’’کلیریکل ‘‘ہوچکا ہے، لگے بندھے چھوٹے موٹے کاموں کے علاوہ ٹریڈ یونین کچھ نہیں کرپارہی۔ نظریاتی بندھن سے آزاد ہونے کے بعد زیادہ تر ٹریڈ یونین راہنما مزدوروں کی بجائے مالکان کی راہنمائی کا کردار نبھانے لگے ہیں۔ وہ مالکان کے مشیر بن کر ان کو مزدوروں کو کنٹرول کرنے کے گر بتاتے ہیں اور مزدوروں کے لئے حج کے ٹکٹ، سلائی مشینیں اور سائیکل کے حصول کی تگ ودو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بڑی بڑی فیڈریشنز مقامی نجی شعبے کی ٹریڈ یونین ازم سے کنی مارتی ہیں کیوں کہ اس میں جھک جھک زیادہ ہے، نام و نمود بھی کم ہے اور منافع کے امکانات بھی کوئی زیادہ نہیں ہیں جبکہ اسکے برعکس ملٹی نیشنل کمپنیوں اور پبلک سیکٹر میں زیادہ ٹھاٹھ باٹھ ہوتے ہیں۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد مزدور تحریک میں گراوٹ نے کئی رنگ بدلے ہیں جس میں سب سے زیادہ بھیانک بات ٹریڈ یونین فیڈریشنز کے مرکزی عہدے داروں میں وکلاء کی نامزدگیاں ہیں۔ اس سے مقامی فیکٹریوں اور اداروں میں براہ راست جدوجہد کی بجائے (جدوجہد سے بچنے) اور اپنے تئیں شارٹ کٹ راستہ اختیار کیا جاتا ہے اوریہ وکلاء اوپر سے نیچے تک مقدمہ بازی کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس طرح کسی بھی معاملے میں سینکڑوں مزدوروں سے فی کس فیس کی مد میں لاکھوں روپے اکٹھا کئے جاتے ہیں۔ یہ لاکھوں روپے وکیلوں کی جیبوں میں جاتے ہیں اور ساتھی مزدور قیادت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر اس کو دیانت داری اور جدوجہد کی بجائے عدالتوں کی راہ داریوں میں ساری زندگی ذلیل و خوار ہونے کا راستہ دکھاتے ہیں۔ زوال پذیری اور مزدور تحریک کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ بے پناہ بے روزگاری کے دباؤ کو حربے کے طورپر استعمال میں لایا جاتا ہے اور مزدوروں کو راست اقدام کی بجائے غیر معروف راستوں کی بھول بھلیوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ملک بھر کی لیبر کورٹس یا تو ججز سے محروم رہتی ہیں اور اگر جج صاحبان ہوں بھی تو ان کے ترازو کا ایک پلڑا سرمائے کے وزن سے بھاری رہتا ہے، ظاہر ہے مزدور جتنا بھی چندہ جمع کرلیں ان کے پاس مالکان جتنی رقم نہیں جمع ہوسکتی۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی فیصلہ مزدروں کے حق میں ہوبھی جائے تو اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ملک میں ایسی کوئی اتھارٹی نہیں ہے جو مزدور کے حق میں فیصلے پر عمل درآمد کراسکے۔ عام طور پر مزدور عدالتی چکروں میں کنگال اورنڈھال ہوکر بالآخر مقدمہ بازی سے تائب ہوکر پسپائی اختیار کرلیتے ہیں۔
بیشترمزدور قیادت کے پاس مزدوروں کی زندگیوں میں خاطر خواہ تبدیلی لانے کاخواب تک بھی نہیں ہے۔ وہ مذہبی راہنماؤں کی طرح تسلیم ورضا کی تلقین کرتے اور سرمایہ داروں کے بہت طاقتور اور ناقابل شکست ہونے کی گردان کرکے مزدوروں کے حوصلے پست کرتے رہتے ہیں۔ انکے پاس مالکان کی مشاورت سے تیار شدہ بے ضرر قسم کے چارٹرآف ڈیمانڈ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ نظریاتی انحراف کے بعد مزدور قیادتوں کا زیادہ تر حصہ خود اس بات پر قائل ہوچکا ہے کہ مزدور کی سماجی اور معاشی زندگی میں بہتری کسی طور نہیں آسکتی لہٰذا ان کے مطالبات میں بھی زیر زبر پیش کے اضافوں سے بڑھ کر کوئی مطالبہ نہیں ہوتا۔ مزدور اشرافیہ کی اپنی مراعات یافتہ زندگی اسکے قدموں کی بیٹری بن کر اسکواس جدوجہد کی طرف جانے سے روک دیتی ہے جس سے عام مزدوروں کی مشکلات سے بھری زندگی میں کچھ خاطر خواہ تبدیلی آسکتی ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرمایہ داروں سے زیادہ مزدور قیادتیں مزدوروں کی تکالیف اور مشکلات کی ذمہ دار ہیں۔ مزدور قیادتوں نے اپنی اپنی فیڈریشن اور یونینز میں بادشاہتیں قائم کی ہوئی ہیں جہاں تازہ ہوا کا جھونکا تک نہیں گزرسکتا۔ ان تنظیموں میں نہ تو جمہوری روایات ہیں اور نہ ہی قیادتوں کو بدلنے کا کوئی طریقہ کار۔ سیاسی جماعتوں کی طرح کاغذی کاروائی میں الیکشن ہوتے ہیں، یوں ایک ایک عہدے دار پچیس تیس سال تک بلکہ اپنے مرحوم ہونے تک عہدے سے چمٹا رہتا ہے۔ اس صورتحال میں متبادل قیادتوں کا پیدا ہونے کا عمل رک جاتا ہے اور تنظیموں میں تعفن بھری گھٹن پیدا ہوجاتی ہے۔ تنظیموں کے عہدے داروں کی حیثیت تنظیموں کے مالکان جیسی ہوتی ہے جہاں کسی کا اختلاف یا مختلف رائے کو کسی طور برداشت نہیں کیا جاتا۔ تنظیموں میں عہدوں پر25فی صد کوٹہ کا اصول اس مقصد کے لئے تھا کہ ادارے سے باہر سے لئے گئے عہدے دار برطرفی، تنخواہ کی بندش یا دیگر تادیبی اور انتقامی کاروائیوں کا شکار ہوئے بغیر مزدور تحریک کی قیادت کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں مگر اس ہنگامی نوعیت کے بندوبست کو مستقل شکل دے دی گئی ہے اور بڑے بڑے اداروں میں باہر سے لئے گئے عہدے دار اپنے عہدے کی مدت کی گولڈن جوبلی تک منا لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ غیر حاضر اور بیرونی عہدے داروں کی افادیت اپنی جگہ مگر وہ حالات کار اور روزمرہ مشکلات سے بے بہرہ ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ تکلیف محسوس کرسکتے ہیں جس سے مزدور گزر رہا ہوتا ہے۔
بہت سے اداروں میں خاص طور پر میونسپلٹیز کے مزدوروں کے لئے نہ تو پبلک سیکٹر کے مزدوروں جیسے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ ہی نجی شعبے کا۔ اس صورتحال کا کبھی بھی تدارک نہیں کیا جاسکا کیوں کہ ملک میں مزدور تحریک اور مزدور قیادت بالخصوص فیڈریشنز کی ترجیحات بالکل مختلف ہیں اور بندہ مزدورکے حالات زندگی اور حالات کار یکسر مختلف۔
اگرچہ اس غیر معمولی پستی اور زوال پذیری کے حالات میں کئی جگہوں پر مزدور انتہائی دلیر سے اپنے حقوق کی جدوجہد کررہے ہیں مگر انکی تحریکوں اور جدوجہد کو فیڈریشنز اور ملک گیر مزدور تحریک کی وہ عملی حمائت حاصل نہیں ہے جو انکی تقویت کا باعث بن سکے۔ فیڈریشنز کی دلچسپی چندے اور اپنی مراعات تک محدود ہوچکی ہے۔ اپنی تشہیر کے لئے مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی سے بڑے بڑے جلسے کرائے جاتے ہیں جہاں اجرکیں، ہار اور ایوارڈ وصول کئے جاتے ہیں اور مائیک پر کھڑے ہوکر بڑھک بازی کی جاتی ہے مگر اس سرگرمی سے مزدور تحریک کوئی فائدہ نہیں ہوتا اورنہ ہی مزدوروں کی زندگیوں میں آسانی کے لئے کسی جدوجہد کو اختیار کرنے کا لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔
ایسے حالات میں جہاں سامراجی مداخلت، مزدور دشمن ریاست اور سرمایہ داری کی مطیع حکومتیں ہوں، عمومی تحریک زوال پذیری کا شکار ہو اور مزدور قیادتوں کی اکثریت ذہنی شکست کا شکار ہوکر غیر نظریاتی نقطہ نگاہ کی مطیع ہوچکی ہوں وہا ں پر ٹریڈ یونین ازم کے لئے ازسر نو نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ داری ماضی کے برعکس زیادہ رجعتی، شکست خوردہ اور زوال پذیر ہوچکی ہے، اس کی اپنی بقاء داؤ پر لگی ہے، ان حالات میں محض ٹریڈ یونین کی دوانی چونی کی لڑائی کی بنیاد پر ٹریڈ یونین ازم کو اسکے پاؤں پر کھڑا نہیں رکھا جاسکتا۔ اب مزدوروں کے سامنے کھلے انداز میں نظام کی تبدیلی کے پروگرام کو رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ مزدور وں کی صفوں سے نئے اور تازہ دم پرولتاریہ کے دستے اپنے طبقے کی قیادت کے لئے تیار کئے جاسکیں۔ چارٹر آف ڈیمانڈکے ہومیو پیتھک ماڈل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی ڈیمانڈ ز کے ساتھ سیاسی ڈیمانڈزدینے کی ضرورت ہے۔ ہر فیکٹری اور ادارے میں آئی ایم ایف، عالمی مالیاتی اداروں، سامراجی عزائم اور منڈی کی معیشت کے حملوں سے مزدوروں کو نہ صرف آگاہ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ موجودہ طبقاتی نظام کے خاتمے کی جدوجہد کو ٹریڈ یونین کے ابتدائی مقاصد کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ مزدوروں پر واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اب مزید انتظار اور صبر کا مطلب انکے وجود کو سرے سے مٹادینے کے مترادف ہوگا۔ قیادتوں کی مصالحتوں میں پچھلی کئی دھائیوں سے مزدورغربت اور افلاس کی کھائیوں میں گرتا ہی چلا گیاہے اب مزدور کواسکی تقدیر بدلنے کے لئے لائحہ عمل بھی بدلنا ہوگا۔ مزدوروں پر نظریات کے فرق کو واضح کرنا اور مزدوروں کے فلسفے کی وضاحت ضروری ہے تاکہ اسکو سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے اصلاح پسندی کی نفسیات سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ انقلابیوں کا فریضہ ہے کہ وہ طالب علموں اور نوجوانوں کے ذریعے مزدوروں کی نئی پرتوں میں سماجی تبدیلی کے پروگرام کو جنگی بنیادوں پرپہنچائیں تاکہ آنے والے وقت میں جب سماج دھماکہ خیز تحریکوں کی زد میں آئے تو مزدوروں کے پاس انقلابی نظریات کی وہ روشنی ہو جو انکو سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک پہنچا سکے۔