بے بس آئینی شقیں

| تحریر: لال خان |

تاریخی طور پر آئین اور ’’قانون‘‘ کا استعمال سامراج اور حکمران طبقات اپنی ریاست یا نظام کے خلاف ابھرنے والے بغاوتوں کو کچلنے اور انقلابیوں کو نشان عبرت بنانے کے لئے کرتے ہیں۔ برصغیر پر برطانوی راج کے دوران کانپور سازش کیس، میرٹ سازش کیس، غدر پارٹی کے خلاف بغاوت کے مقدمات ، ’ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن‘ سے وابستہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے ٹرائل، 1946ء کی انقلابی تحریک کے بعد باغی جہازیوں پر چلائے جانے والے مقدمات، جدوجہد آزادی کے نمایاں ابواب ہیں۔ تقسیم کے بعد 1951ء میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف ’راولپنڈی سازش کیس‘ سے لے کر 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل جیسے واقعات، ریاستی جبر کے اوزار کے طور پر عدلیہ کے کردار کو واضح کرتے ہیں۔ ایسے مقدمات وقت کے ساتھ رائج الوقت معاشی و سیاسی نظام کے خلاف جدوجہد کے علامت بن جاتے ہیں۔
آج کل سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بینچ کے پاس ایک اور دلچسپ کیس زیر سماعت ہے جس میں طبقاتی جدوجہد کے نظرئیے کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ بینچ کی صدارت چیف جسٹس ناصر الملک کر رہے ہیں۔فل کورٹ 18ویں ترمیم کے تحت اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تقرری اور 21ویں ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔ اس دوران ترامیم کا دفاع کرنے والے سینئر ایڈووکیٹ خالد انور نے سپریم کورٹ بینچ کے سامنے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’1973 کا آئین اسلام اور سوشلزم کا پراضطراب امتزاج تھا جو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا… آئین کا آرٹیکل 2 اسلام کو سب سے بالادست قانون مانتا ہے جبکہ آرٹیل 3 سوویت یونین کے 1936ء کے آئین کے آرٹیکل 12 کی ہوبہو نقل ہے جس میں استحصال کے خاتمے اور ’’ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے اور اس کے کام کے مطابق دیا جائے‘‘ کا اصول بتدریج نافذ کرنے کو کہا گیا ہے۔ 1973ء کے آئین کی خالق پیپلز پارٹی مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ سوشلزم کے نظرئیے کے تحت روٹی، کپڑا ، مکان کا نعرہ لگا کر برسر اقتدار آئی تھی۔ تو کیا ہم مان لیں کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ سوشلزم ہے جس کابنیادی تصور مارکسزم اور لینن سے اخذ کیا گیا ہے… موجودہ آئین 1973ء کے آئین سے کہیں برتر ہے جس کا سہرا سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے سر بھی جاتا ہے۔‘‘
تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ریاست کا کردار اور نظریاتی مسائل پر عدالتی فیصلے اس نظام کے حق میں ہی ہوتے ہیں جس کی نمائندگی یہ ادارے کرتے ہیں۔ آج بھی عدلیہ کا جھکاؤ اور مجموعی سیاسی و سماجی کردار بالکل واضح ہے۔ HRCP کوئی ’مارکسسٹ‘ یا انقلابی ادارہ نہیں ہے لیکن اس کی تازہ رپورٹ کے مطابق ’’ملک کی عدالتوں میں 18 لاکھ مقدمات التوا کا شکار ہے۔ قانون اور اس کے نفاذ کے درمیان خلیج کی وجہ سے جرائم اور مجرموں کو سزا نہ ملنے کی شرح بڑھ رہی ہے، خاص کر اقلیتوں اور سماج کے دوسرے پسے ہوئے طبقات سے وابستہ مقدمات میں۔ عدالتی اور قانونی اصلاحات کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ مقننہ کا رجحان ایسے قوانین کے اجرا کی طرف ہے جو ریاستی گرفت کو عوام کے حقوق اور آزادیوں کی قیمت پر سخت کر رہے ہیں۔‘‘ وکیلوں کی فیس ہو یا دوسرے ’’پوشیدہ اخراجات‘‘، انصاف کی قیمت آبادی کی اکثریت کی پہنچ سے ویسے ہی کوسوں دور ہوچکی ہے۔
سپریم کورٹ میں جاری اس مباحثے کا اہم پہلو یہ ہے کہ مذہبی یا لبرل دایاں بازو اور سرمایہ داری کے معذرت خواہان آج بھی اس سوشلزم سے خوفزدہ نظر آتے ہیں جسے کارپوریٹ میڈیا پچھلے 25 سالوں سے مردہ قرار دے رہا ہے۔ شاید اندر ہی اندر وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جبر و استحصال کے خلاف محنت کش عوام کی بغاوت کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ موجود ہے۔ تاہم المیہ یہ ہے کہ آئین میں سوشلسٹ نکات متعارف کروانے کا الزام جس پیپلز پارٹی پر لگایا جارہا ہے اس پر براجمان ٹولہ سامراج، حکمران طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اور محنت کش عوام کے خلاف صف آرا ہے۔ یہ مظہر صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے۔ سوشل ڈیموکریسی اور ’’کمیونسٹ‘‘ پارٹیاں، یورپ سے لے کر چین تک نیو لبرل سرمایہ داری کے آگے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ ’’انسان صفت سرمایہ داری‘‘ اور ’’مارکیٹ سوشلزم‘‘ کے نام پر کیا جارہا ہے اور محنت کش طبقہ برباد ہو رہا ہے۔ لیکن ان روایتی پارٹیوں کے رہنما عوام کو صدا دھوکا نہیں دے سکتے۔ صنعت اور سماج سے بغاوت کے نئے ریلے سیاست میں داخل ہورہے ہیں۔ یونان میں PASOK، سپین میں PSOE، فرانس میں PSF کا انہدام اور برطانیہ میں لیبر پارٹی کی شکست واضح کرتی ہے کہ محنت کش طبقہ اور نوجوان دہائیوں پر مبنی متروک سیاسی روایات کو یکسر مسترد کر رہے ہیں۔
بینظیر بھٹو ہو یا آصف علی زرداری، 1980ء کے بعد سے پیپلز پارٹی کی ہر حکومت نے پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور سے کھلا انحراف کیا ہے۔ حکمران طبقے اور امریکی سامراج کے ساتھ پارٹی قیادت کی ’’مصالحت‘‘ آج تمام حدیں عبور کر چکی ہے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین پیش رفت نواز لیگ کی جانب سے اسمبلی میں پیش کئے جانے والے ایک بل کی حمایت ہے جس کے ذریعے گیس کی قیمتوں میں مزید 145 ارب روپے کا ٹیکس شامل کیا جارہا ہے۔یہ بل منگل کو پاس ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے نمائندگا ن نے سیشن کے پہلے مرحلے میں بل پر خوب گرما گرم بحث کی اور اسے وفاق کو کمزور کرنے کی سازش قرار دیا لیکن جب ووٹنگ کی باری آئی اپوزیشن تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کو سونپ دی گئی۔ دوپہر میں سیشن کے دوسرے حصے کے دوران پیپلز پارٹی کے نوید قمر صاحب نے فرمایا کہ بل پر پیپلز پارٹی کے ’’تحفظات‘‘ حکومت نے کچھ ترامیم کے ذریعے دور کر دئیے ہیں۔ذرائع کے مطابق آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان معاملہ اس سارے ڈرامے سے قبل ہی طے پاچکا تھا۔
پیپلز پارٹی کی عوام میں مقبولیت اگرچہ گزشتہ تین دہائیوں سے ہی مسلسل گراوٹ کا شکار تھی لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے عوام کی طرف پارٹی قیادت کا رویہ ناقابل برداشت حد تک متکبر اور تضحیک آمیز ہو گیا ہے۔ کم و بیش ہر سیاسی تجزیہ نگار کے نزدیک پارٹی حتمی زوال اور انہدام کی طرف گامزن ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کے پاس متبادل سیاسی قوت کون سی ہے؟ حالات جس قدر پیچیدہ اور بحران جتنا شدید ہے اس کے پیش نظر کئی طرح کے ممکنات موجود ہیں اور بالکل واضح پیشین گوئی ابھی ممکن نہیں ہے۔ ٹراٹسکی نے اسی طرح کی صورتحال کا تجریہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ طوفانی دور ہے؛ عوام بے چین ہیں؛ محنت کشوں کی سب سے باشعور پرت سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہو کیا رہا ہے؟ وہ پہلے سے موجود نعروں کی تکرار سے مطمئن نہیں ہوں گے۔ انہیں مکمل جواب درکار ہے۔‘‘ (27جنوری 1938ء)
محنت کش عوام کی نمائندہ متبادل سیاسی قوت کا انحصار اس بات پر ہے کہ پیپلز پارٹی کیسے اور کن بنیادوں پر ٹوٹ کر بکھرتی ہے۔ واقعات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں اور اس سارے عمل میں فیصلہ کن کردار مارکسسٹ قوتوں کی تعمیر اور معروضی حالات یا ممکنہ انقلابی تحریک میں ان کی مداخلت کی صلاحیت کرے گی۔ آئین میں سوشلسٹ شقیں ڈال دینے سے سماج کی معاشی بنیادیں تبدیل نہیں ہوا کرتیں۔طبقاتی سماج میں قانون مکڑی کا جالا ہوتا ہے جس میں صرف کمزور ہی پھنستے ہیں۔آئین میں کتنی ہی انقلابی شقیں شامل کر لی جائیں، اس کی تشریح اور عمل درآمد حکمران ہی کرتے ہیں۔ جن دستاویزات کو عوام کے سامنے آسمانی صحیفوں کی طرح مقدس بنا کر پیش کیا جاتا ہے حکمرانوں کی نزدیک ان کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی جنہیں بوقت ضرورت پھاڑ کر پھینکا جاسکتا ہے۔ محنت کش طبقے کی نجات کا تاریخی فریضہ صرف محنت کش طبقہ خود ہی ادا کرسکتا ہے۔بالشویک طریقہ کار، حکمت عملی اور تنظیمی ڈھانچوں پر مبنی انقلابی پارٹی ہی محنت کشوں اور نوجوانوں کی بغاوت کو درست راستہ فراہم کر کے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک سکتی ہے!

متعلقہ:

غدار کون؟