یورپی یونین کا مستقبل؟

[تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: انعم پتافی]
یورپی پارلیمنٹ کے حالیہ انتخابات نے پورے براعظم کے سیاسی منظرنامے کو شدید صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ فرانس، یونان اور بر طانیہ جیسے ممالک میں اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹیوں نے بڑی فتوحات حاصل کی ہیں جس کی وجہ سے بڑی سیاسی پارٹیوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھی ہیں۔ یہ موقف مکمل طور غلط ثابت ہو چکا ہے کہ یہ الیکشن دائیں بازو اور یہاں تک کہ فاشزم کی طرف جھکاؤ کا اظہار کررہے ہیں۔
سپین، یونان اور پرتگال میں بائیں بازو کی طرف تیز جھکاؤ دیکھنے کو ملا ہے۔ اگر ہم سیاسی زلزوں کی بات کر سکتے تو پھر سپین میں ’’پوڈیموز‘‘ (ہاں! ہم کرسکتے ہیں) کا ابھار یقیناًکچھ ایسا ہی تھا۔ درحقیقت ان انتخابات میں ایک اہم عمومی مظہر بائیں اور دائیں بازو میں واضح تقسیم اوردرمیانی پوزیشن رکھنے والوں کی شدید گراوٹ کی صورت میں تھا۔ صرف جرمنی اور اٹلی میں ہی انجیلامرکل کی سی ڈی یو اور ماتیو رینزی کی ڈیموکریٹک پارٹی کوئی قابل ذکر نتائج حاصل کر سکی ہیں۔ صرف یہی دو ممالک ہیں جہاں (مختلف وجوہات کی بنا پر) ووٹرز نے مکمل طور پر سیاسی مرکز اور یورپی یونین سے منہ نہیں پھیرا۔
اٹلی میں سنٹرلیفٹ پی ڈی کے لیڈر ماتیو رینزی نے اسٹیبلشمنٹ مخالف پانچ ستارہ تحریک کے بیپی گریلو کو شکست دی۔ جرمنی میں انجیلا مرکل 2009ء کے یورپی الیکشنز سے کچھ زیادہ بہتر نہیں کر سکی لیکن سوشل ڈیموکریٹوں پر اپنی سبقت واضح کرتے ہوئے خود کو یورپ کی ناقابل شکست برتر سیاسی لیڈر کے طور پر ثابت کر دیا ہے۔ لیکن اٹلی اور جرمنی کی مختلف کیفیت ان ممالک کی مخصوص(اور مختلف) صورتحال کی عکاس ہے۔ باقی یورپی یونین میں موجود سنٹر لیفٹ اور سنٹر رائٹ کی سبھی پارٹیاں میڈیا کے مبہم انداز میں بیان کردہ ’’پاپولسٹ چیلنج ‘‘ سے دہل کر رہ گئی ہیں۔ اس مظہر کے کیا معنی ہیں اور کیسے اس کی وضاحت کی جا سکتی ہے؟
معروضی صورتحال میں اس کی بنیاد تلاش کرنا مشکل نہیں ہے۔ 2008ء کی مالیاتی گراوٹ نے صورتحال میں اچانک تبدیلی پیدا کر دی تھی۔ پرانا معاشی توازن تباہ ہو گیاتھا۔ ہم نے اس وقت واضح کیا تھا کہ حکمرانوں کا معاشی توازن بحال کرنے کا ہر قدم سماجی و سیاسی توازن کو برباد کر دے گا۔ یہ الیکشن اسی بات کا واضح ثبوت ہیں۔ 1945ء کے بعد سے جو عوامل یورپی سیاست کا سیاسی توازن بنے ہوئے تھے وہ اب خراب ہو چکے ہیں اور انہیں دوبارہ بحال کرنا آسان نہیں ہوگا۔
وسیع بیروزگاری، سماجی اخراجات میں شدید کٹوتیاں اور گرتے ہوئے معیارِ زندگی پر مبنی معاشی بحران کے پانچ سالوں نے لوگوں کے سیاست کی طرف رویے پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ کٹوتی کی پالیسیوں کی ذمہ دار حکومتوں اور پارٹیوں کی حمایت میں شدید کمی آئی ہے۔ کچھ معاملات میں تو یونان میں پاسوک اپنی اتنی حمایت کھو چکی ہے کہ اس کا وجود خطرے پڑ گیا ہے جیسا کہ دو دہائیاں پہلے اٹلی کی سوشلسٹ پارٹی کے ساتھ ہوا تھا۔
سطح کے نیچے پنپنے والی اندرونی بے چینی اپنا اظہار سیاسی عدم استحکام کی شکل میں کر رہی ہے جیسا کہ سمندر کے اوپر کی لہریں اس کے اندر موجود طاقتور لیکن نظرنہ آنے والے طوفان کا اظہار ہوتی ہیں۔ عوامی رائے میں شدید تبدیلیاں کو ئی حادثاتی امر نہیں ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ عوام موجودہ بحران سے نکلنے کی خاطربیتابی سے کوئی راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ حالیہ الیکشن اسی بنیادی رحجان کا ہی سطح کے اوپر کسی حد تک مبہم، غیر واضح اور نامکمل اظہار ہیں۔

فرانس
فرانس میں فاشزم کے ممکنہ ابھار کا شور اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گیا جب امیگریشن مخالف نیشنل فرنٹ کی میرین لی پین نے سوشلسٹ پارٹی کو شکست دی اور ایک تہائی ووٹ حاصل کیے۔ پارٹی کا بانی جین میرین لی پین اگر فاشسٹ نہیں تو بھی اس کے قریب قریب ضرور تھا۔ اس نے نازیوں کے گیس چیمبرز کو ’’معمولی سا ‘‘ کہا اور کئی بار فرانس میں نسلی منافرت کے خلاف بنے قوانین کی زد میں آ تا رہا ہے۔ ابھی پچھلے مہینے ہی اس نے تجویز دی کہ ’’Monseigneur Ebola‘‘ یورپ کے امیگریشن کے معاملے کو ’’تین ماہ میں ‘‘ حل کر سکتا ہے۔ لیکن اس کی بیٹی کو یہ احساس ہو ا کہ فاشزم کی طرف یہ رحجان اس کے پارلیمانی مستقبل میں مددگار نہیں بن سکتا۔ اسے فرنٹ نیشنل (FN) کو ’’قابل عزت‘‘ بنانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔ اپنی پارٹی کو فاشزم کے داغ سے پاک کرنے کی عجلت میں خاتون کو خود اپنے باپ پر پابندی لگانے پر بھی کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی۔ یورپی یونین، اسٹبلشمنٹ اور امیگریشن کی مخالفت پالیسی پر نربھر کرتے ہوئے خاتون نے وہ حاصل کرلیا جو وہ چاہتی تھی۔
فرنٹ نیشنل ملکی انتخابات میں کبھی پہلے نمبر پر نہیں آیا اور اگر اس کے ووٹوں کی تصدیق ہو چکی ہے تو اس کے 74 میں سے لگ بھگ 25 یورپی ممبران پارلیمنٹ برسلز میں فرانس کی نمائندگی کریں گے۔ نتائج جاننے کے بعد لی پین نے ملک کی قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ خاتون نے پارٹی کے مرکزی دفتر میں صحافیوں بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’اس حد تک ناکام ہونے کے بعد صدر اور کرکیا سکتا ہے؟فرانس کے عوام کی اس حد تک عدم نمائندگی پر مبنی یہ اسمبلی ناقابلِ قبول ہے‘‘
اس نتیجے نے سنٹر لیفٹ اور سنٹر رائٹ دونوں کی پارٹیوں کو ایک ہی شدت سے سخت صدمے میں مبتلا کر دیا ہے۔ فرانس کے صدر کے ایک حمایتی نے کہا کہ یہ نتائج ’’ بحران کا آغاز ‘‘ تھے اور ’’آج رات بحران کا آغاز ہو رہا ہے‘‘۔ صدر کے ایک سینئر حمایتی نے انگریزی اخبارات کو بتایا ’’یورپ اور باقی دنیا کو بہت خوفناک جھٹکا لگے گا اگر فرانس میں انتہائی دایاں بازو پہلے نمبر پر آتا ہے‘‘۔ فرانس کے وزیراعظم مینوئیل والس نے اسے ایک ’’سیاسی زلزلے‘‘ سے تشبیہ دی ہے۔
درحقیقت نتائج کی پیشین گوئی آسانی سے کی جا سکتی تھی۔ ہم یہ دھیان میں رکھیں کہ سوشل ڈیموکریسی کا کردار ان لوگوں کو دھوکہ دینا ہے جو اسے منتخب کرتے ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹ بینکاروں اور سرمایہ داروں کے گھٹیا امور کو آگے رکھتے ہیں اور اس سے عوام اور خاص کر مڈل کلاس کو خود سے مایوس اور بیگانہ کرتے ہوئے دائیں بازو کے ردعمل کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں فرانس نے خود کو اس کائناتی قانون کے تصدیق کی لیبارٹری ثابت کیا ہے۔
دو سال قبل فرانس میں اولاندے اور سوشلسٹ پارٹی نے صدارتی، پارلیمانی اور لوکل الیکشنز میں واضح کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ بائیں بازو کی طرف ایک واضح جھکاؤ اور تبدیلی کی خواہش کا عندیہ تھا۔ اس وقت اولاندے نے بائیں بازو کا بہروپ اپناتے ہوئے، صدر سرکوزی کی متعارف کردہ کٹوتیوں اور امیروں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ کی پالیسی کے خاتمے کی وکالت کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ ایک ملین یورو سے زائد کمائی کرنے والے افراد کی آمدن پر انکم ٹیکس کو 75 فیصد بڑھایا جائے گا، ان افراد کے لیے جنہوں نے 42 سال کام کیا ہے ریٹائرمنٹ کی عمر کومکمل پنشن سمیت واپس 60 پر لایا جائے گا، سماجی تعلیم کے شعبے میں صدر سرکوزی کی ختم کی گئی 60 ہزار نوکریاں دوبارہ تخلیق کی جائیں گی وغیرہ وغیرہ۔
لیکن اولاندے زیادہ لمبے عرصے تک اپنے وعدے پر قائم نہیں رہ سکا۔ بڑے کاروباریوں کے دباؤ میں آ کر اس نے اپنی پالیسی کے متضاد پر عمل کرنا شروع کر دیا اورکٹوتیوں کی پالیسی اپنا لی۔ یہ جذبات ابھرنے لگ گئے کہ سوشلسٹوں نے عوام کو دھوکہ دیا ہے اور عمومی طور پر سیاسی طبقہ رابطے اور دسترس سے باہر ہو گیا ہے (اس کا اطلاق جتنا کروڑ پتیوں والے طرز زندگی اور مہنگی بیویاں رکھنے والے سرکوزی پر ہوتا ہے اتنا ہی گھٹیا پیٹی بورژوا معاشقوں سمیت اولاندے پر بھی ہوتا ہے)۔ عوام کہتے ہیں کہ ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں نے کس کو ووٹ دیاہے جب ان میں سے کوئی بھی سیاست دان میری نمائندگی نہیں کرتا‘‘۔ یہ درست منطقی نتیجہ صرف فرانس تک محدود نہیں ہے۔ یہ مظہر یورپ کے ہر ملک میں دیکھا گیا ہے اور خاص کر ان انتخابات میں اس کا کھل کے اظہار بھی ہوا ہے۔
مشترکہ حاکموں کے طور پر فرانس کے جرمنی کیساتھ ’’خاص تعلقات‘‘ کی وجہ سے یہ بیہودہ کھیل جلد ہی منظرِ عام پر آگیا اور اصل صورتحال کھل گئی کہ فرانس کے جرمنی کے ساتھ تعلقات سب سے برے ہیں۔ اصل طاقت مرکل کے ہاتھ میں ہے۔ وہی سب فیصلے کرتی ہے۔ اولاندے کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نفرت اسی لیے اپنی حدوں سے تجاوز کرتے ہوئے برسلز کے بے چہرہ بیوروکریٹوں کے خلاف ہوتے ہوئے دور تک نکل گئی۔ اسی وجہ سے لی پین کے یورپین یونین مخالف پروپیگنڈے کے شور کو پہلے سے مایوس ووٹرز میں شنوائی میسر آ گئی۔ اس وقت اولاندے کی مقبولیت اتنی گر چکی ہے کہ وہ 1958ء کے بعد سے اب تک کا سب زیادہ نا پسندیدہ صدر بن چکا ہے، اور یہ سب بے معنی نہیں ہے۔ لیکن کیا یہ نا گزیر تھا کہ اولاندے سے مایوسی لی پین کے ابھار کا موجب بنے گی؟ نہیں، یہ نا گزیر نہیں تھا۔ دو سال پہلے بائیں بازوکا لیفٹ فرنٹ، جوکہ کمیونسٹ پارٹی (PCF)، باغی سوشلسٹوں اور بائیں بازو کے گروپوں کا الحاق ہے، نے میلن شاں کی قیادت میں شاندار نتائج حاصل کئے تھے۔ میلن شاں نے سارے فرانس میں بڑی عوامی ریلیوں کی کال دی اور اپنے انقلابی پروگرام کے لیے حوصلہ افزا حمایت حاصل کی تھی۔ وہ انقلاب کی بات کرتا اور لوگوں سے داد وصول کرتا تھا۔ رائے عامہ میں اس کی مقبولیت میں 17 فیصد اضافہ ہو گیا تھا۔ اگر میلن شاں اور کیمونسٹ پارٹی حکومت کے خلاف ایک واضح بائیں بازو کی اپوزیشن برقرار رکھتے تو وہ بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
اپنے تئیں میلن شاں نے گرینز کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا، ایک ایسی پارٹی جو کہ پہلے ہی حکومت کے ساتھ الحاق کی وجہ سے اپنی بنیادیں کھو چکی تھی۔ دونوں آپس میں مل کر لیفٹ فرنٹ کو شدید نقصان پہنچانے میں ’کامیاب‘ ہو گئے۔ قدرت خلا کو رد کرتی ہے۔ نتیجہ نیشنل فرنٹ کے ابھار کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کے بارے میں کچھ بھی حیران کن نہیں ہے۔
جہاں تک اولاندے کا تعلق ہے، اس نے شاید یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اب دائیں بازو کے ساتھ چپکے رہنے سے اسے مزید کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ یہ قدرتی طور پر اس کے اور سوشلسٹ پارٹی کے لیے خود کشی کے مترادف ہے۔ لیکن پرانے سمورائی (جنگجو) کی طرح، سوشل ڈیموکریسی نے ہر جگہ یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بجائے سرمایہ داری نظام کوبرباد کرکے، ترک کرتے ہوئے اسے اس کے مقدر تک پہنچانے کے وہ اپنی قربانی دیتے ہوئے خود اپنی تلوار پر گر جائیں۔ اس سب سے صرف لی پین اور نیشنل فرنٹ کو ہی فائدہ پہنچنا ہے۔

سپین
یورپ میں سپین سب سے گہرے بحران کے تجربے سے گزرا ہے۔ دائیں بازو کی پی پی کی راجوئے حکومت نے وحشیانہ حد تک کٹوتیوں کی پالیسی پر عمل کیا ہے جس سے سپین کے آدھے سے زیادہ نوجوان بیروزگار ہو گئے ہیں۔ تین سال پہلے یہ سب عوامی احتجاجی تحریکوں اورپچاس سے زائد شہروں کے چوراہوں پر قبضے کا باعث بنا۔ یہ تحریک کچھ حاصل کیے بغیر ہی دم توڑ گئی۔ لیکن عوامی غصے کو اب اپنا سیاسی اظہار کرنے کا موقع میسر آ گیا ہے۔ راجوئے حکومت سے اب نفرت کی جارہی ہے۔ پی پی کا ووٹ اب گر چکا ہے۔
لیکن سوشلسٹ پارٹی (PSOE) نے پی پی کاووٹ گرنے سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس کے بر عکس پارٹی کا ووٹ 1977-78ء میں آمریت کے خاتمے کے بعد سے اب تک کی بدترین گراوٹ کا شکار ہے۔ لوگوں کو یاد ہے کس طرح جب سوشلسٹ اقتدار میں تھے تو انہوں نے کٹوتیوں کی پالیسی کا آغاز کیا تھا۔ اس طرح وہ بھی سپین کے لوگوں کو مصیبتوں کا شکار کرنے میں برابر کے حصے دار ہیں۔
2009 ء میں پی پی اور PSOE نے 81 فیصدووٹ حاصل کئے تھے، اب وہ گر کر49 فیصد پر آگئے ہیں۔ دائیں بازو کی جماعت پی پی کے ووٹ 42 فیصدسے گر کر 26 فیصدتک آ گئے ہیں لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ PSOE جو کہ کٹوتیوں کی پالیسی میں برابر کی شریک ہے، اس کے ووٹ بھی 38.8 فیصد سے تیزی سے گر کر اب 23 فیصد تک آ گئے ہیں۔ 2009ء میں ان پارٹیوں کے 12.8 ملین ووٹ تھے، لیکن اب محض 7.7 ملین ووٹ رہ گئے ہیں، 5ملین سے زائد ووٹ کم ہوئے ہیں۔ فرانکو کی آمریت کے خاتمے کے بعد (اگر ہم پی پی کو Suarez کی UCD کے پیش رو کے طور پر دیکھیں) توسپین میں بورژوا جمہوریت جن دو پارٹیوں پر منحصر چلی آئی ہے، ان کی تاریخی طور پریہ بد ترین گراوٹ ہے۔
ان انتخابات میں سپین میں بائیں بازو کی طرف شدید جھکاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔ یو نائٹڈ لیفٹ (IU) جس میں کیمونسٹ پارٹی بھی شامل ہے، کے ووٹوں میں ایک واضح اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، 2009ء میں3.7 فیصدووٹ حاصل کرنے والے یونائیٹڈ لیفٹ نے اس بار 10 فیصد، یعنی 1.58 ملین ووٹ حاصل کئے ہیں۔ یہ 2011ء کے عام انتخابات میں حاصل کئے جانے والے 6.9 فیصد سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔
ان ا نتخابات کا سب سے دلچسپ پہلو پوڈیموز کا اچانک اور ناقابلِ امید ابھار ہے، ایک نئی سیاسی قوت جس نے حیران کن طور پر 8 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں اور جس نے اہم علاقوں مثلاً استوریا اور میڈرڈ کے شہری حصوں میں IU سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ اس جماعت نے سماج میں متحرک پرتوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے جو کہ ساری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے تھے۔
تین ماہ پہلے پوڈیموز کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ الیکشن سے پہلے لی گئی تمام رائے شماری یہی بتا رہی تھی کہ نئے گروپس کو ایک سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔ اس کے باوجود محض تین ماہ پہلے بنائی گئی ایک پارٹی جس کا بجٹ مشکل سے ایک لاکھ یورو تھا، چوتھے نمبر پر آگئی اور ایک تہائی ملین ووٹ حاصل کر تے ہوئے یورپی پارلیمنٹ میں 5 نشستیں جیت لیں۔ میڈرڈ سمیت کچھ علاقوں میں پوڈیموز حکمران وزیر اعظم راجوئے کی پاپولر پارٹی اور اپوزیشن میں موجود سوشلسٹوں کے بعد تیسرے نمبر کی بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
اخبارات حیران ہو کر پوچھ رہے ہیں کہ ’’یہ کیسے ہوگیا؟‘‘ کم فہم سیاست دان اور تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں’’ ہمیں پتا نہیں چلا۔ ‘‘ یہ لوگ شاید جانتے نہیں کہ یہ ابھار سپین کی سڑکوں پر سرمایہ داری کی تباہیوں، کٹوتیوں اور بینکاروں کی تین سالہ حکمرانی کے خلاف عوام کا احتجاج ہے۔ اگر سیاسی ماہرین اس تحریک کو نہیں دیکھ سکے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں اپنا سر ایسی نا قابل بیان جگہ میں پھنسایا ہوا تھا جہاں سورج نہیں چمکتا۔
تقریباََ بغیر کسی پیسے کے ایک چھوٹی سی پارٹی نے دکھا دیا ہے کہ کس طرح شدید سرمایہ داری مخالف پالیسیاں اور نیچے کی سطح پر ایک متحرک تنظیمی ڈھانچے کے ادغام سے انتہائی طاقت ور، امیر اور بیوروکریٹک پارٹی مشینوں کو آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے۔ پوڈیموز نے پورے ملک میں تین سو’’ حلقوںیا دائروں ‘‘ کا جال بنایاہواہے۔ پوڈیموزکی پالیسیاں مبہم ہیں، اسٹبلشمنٹ اور گلوبلائزیشن مخالف ہیں لیکن اس کے پراپیگنڈے میں واضح طور سرمایہ داری مخالفت موجود ہے۔
حالانکہ پوڈیموز خود کو دائیں یا بائیں بازو کے حوالے سے واضح نہیں کررہے، مزدوروں کی بجائے شہری کہہ کر مخاطب کرنا پسند کرتے ہیں، لیکن ان کے لہجے میں یہ واضح ہے کہ ’’نیچے والوں کی طرف سے اوپر والوں کے خلاف بغاوت‘‘۔ جہاں پر دائیں بازو کے ’’پاپولسٹ‘‘ اپنے محدود قومی نقطہ نظر سے یورپی یونین کی مخالفت کرتے ہیں وہاں پرپوڈیموز والے طبقاتی بنیادوں پریورپی یونین پر حاوی حکمرانوں کی پالیسیوں کی مخالفت کرتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ داروں کے خلاف یورپی عوام میں موجود غصے کو آواز فراہم کرتے ہوئے پوڈیموز کے نوجوان اور دلیر لیڈر اپنی ذاتی ویب سائٹ پر لکھ رہے ہیں کہ یورپی اسٹیبلشمنٹ کا بنیادی مقصد ’’بینکاروں، بڑی کمپنیوں اور جواریوں کے منافعوں کا تحفظ کرنا ہے‘‘۔ یہ بالکل درست بات ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’یورپ جنوب کے ممالک کے لیے آکسیجن فراہم کرنے کا آلہ نہیں بن سکتا اور سپین کرپٹ، دغا باز وں اور جواریوں کا ملک نہیں بن سکتا‘‘۔
پوڈیموز کے دھماکے نے روایتی پارٹیوں پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس نے سوشلسٹ سیکرٹری جنرل Alfredo Perez Rubalcalba کے زوال کو بھی تیز کر دیا ہے۔ لیکن ایک ابھرتے ہوئے بائیں بازو کے رحجان کے ساتھ ساتھ پوڈیموز سپین اور سپین سے باہربھی سیاسی تبدیلی کے لیے ایک وسیع عمل انگیز بن سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بائیں بازو کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پریونائیٹڈ لیفٹ (IU) کو ختم کر سکتا ہے یا نہیں۔ تاہم یہ بائیں بازو کو اس کے مخصوص اصلاح پسندی کے کمزورخول سے نکالنے کے لیے ہلا ضرور سکتا ہے۔

یونان
بورژوا میڈیا گولڈن ڈان سے خوفزدہ ہیں۔ یہ ایک فاشسٹ پارٹی ہے جو یقیناََ زیادہ جدید ہے، یہ انہی سیاسی اور سماجی عوامل کے تنوع کا اظہار کر رہی ہے جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ ان انتخابات میں اس نے Pasok سے آگے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ Pasok نے نیو ڈیموکریسی کی رجعتی حکومت کے ساتھ چھوٹے اتحادی کے طور پر کام کرنے کی قیمت ادا کی ہے۔
لیکن حکمران طبقہ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک ایسی کیفیت میں فاشزم کی طرف جانا بہت خطرناک ہو سکتا ہے جہاں محنت کش طبقہ تحریک میں ہے۔ اسی وجہ سے انہیں پاگل کتوں کو روکنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھانے پڑے۔ لیکن حکمران طبقے کی نیت فاشسٹ پارٹی کو غیر قانونی قرار دینے کی نہیں ہے جس کی انہیں مستقبل میں ضرورت پڑنی ہے۔
گھر کے مالک کو اپنی جائیداد کی حفاظت کے لیے ایک خونخوار کتے کی ضرورت ہے، لیکن اسے زنجیروں میں جکڑ کر رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ کہیں مالک کے ہاتھ کو ہی نہ کاٹ لے۔ انتخابات میں زیادہ معزز نظر آنے کی خاطر گولڈن ڈان نے اپنے پنجے اتار کر صندوق میں رکھ دیے ہیں۔ یورپین پارلیمنٹ میں اس نے اپنی پہلی سیٹ جیتی ہے۔ جو بھی ہو اس فتح کا کرداراضافی نوعیت کا ہے۔
یونان میں اصل فاتح گولڈن ڈان نہیں بلکہ بائیں بازو کی سائریزا (Syriza) ہے، جس نے حکومت میں موجود نیو ڈیموکریسی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، ا نتخابات میں ملکی سطح کی پہلی فتح حاصل کی ہے۔ سائریزا کے لیڈر سپراس نے کہا ہے کہ یہ ایک ’’تاریخی فتح ‘‘ہے۔ یہ ایک مناسب بیان ہے۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے سائریزا ایک بالکل نئی پارٹی ہے۔ اس کی بنیاد کیمونسٹ پارٹی (KKE) کے علیحدہ ہونے والے دھڑے Synaspismos کے ممبران پر مشتمل ہے۔ اس میں کئی سابقہ کیمونسٹ اورسوشل ڈیموکریٹ بھی شامل ہیں اور Pasok کو چھوڑنے والے کے کئی نمایاں لوگ بھی شامل ہیں۔
سائریزا کا دھماکہ خیز ابھار کٹوتیوں کے پروگرام پر برہمی اور یونان کو تباہ کرنے والی سیاسی اشرافیہ کے خلاف غصے کا اظہار ہے۔ اس نے نیو ڈیموکریسی کے 23.2 فیصد کے مقابلے میں 26.4 فیصد کی جیت حاصل کی ہے۔ دارالحکومت کے قریب موجود Attica کے علاقے کے گورنر کے الیکشن میں سائریزا نے ایک اور اہم فتح حاصل کی ہے، جو ملک کی تقریباََ ایک تہائی آبادی کا گھر ہے۔
لیکن ابھی بھی سائریزا کی جیت فوری طور پر سماراس کی حکومت کو گرانے کا با عث نہیں بنے گی۔ کیونکہ دو اتحادیوں نے مل کر سائریزا سے زیادہ ووٹ حاصل کر لیے ہیں، سماراس کی بڑی شدت سے اقتدار سے چپکے رہنے کی خواہش کی وجہ سے اس کی کیفیت اس آدمی کی سی ہو گئی ہے جس نے ڈوبنے سے بچنے کے لیے ایک بہتے ہوئے لکٹری کے ٹکڑے کا سہارالیا ہوتا ہے۔ لیکن طوفانی ہوائیں اسے سمندر کے اس حصے میں غرقاب کر دیں گی جہاں سے اس کا کوئی نام و نشان بھی نہیں مل سکے گا۔ اس کی حکومت کے دن اب گنے جا چکے ہیں۔ جلد یا بدیر ہی سماراس کو نئے انتخابات کرانے پڑجائیں گے اور ہر چیز سائریزا کی فتح کا عندیہ دے رہی ہے۔
سپراس نے کہا ہے کہ اس کی یورپی انتخابات میں جیت کا مطلب ہے کہ اب موجودہ حکومت کے پاس قرضہ دینے والی عالمی قوتوں سے عوامی قرضوں کے نئے سرے سے اجرا یا پھر مزید کٹوتیوں کے لئے مذاکرات کرنے کا کوئی حق نہیں رہا۔ اس نے یونان کے بربریت پر مبنی بیل آؤٹ کے معاہدے کو منسوخ کرنے کا وعدہ کیا ہے، یہ ایک ایسا وعدہ ہے جس سے لاکھوں یونانیوں کی امیدیں جڑ چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے کہا ہے کہ یونان یورپی یونین اور یورو زون کا حصہ رہے گا، یعنی یونان تب بھی برسلز اور برلن کے رحم و کرم پرہی ہو گا۔ اس تضاد کو کس طرح ختم کیا جائے گا؟ اسی بات پر ہی اب سائریزا اور یونان کے مستقبل کا انحصار ہے۔

اٹلی
انتخابات کے نتائج کا سب سے اہم نقطہ یہ تھا کہ اس میں ووٹرز کی عدم شمولیت ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ تھی۔ یہ سب کچھ بڑھتے ہوئے غصے، سیاسی نظام اور کٹوتیوں کی پالیسیوں کے رد ہونے کی عکاسی کر رہا ہے۔ 2009ء میں 66.43 فیصدکے مقابلے میں اس بار صرف 57.22 فیصدووٹر ز نے ووٹ ڈالنے کی زحمت اٹھائی ہے۔ ان 57 فیصد میں سے بھی تین فیصد ووٹ خالی یا خراب ہیں۔ 2013ء کے پارلیمانی انتخابات میں 75.19 فیصدلوگوں نے ووٹ کاسٹ کئے تھے۔ رینزی کو ملنے والے ووٹ کو استقامت کاووٹ کہا جا رہا ہے اور اسے بڑی بورژوازی کی طرف سے تالیوں کے ساتھ سراہا جا رہا ہے۔ حکمران طبقہ اب یہ محسوس کر رہا ہے کہ وہ نہایت سفاکی سے کٹوتیوں کے ایجنڈے پر عمل درآمد کر سکتا ہے۔ اس سے رینزی کے متعلق ذرائع ابلاغ میں مبالغہ آرائی کی حدتک بڑھے ہوئے جوش و خروش کا اندازہ ہوتاہے۔
بورژوا میڈیا بہت شور مچا رہا ہے کہ رینزی کو جتنے ووٹ ملے ہیں وہ کسی بھی سابقہ پی ڈی کے لیڈر نے حاصل نہیں کئے تھے۔ وہ رینزی کی پشت پناہی اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ وہ کھلے عام ایک بورژوا سیاست دان ہے، جبکہ پی ڈی کے سابقہ تمام لیڈر پرانی کمیونسٹ پارٹی (PCI) سے آئے تھے۔ لیکن بورژوا مبصرین کے ان دعوؤں کے باوجود کہ رینزی کو حکومت پر اعتماد کا ووٹ ملا ہے، اسے صرف 25 فیصدووٹروں کی ہی حمایت حاصل ہے۔
یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ رینزی کو کسی بھی سابقہ پی ڈی لیڈر سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ 2008 ء میں پی ڈی نے Veltroni کی سربراہی میں 34 فیصدووٹ حاصل کئے تھے جو کہ در حقیقت رینزی کو ملنے والے ووٹوں سے دس لاکھ زیادہ تھے۔ بورژوا مبصرین یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ رینزی نے 1976ء میں Berlinguer کی سربراہی میں PCI کے 34 فیصدسے زیادہ بہتر کار کردگی دکھائی ہے۔ ایک بار پھر یہ غلط موازنہ ہے۔ 1976ء میں PCI نے 12.6 ملین ووٹوں سے فتح حاصل کی تھی جو رینزی کے آج کے ووٹوں سے 1.3 ملین زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ بہتر ہوگا کہ ہم ان 22 ملین لوگوں کو بھی نظر میں رکھیں جنہوں نے ووٹ سے اپنی رائے کا اظہار ہی نہیں کیا۔
گرِلو کی پانچ ستاروں کی تحریک کا کیا بنا جو ماضی قریب میں تمام سرخیوں کا حصہ بنی رہی؟اس کے پانچ ستارے خیالی آسمان پر ہی پھٹ گئے اور کچھ لمحوں کے لیے آسمان میں روشنی بھی ہوئی۔ پیٹی بورژوا کردار کی حامل عوامی تحریکوں کا اکثر یہی مقدرہوتا ہے۔ یہ اپنی بنیاد میں ہی غیر مستحکم ہوتی ہیں اور اتنی ہی تیزی سے غائب ہوتی ہیں جس تیزی سے یہ ابھرا کرتی ہیں۔
گرِلو کی تحریک نے ابھی بھی 21.1 فیصد (5.8ملین) ووٹ حاصل کئے ہیں، جو ایک اہم تعداد ہے، لیکن اس نے2013ء کے مقابلے میں تین ملین ووٹ ہارے ہیں۔ اس کی وجہ حکومت کو کسی بھی اقدام سے روک سکنے کی نا اہلی اور اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ جب بھی یہ کسی لوکل انتظامیہ کے امور میں شامل ہوئے تو انہوں نے شدیدمایوس کیا ہے۔ اس تحریک کا بحران اورآنے والے وقت میں اس کے دائیں اور بائیں جانب شدید ہچکولے ہی اس کا تناظر ہیں۔
بحر حال، ان انتخابات میں اصل شکست دائیں بازو کی بورژوا پارٹیوں خاص کر برلسکونی کی Forza Italia کی ہوئی ہے۔ برلسکونی خود ووٹ کرنے کے قابل بھی نہیں تھا کیونکہ وہ فراڈ کے الزام میں مقدمے کا شکار تھا۔ اس کی پارٹی اب گہرے بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ انہوں نے 16.8 فیصد (4.6 ملین ووٹ) لیے ہیں، لیکن انہوں نے 2009ء کے مقابلے میں 6 ملین ووٹ ہارے ہیں۔ برلسکونی کے گرد موجود روایتی حلقہ مہلک بحران کا شکار ہے۔ ان میں ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے اور مستقبل میں ان کی واپسی کاامکان بھی بہت مشکل نظر آتاہے۔
ناردرن لیگ یورپین یونین مخالف ایجنڈے کی وجہ سے کچھ جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ برلسکونی سے علیحدگی کی وجہ سے Nuovo Centro-Destra صرف 4.4 فیصد ہی حاصل کر پائی ہے۔ اور آخر میں ہمیں مونٹی کا ذکر بھی لازماََ کرنا چاہیے، جو ایک بورژوا معیشت دان ہے اور جو 2011ء سے 2013ء تک اٹلی کا ایک ’’ٹیکنوکریٹک ‘‘ وزیر اعظم بھی رہ چکا ہے، جب کہ اسے کسی نے بھی منتخب نہیں کیا تھا۔ اس کی پارٹی "Scelta Europea” پچھلے سال کے مقابلے میں 2.5 ملین ووٹ ہار کر تباہ ہو گئی ہے۔ اس نے ٹوٹل ووٹ کا محض 0.72 فیصدحاصل کیا ہے۔
ان الیکشنز کے نتائج سے حوصلہ لے کر بورژوازی رینزی حکومت پر دباؤ ڈالے گی کہ وہ زیادہ تیزی اور زیادہ عزم کے ساتھ کٹوتیوں کے ایجنڈے پر عمل در آمد کرے۔ رینزی اب نئی لیبر پالیسی اور دیگر غیر مقبول اقدامات پر عمل در آمد کرنے میں خود کو زیادہ طاقت ور محسوس کرے گا۔ ٹریڈ یونین لیڈر اب دفاعی کیفیت میں ہیں اور وہ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اب کوئی سمجھوتاکرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ چاہے جتنا زیادہ بھی جھکیں اورپیچھے ہٹیں، ان کے سبھی سمجھوتے اطالوی بورژوازی کے لیے ناکافی ہی ہوں گے، جو اپنے مضبوط یورپی دشمنوں کے مقابلے میں خود کو شدید ہیجان کی حالت میں پا رہی ہے۔
ساری صورتحال طبقاتی جدوجہد کے دھماکے کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ آنے والے مہینوں میں ہم محنت کش طبقے کی انتہائی متحرک لڑائیوں کی امید کر سکتے ہیں، جسے TU کے بیوروکریٹ منقطع اورالگ تھلگ رکھنے کی کوشش کریں گے، جیسا کہ نومبر 2013ء میں جنیوا کے بس ڈرائیوروں کی نجکاری کے خلاف ہونے والی 5 دن کی ہڑتال کے ساتھ کیا گیاتھا۔ اطالوی محنت کش طبقے کی روایات کو مد نظر رکھیں تو اس قسم کی لڑائیاں بڑی سطح کے حکومت مخالف احتجاجوں کا موجب بن سکتی ہیں۔
جلد یا بدیر یونینز باہر آنے پر مجبور ہو ں گی، پہلے کم نوعیت کی اپوزیشن میں اور پھر بعد میں رینزی کی مکمل مخالفت میں۔ اس سے ایک بحران شروع ہوسکتا ہے اور PD میں طبقاتی بنیادوں پر ٹوٹ پھوٹ ہو سکتی ہے۔ تب اطالوی بائیں بازو کے سنجیدہ ابھار کے لیے راستہ کھل جائے گا۔

برطانیہ
یوپین پارلیمنٹ میں UKIP کی فتح کو اخبارات برطانیہ کا ’’سیاسی زلزلہ‘‘ کہہ رہے ہیں۔ پارٹی لیڈر خوفزدہ ہو جاتے ہیں جب انہیں UKIP کے عوامی چہرے فراج سے ملنے والی دھمکی کے خیال کے متعلق جواب دینا پڑ جاتا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے برسلز میں ہونے والی میٹنگ میں یورپی یونین کے باقی لیڈروں سے بات کرتے ہوئے اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے اور انہیں مشورہ دیا ہے کہ’’ وہ بیلٹ باکس میں اظہارکئے گئے خیالات پرتوجہ دیں۔ ‘‘ جہاں UKIP 27.5 فیصدووٹ حاصل کر کے پہلے نمبر پر آگئی ہے۔ Nick Clegg جو ایک یورپین حامی لبرل ڈیموکریٹ لیڈر اور کیمرون کا اتحادی ہے، یورپی پارلیمنٹ میں اسکی تمام نشستوں کی ہار، اس کے لیے ایک دہلا دینے والی شکست ہے۔
UKIP کا لیڈر جس نے یورپی پارلیمنٹ میں اپنی 24 یعنی دگنی نشستیں جیت لی ہیں، جو بظاہرلوگوں کا ایسا آدمی نظر آتا ہے جو اپنے علاقائی شراب خانے میں تو اعلیٰ معیار کی بے تحاشا ’انگریزی ‘ شراب پیتا ہے اور غیر ملکی بیوروکریٹس سے نفرت کرتا ہے لیکن باہر آ کر ہمیں کہتا ہے عوامی جگہوں پر سگریٹ نوشی منع ہے۔ حقیقت میں یہ ’’لوگوں کا آدمی‘‘ ایک امیرسابق سرمایہ کار اور بینکار ہے اور یہ چھوٹے لوگوں کے مفادات کانہیں بلکہ بینکاروں اور سٹی آف لندن کا نمائندہ ہے۔ اور یہی ان وجوہات میں سے ایک ہے جس کی بنیاد پر اسے میڈیا میں بہت زیادہ وقت دیا جا رہا تھا۔ اس سے برطانوی حکمران طبقے کے ایک حصے کایورپی یونین کی طرف بدلتے ہوئے رویے کا اظہار ہوتا ہے۔
عروج اور سٹے بازی کے سر پھرے دور میں جب بنکار پیسہ بنانے کے مدہوش جشن میں مصروف تھے، اس دور میں ان کے برطانیہ اور یورپ سے نسبتاََ اچھے تعلقات تھے۔ سٹی آف لندن نے تب خوشی میں سرمایہ کاربنکاروں پر عائد تمام پابندیوں کو آگ لگا دی۔ جو کہ براہ راست 2008ء کی تباہی کا موجب بنا، لیکن اس وقت ایسا کرنا ایک قابل ستائش اورمثالی عمل تھا۔ تب برطانوی بورژوازی نے رد اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا، یونینز کے خاتمے، مزدوروں کے حقوق پر حملوں کو تمام یورپی بنکار اور سرمایہ دار بڑی لالچ کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ تھیچر کو قابل تقلید نمونے کے طورپر دیکھا جا رہا تھا۔
لیکن اب جشن ختم ہو چکا ہے اور اس کے حاضرین (زیادہ شراب پینے کے بعد ہونے والے) خوفناک سر درد کا شکار ہیں۔ اس عیاشی کا بِل معیار زندگی میں کمی اور کٹوتیوں کی صورت میں پیش کیا جا چکا ہے۔ لیکن اس بِل کے اثرات بنکاروں کے علاوہ بھی کچھ لوگوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک’ نا پسندیدہ‘ کردار آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ جو بنک آف انگلینڈ کی سابقہ سربراہ بھی رہ چکی ہے، نے بنکاروں کے بڑے بونسز پر تنقید کی ہے۔ وہ سماج میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے اثرات پر پریشان ہونے میں درست ہیں۔ اب اس مقام پر برطانیہ میں عدم مساوات زیادہ واضح ہے۔ لندن میں یورپ کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ لکھپتی موجود ہے۔
UKIP کے ابھار کی حقیقی وجہ لیبر پارٹی کے دائیں بازو کے لیڈروں کی عوام میں موجودغصے اور بے چینی کے اظہار کو سمجھنے میں مایوس کن ناکامی ہے، وہی عوام جو سالوں سے کٹوتیوں، حملوں اور گرتے ہوئے معیار زندگی شکار ہیں۔ ایڈ ملی بینڈ ایک ایسی مایوس کن کمزوری اور تذبذب کی تصویرکا اظہار کر رہا ہے جو خاص طور پر کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ نہیں کر رہی۔ ایڈ ملی بینڈ کی لیبر پارٹی میں ان تمام خاصیتوں کی کمی ہے جن کا کسی بھی اپوزیشن کو عام انتخابات سے ایک سال قبل مزہ لینا چاہیے۔ نتیجہ کے طور پر لیبر کے تمام غیر مطمئن ووٹروں نے ان انتخابات میں صوبوں میں(جبکہ لندن میں نہیں) UKIP کو ووٹ دیا ہے۔
برطانیہ کے ذرائع ابلاغ بڑے طریقے سے UKIP کو تعمیر کر رہے تھے اورپچھلے عرصے میں فراج کے عکس کو ابھار رہے تھے۔ حکمران طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ کنزرویٹو اور لبرل ڈیموکریٹس کا حکومتی اتحاد اگلے الیکشنز میں شکست سے دوچار ہوگا۔ لیبر پارٹی نے لوکل الیکشنز میں کسی حد تک بہتر کار کردگی دکھا ئی ہے اور یورپین الیکشن میں بھی تھوڑی آگے بڑھی ہے۔ ایڈ ملی بینڈ کی کمزوریوں اور اس کی حکمران طبقے کو یہ دکھانے کی تمام کوششوں کے باوجود کی وہ ’’حکمرانی کر سکتا ہے‘‘، حکمران طبقہ لیبر پارٹی یا اس کی قیادت پر اعتماد نہیں کرتا۔ بحران اور بڑھتی ہو ئی سماجی بے چینی کی کیفیت میں وہ لیبر پارٹی کے یونینز سے مسلسل روابط کو ایک مہلک خطرہ سمجھتے ہیں، یہ ایسا معاملہ ہے جس پر وہ مسلسل شکایت کرتے چلے آ رہے ہیں۔
اسی وجہ وہ UKIP کو لیبرپارٹی کی حمایت ختم کرنے والے کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور کنزرویٹو پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں کہ مزید دائیں جانب آئیں۔ لیکن یہ ایک خطرناک طریقہ کار ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے جوکچھ یورپی الیکشنز میں ہوا وہی کچھ عام انتخابات میں بھی ہوگا۔ بڑے پیمانے پر ووٹرز کی عدم شمولیت (مشکل سے 34 فیصدلوگوں نے ووٹ ڈالے ہیں) اس بات کا اظہار ہے کہ لوگ ان الیکشنز کو غیر ضروری سمجھتے ہیں، جو ایک درست اندازہ ہے۔ کیونکہ ان الیکشنز کی ان کی زندگیوں اور مستقبل حوالے سے کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یا تو وہ اپنا حقِ رائے دہی استعمال ہی نہیں کرتے یا پھر وہ UKIP جیسی پارٹیوں کے خلاف احتجاج کا ووٹ ڈالتے ہیں۔
UKIP کے آگے آنے سے ایک اثر یہ بھی ہوا ہے کہ برٹش نیشنل پارٹی جو واضح طور پر فاشسٹ پارٹی ہے، کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ Nick Griffin جو BNP کا سربراہ اور واحد پارلیمانی ممبر تھا، وہ بھی یورپی الیکشنز خود اپنی ہی اکلوتی میں نشست بھی ہار گیا ہے۔ BNP ایک حقیقی فاشسٹ پارٹی تھی اور وہ لوگ جنہوں نے UKIP کو ووٹ دیا ہے انہوں نے بھی غلطی کی ہے۔

جرمنی
جرمنی میں لوگوں کی ایک پرت کی اوپر کے دھارے میں موجود پارٹیوں، جو کہ جنگ کے بعد سے اب تک کے عرصے تک حکمرانی کرتی چکی آرہی تھیں، ان سے وابستہ نا امیدی کا اظہارکیا جو یورو مخالف  (AfD) پارٹی کے ابھار کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہ یورپین یونین کی حامی قیادت اور اس کے بحران کو سنبھالنے کے ڈھنگ کے خلاف احتجاج کا اظہار ہے۔ باقی ممالک کی طرح جرمنی میں بھی ’’مثالی یورپ ‘‘ کے حوالے سے مایوسی بڑھ رہی ہے۔ یورپین الیکشن میں جرمنوں کی شرکت 1979ء میں 65 فیصد سے گر کر 2009ء میں 43 فیصد پر آگئی ہے۔
لالچی جرمن حکمران طبقے نے یورپین یونین اور یورو سے بہت بھاری منافع کمائے ہیں، لیکن اب واجبات ادا کرنے میں جھجھک کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اینجیلا مرکل کی شخصیت کی صورت میں جو یورپ کی حقیقی حکمران ہے، وہ باقی یورپ کو سخت زندگی اور ایک سخت نظم و نسق کی خوبیوں کا درس دیتے رہتے ہیں۔ یورپ جو کہ اب جرمنی کی سربراہی کی وجہ سے اورزیادہ مخاصمت کا شکار ہوتا جا رہا ہے اورکٹوتیوں کی فولادی حکمرانی کی وجہ سے مزیدبے چینی میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ یہ الیکشنز ایک ایسی خراب لائن کو آشکار کر رہے ہیں جس پر چل کرمستقبل میں یورو اور خود یورپین یونین بھی ٹوٹ سکتا ہے۔
باقی ممالک کی طرح، یہاں بھی دائیں بازو کے لوگ یوروبحران کو اپنی حمایت میں اضافے کے لیے استعمال کر کے جرمن قوم پرستی کو دوبارہ ابھارنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ 51سالہ معیشت کا پروفیسر بریند لیوک کہتاہے اسے ایک قومی ریاستوں والا یورپ چاہیے ایک وفاقی یورپ نہیں۔ ایک سیاسی مخالف نے حال ہی میں لیوک کو ایک ’’بہروپیا فاشسٹ دکاندار‘‘ کہہ کر اس کی مذمت کی ہے۔
اس مخصوص طرز کے جرمن دائیں بازو کے رد عمل کی کچھ خصوصیات ہیں۔ جہاں باقی تما م دائیں بازو کی پارٹیاں ایک یا دوسرے طریقے سے امیگریشن کی مخالفت کرتی ہیں وہاں پر AfD یورپین یونین کی امیگریشن کی آزادی کے حق میں ہے (لیکن ’’ویلفیئر کے غلط استعمال ‘‘ کو روکنے کی پابندی سمیت)۔ اس بظاہر حیران کن جدت کی وجوہات بھی صاف ہیں۔ جرمنی کی معاشی طاقت ایک نحیف حد تک ان لاکھوں غیر ملکی مہاجر مزدوروں کے استحصال پر انحصار کرتی تھی۔ جرمنی کے لیے ان مہاجروں کو روکنا اس مرغی کو ذبح کرنے کے مترادف ہے جو سونے کے انڈے دیتی ہے۔
اس کے باوجود AfD کی بڑھتی ہوئی پریشانی یورو ہے۔ لیوک مسلسل یونان اور دیگر یوروزون کے گھائل ممبران کو دیئے گئے کئی ملین یورو کے گارنٹی بیل آوٹ پر چیختا رہتا ہے جن کی قیمت جرمنی نے چکانی ہے۔ یورو کے خلاف ایک ’’مہذبانہ‘‘ کمپئین AfD کو ایک ایسے ملک میں بڑا ووٹ حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے جہاں نازی پارٹیاں سر عام ہٹلر کی حکمرانی کے خوف کی یاد دلاتی رہتی ہیں۔
جہاں پر چھوٹی نیو نازی پارٹی معاشی طور نچلے حصے میں اپنی بنیاد بنا رہی ہے وہا ں پر AfD بیگانے درمیانے طبقے کے پروفیشنلز، کاروباری اور اساتذہ تک اپنی آواز پہنچا رہی ہے۔ گزشتہ سال پارلیمانی الیکشنز میں جب AfD نے پہلی با ر ان میں حصہ لیا تھا تو یہ اس وقت محض5فیصدووٹ کی حد کو پار کر کے جرمن پارلیمنٹ میں بھی نہیں پہنچ سکی تھی۔ AfD نے زیادہ تر ووٹ لبرل FDP سے حاصل کئے جو خالصتاََ ایک مڈل کلاس پارٹی ہے۔
AfD فاشسٹ پارٹی نہیں ہے لیکن یہ مستقبل میں فاشزم کی سربراہی کا آلہ کار بن سکتی ہے۔ اس میں فاشسٹ عناصر شامل ہیں خاص کر اس کے یوتھ ونگ میں، جیسا کہ Junge Alternativ۔ Lucke کا جدیدیت کا ماسک پچھلے سال پارلیمانی کمپئین کے دوران اتر گیا تھا جب اس نے غریب غیر ملکی مہاجرین کو’’ گندگی کی باقیات ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
لیکن اس باراس نے کمپئین میں ماسک کو مضبوطی سے پہنا ہوا تھا۔ مثال کے طور پر Lucke نے فرانسیسی نیشنل فرنٹ اور برطانیہ کی UKIP سے کسی بھی قسم کے ممکنہ رابطوں سے انکار کر دیا، جو اس کے کہنے کے مطابق بہت زیادہ شدت پسند ہیں۔ اس نے برطانوی کنزرویٹو کے قریب ہونے کی کوشش کی، لیکن بعد میں مرکل کے خوفناک غصے کو جگانے کے بعداس نے اپنی بات سے انکار کر دیا۔
جرمن سیاست نے اس سے پہلے بھی ایسے مظاہر دیکھے ہیں۔ 1989 میں امیگریشن مخالف Republikaner پارٹی نے یورپی الیکشنز میں 7فیصدجیت حاصل کی تھی، دائیں بازو کاجدید جرمنی میںیہ عروج کا نتیجہ تھا، لیکن بعد میں وہ زوال کا شکار ہو گئی۔

کچھ مزید مثالیں
پرتگال میں دائیں بازو کے اتحاد (PSD-CSD-PP) کو ان الیکشنز میں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جو 2009ء کے 40 فیصد (1.4 ملین ووٹ) سے گرتے ہوئے اب 27.7 فیصد (900,000 ووٹ) پر آگیا ہے۔ سوشل ڈیموکریٹ PS اب مجموعی طور پر فاتح گئی ہے، جو 26 فیصد سے 31 فیصد تک آگے آئی ہے۔ لیکن حقیقی معنوں میں اس کا نتیجہ عام سا تھا، جس میں اس کے ووٹوں میں صرف 90,000 کا اضافہ ہو اہے۔
PS کی بائیں جانب ہونے سے حقیقی فائدہ کمیونسٹ پارٹی کو ہوا ہے، جوبائیں بازو کی طرف سے مسلسل کٹوتیوں کی مخالف اور یورپ مخالف ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس کے بر عکس Left Bloc اپنی پچاس فیصد حمایت ہا ر چکا ہے۔ اگر ہم ان ووٹوں میں ملک بھر میں بائیں بازو پڑے والے کُل ووٹ شامل کریں تو بائیں بازو کو 47 فیصد ووٹ ملا ہے۔ اسی وجہ سے یہ نتیجہ بائیں بازو کی واضح فتح ہے اور یورپی یونین اور جرمنی کی نافذ کردہ کٹوتیوں کی پالیسیوں کو ایک شدید جھٹکا بھی ہے۔
ہالینڈ میں انتہائی دائیں بازو کی پارٹی، پارٹی فار فریڈم کے لیڈرGeert Wilders کو نتائج سے مایوسی ہوئی ہوگی کیونکہ یورپ کی حمایتی کرنے والی پارٹیاں سب کو پیچھے چھوڑ گئی ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ حیران کن نتائج بیلجئیم کے ہیں۔ جہاں نہ صرف یورپی پارلیمنٹ بلکہ زیادہ اہم وفاقی (ملکی) اور علاقائی پارلیمنٹ کے لیے بھی ووٹ ڈالے گئے۔ جہاں سب سے اہم مظہر بیلجئیم کی ورکرز پارٹی (PVDA/PTB) کی فتح کی صورت میں سامنے آیا، جو ایک سابقہ ماؤسٹ پارٹی ہے اور خود کو سر عام مارکسسٹ کہتی تھی، لیکن اب اس کی پالیسیاں اصلاح پسند بائیں بازو کے کردار کی حامل ہیں۔
آئر لینڈ کے نتائج کی خاصیت LP and Fine Gael کے حکومتی اتحاد کی کچل دینے والی شکست ہے۔ وہاں کی لیبر پارٹی کو الیکشنز کے ذریعے بورژوا Fine Gael کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے کی خصوصی سزا ملی ہے جس نے برسلز کی جانب سے عائد کردہ کٹوتیوں کی پالیسی پر عمل در آمد کیا ( جس کی وجہ سے Eamon Gilmore کو استعفا دینا پڑ گیا)۔ Fine Gael کو بھی شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف Sinn Fein نے انتخابی فتح حاصل کی ہے۔
ڈنمارک میں انتہائی دائیں بازو کی ڈینش پیپلز پارٹی نے 27 فیصدووٹ حاصل کر کے اپنے پارلیمانی ممبران کی تعداد کو دگنا کر لیا ہے۔ ایک بار پھر یہ حکمران سوشل ڈیموکریٹوں کے خلاف احتجاج کا ووٹ ہے جنہوں نے کٹوتیوں کے پروگرام کو جاری رکھا۔ اس کے ساتھ بڑی بورژوا پارٹیوں کو بھی سنگین شکستیں ہوئی ہیں اور وہ گہرے بحران کا شکار ہیں۔
فن لینڈ میں امیگریشن مخا لف Finns پارٹی نے اپنے ووٹوں کی تعداد کو بڑھاتے ہوئے اپنے پارلیمانی ممبران کی تعداد کو ایک سے دو کر لیا ہے لیکن پچھلے قومی سطح الیکشن کے مقابلے میں اس کے ووٹوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لیفٹ الائنس 9.3 فیصدووٹ لے کر ایک ممبر سمیت پارلیمنٹ واپس لوٹ آیا ہے۔
سویڈن کے حالات بھی اپنے ہمسایہ ممالک سے زیادہ مختلف نہیں ہیں لیکن انتہائی دائیں بازو کی سویڈن ڈیموکریٹس پارٹی نے 9.7 فیصدلے کر دو نشستیں جیتی ہیں۔ جبکہ یہ اضافہ دائیں بازو کی حکومتی پارٹیوں کی گراوٹ کی وجہ سے ہوا ہے، جہاں روایتی بورژوا پارٹی Moderates 13.4 فیصدووٹ لے کر گرینزاور سوشل ڈیموکریٹس کے بعد تیسرے نمبر پر آئی ہے۔ ایک حالیہ رائے شماری کے سروے کے مطابق حکومتی اتحادکو قومی الیکشنز میں اب صرف 36 فیصدکی حمایت ہی حاصل ہے۔
آسٹریا میں انتہائی دائیں بازو کی فریڈم پارٹی کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، جس نے امیگریشن مخالف ایجنڈے کی وجہ ووٹوں کا پانچواں حصہ اپنے نام کیا ہے۔ اس نے اپنے پارلیمانی ممبران کی تعداد دو سے بڑھا کر چار کی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ نیشنل فرنٹ کیساتھ اتحادی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ FPO نے اپوزیشن میں رہنے اور چالاکی سے آسٹریا کی مشکلات کا الزام یورپین یونین اور غیر ملکی مہاجروں پر ڈالنے کی وجہ سے کامیابی حاصل کی ہے۔ 2008ء کے بعد سے ماسوائے سال 2009ء کے ہر سال مزدور کی فی کس آمدن میں کمی ہوتی رہی ہے اورآسٹرین ادارہِ معاشی تحقیق کے مطابق اب یہ اُس سے بھی کم ہے جو 1999ء میں یورو کو متعارف کروانے کے وقت پر تھی۔ اس کے علاوہ آسٹریا میں مقابلہ بازوں کے مقابلے میں مقابلہ بازی کے نہ ہونے بارے میں پریشانیاں بڑھ رہی ہیں۔

مشرقی یورپ
مشرقی یورپ کے نتائج سے کوئی واضح تصویر اخذ کرنا مشکل ہے۔ معلومات کی فراہمی بہت خراب ہے۔ لیکن کچھ رحجانات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ باقی یورپ میں بھی ٹرن آوٹ بہت ہی کم رہا لیکن مشرقی یورپ کے موازنے میں، پہلی اور سب سے حیران کن چیز تمام مشرقی یورپ کے ممالک میں بہت بڑی تعداد میں ووٹرز کی عدم شمولیت کا رحجان تھا۔
یورپی یونین کے ممبر 28 ممالک کا( اس شامل ہونے والا آخری ملک کروشیاتھا) اوسط ٹرن آوٹ 43.1 فیصد رہا (جبکہ 2009ء میں بھی یہ لگ بھگ اتنا ہی 43 فیصدتھا)۔ لیکن مشرقی یورپ میں مجموعی طور پر ٹرن آوٹ 28 فیصدرہا یعنی ووٹ کرنے کے قابل ہر تین میں ایک ووٹر نے بھی ووٹ ڈالنا گوارہ نہیں کیا۔ اس سے لوگوں کی یورپین یونین کی طرف عدم توجہ اورعدم دلچسپی آشکار ہوجاتی ہے جو کہ اس سے مایوسی کا اظہار بھی ہے۔
سلوواکیہ وہ ملک ہے جہاں ٹر ن آوٹ سب سے کم یعنی 13 فیصدتھا۔ لیکن پولینڈمیں بھی جس نے بظاہر یورپی یونین میں شامل ہونے سے کافی’’ فائدے ‘‘ اٹھائے، وہاں بھی ٹرن آوٹ صرف 23فیصدتھا۔ سیاسی سائنسدان مارٹن کلس نے کم ٹرن آوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے TASR کو بتایا کہ ’’ اسے صرف ایک تباہی ہی کہا جا سکتا ہے‘‘۔
یہ یقینی ہے کہ سرمایہ داری کے عمومی بحران کی وجہ سے مشرقی یورپ میں سخت مزاج جنم لے رہا ہے، جس کے ساتھ ساتھ دھماکہ خیز سماجی تضادات بھی آشکار ہو رہے ہیں جن کا واضح اظہار بلغاریہ کے طوفانی واقعات کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داری سے منسلک ابہام پچھلے عرصے میں ایک کے بعد دوسرے ملک کو فیصلہ کن انداز میں نقصان پہنچاتا چلا آرہا ہے لیکن، باقی یورپ کی طرح یہاں بھی اس مزاج نے کوئی سیاسی اظہار کا ذریعہ حاصل نہیں کیا تھا۔
اتنے کم ٹرن آوٹ کی وجہ سے اس کے نتیجے کو کوئی زیادہ اہمیت دینا ممکن نہیں ہے۔ بہر حال ان نتائج کا ایک عام ماخذ حکومتی پارٹیوں کی شکست یا پھر ابھرتی ہوئی پارٹیوں کی کمزوری کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ہر جگہ یہی کیفیت موجود ہے چاہے وہ سنٹر لیفٹ ہو یا دائیں بازو کی حکومتیں۔ اگر ہم اس وجہ کو عمومی عدم دلچسپی اور کم ٹرن آوٹ سے ملائیں، تو یہ ان تمام ممالک میں، جہاں سٹالنزم کے خاتمے کے بعد کرپٹ اور لالچی حکمران اشرافیہ اقتدار میں آئی تھی، اس پر بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کا اظہار ہے۔

نتیجہ
2014ء کے یورپی الیکشنز ایک تاریخی موڑ کا اظہار کر رہے ہیں۔ بحران کی کیفیت میں سطح کے نیچے موجود ساری قومی مخاصمت اور تضادات اوپر ی سطح پر آگئے ہیں۔ یورپ کی جڑت جو یورو بحران کی وجہ سے پہلے ہی مشکل میں تھی اب رکاوٹوں کو کچل کر رکھ دے گی۔ شمال اور جنوب کے درمیان گہرے ہوتے فاصلے جرمنی اور فرانس کے مابین موجود پریشانیوں میں اضافے کا موجب بنیں گے۔ ایک نیا بحران جو ایک خاص مرحلے پر ناگزیر ہے، اس سے یورپ میں بڑھتے ہوئے دفاعی رحجانات کے نتیجے میں یورپی یونین ٹوٹ بھی سکتا ہے۔
یورپین بورژوازی کے لیے سارے مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ محنت کش طبقہ اب مستقل کٹوتیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 2014ء کے یورپین الیکشنزاس گرم روشنی کی مانند ہیں جو طوفان سے پہلے نمودار ہوتی ہے۔ ہر جگہ پر ایک گہرے عدم اطمینان کے اثرات نمایاں ہیں۔ سطح کے نیچے ابلتا ہواعدم اعتماد، وحشت اور شدید غصہ اپنا رستہ تلاش کر رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ روایتی عوامی پارٹیوں میں سے کوئی بھی اس کا اظہار نہیں کر رہی۔
عوام کی حقیقی کیفیت سے بے بہرا، کم شدت والے پارلیمانوں میں اور بیورو کریسی کے پیچیدہ محلات میں مقیم وہی لوگ ہیں جو خود کو سماج کے مالک تصور کرتے ہیں۔ ان کا صرف اپنے خدائی حقِ حکمرانی رکھنے پر اعتماد ہے، وہ ان طاقتوں سے بس تھوڑاسا ہی آگاہ ہیں جو انہیں اکھاڑ پھینکنے کے لیے تیاری ہو رہی ہیں۔
مرحلہ وار اور انتہائی تکلیف دہ سست رفتاری سے ہی سہی لیکن عوام نے سمجھنا شروع کردیا ہے۔ وہ ایک ایسی آواز، ایک بینر اور ایک پروگرام کے متلاشی ہیں جس پر وہ یقین کر سکیں۔ لیکن وہ اس بات پریقین کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ ایسا کوئی بھی نہیں ہے جس پر وہ اعتماد کریں۔ افراد، پارٹیاں اور ادارے جو پہلے قابل عزت ہو ا کرتے تھے اب قابل نفرت بن چکے ہیں۔ سیاست، بنکار، جج، پولیس، چرچ، میڈیا، ان میں سے کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں رہا جو غلاظت، کرپشن اور اخلاقی گراوٹ سے آزاد ہو۔ ایک ایسے معاشرے میں اور ہو بھی کیا سکتا ہے جو خود اپنی بنیاد میں گل سڑ چکاہو اور کرپشن اس کی نحیف ہڈیوں میں چلتی پھرتی رہتی ہو؟
وہ پارٹی جس نے ان الیکشنز میں بھاری اکثریت سے فتح حاصل کی ہو’’ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے‘‘۔ سیاسی ’’ماہرین‘‘ اور تمام بڑی پارٹیوں کے سربراہان الیکشنز میں کم شرکت پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں۔ لیکن کیا اس میں کوئی حیرانگی ہے کہ عوام الیکشنز میں ووٹ نہیں ڈالتے؟یا پھروہ اسٹیبلشمنٹ مخالف مداریوں کو ووٹ دے کر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں؟نہیں، یہ حیران کن نہیں ہے۔ بڑے پیمانے کی عدم شمولیت کا مطلب عدم دلچسپی نہیں بلکہ یہ گہری بیگانگی، وحشت اور غصے کا اظہار ہے۔ حیران کن بات صرف یہی ہے کہ انہوں نے ابھی تک حکومتی مراکز، بنکوں اور دیگرمختلف طاقت، دولت، لالچ، عیاشیوں کے مرکزوں کی جانب مارچ کرتے ہوئے انہیں نیست و نابود کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔
موجودہ عہد عبوری نوعیت کے وقت کاعہد ہے، جب محنت کش طبقہ نہایت سست رفتاری لیکن پورے یقین سے اپنے تجربات کو ہضم کر رہا ہے اور ایک بیلنس شیٹ بھی مرتب کررہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا دیوالیہ پن خود کو رفتہ رفتہ اور انتہائی تکلیف دہ تجربے کے بعد لاکھوں پرخود کو آشکار کر رہا ہے۔ لیکن اصلاح پرستی نے بھی اب رفتہ رفتہ خود کو آشکار کرنا شروع کر دیا ہے۔ پرانے یقین اور طے شدہ سوچیں اب جا چکی ہیں۔ وہ مزدور رہنما، ماضی میں جن کی مکمل اتھارٹی ہوا کرتی تھی، اب یہ اتھارٹی امتحان میں پڑ چکی ہے۔ الفاظ کو اعمال کی نیتوں میں پرکھا جا رہا ہے۔ قیادتوں کا اندازہ اب تجربے کے توازن میں کیا جا رہا ہے اور یہ نا اہل ثابت ہو رہی ہیں۔ شکوک اب عدم اعتماد، عدم اعتماد غصے میں اور غصہ اب بغاوت میں بدل رہا ہے۔
ہم ایک بالکل نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں:طوفان اور دباؤ کا عہد، عالمی سطح انقلاب اور رد انقلاب کا عہد۔ یہ الیکشنز یورپ کے مستقبل کا چہرہ دکھا رہے ہیں لیکن ایک متذبذب اور کمزور طریقے سے۔ بائبل کہتی ہے کہ ’’ اب ہم اندھیرے میں سے آئینے کو دیکھیں گے‘‘۔ یورپ کا مستقبل اب ایک مستقل عدم استحکام اور دائیں سے بائیں کے جانب شدید ہچکولوں پر مبنی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ متذبذب اور کمزور رحجانات واضح ہوتے جائیں گے۔ یہ صرف مارکسی رحجان کی شدید کمزوری ہوگی جو انہیں اب ایک منطقی اور منظم اظہار کرنے سے روکے گی۔ اس کمزوری کو ختم کرنا، مارکسی رحجان کو مضبوط کرنا اور تحریک کو ضروری نظریات اور پروگرام فراہم کرنا ہی ہمارا فریضہ ہے، کیونکہ صرف اسی سے فتح ممکن ہے۔

متعلقہ:
یورپ کا سیاسی انتشار