تجدید عہد

keep the red flag flying


کوئی سزا نہ فریاد اٹھی ہے اب کے
نہ ملا کوئی پرسا مجھ کو
ستم جو غیر نے ڈھائے سو الگ ڈھائے
اس چارہ گر نے بھی کیا لہو لہو مجھ کو
میرے پرکھوں کی کمائی تو کب کی لٹ بھی چکی
اس غنیم کے ہاتھوں کہ جو محافظ تھا
وہ محافظ!
ملا تھا جس کو فریضہ کہ کوئی بھوک نہ ہو
کسی بھی آنکھ میں اب زندگی کی یاس نہ ہو
کسی کو پیاس نہ ہو
زمیں نہ قحط اگائے حسین کھیتوں میں
کوئی شفا کو نہ ترسے نہ کوئی کوکھ جلے
ڈھکے ہوں جسم سبھی دیس کے مکینوں کے
نہ کوئی شخص پڑا ہو کھلے آسماں کے تلے
میرے پرکھوں کی کمائی تو کب کی لٹ بھی چکی!

مگر یاد رہے اس محل کے مکینوں کو
جہاں کے بام و در ہیں دھلے بے کسوں کے اشکوں سے
جہاں کی محفلوں کی دلفریب رعنائی
بلکتے پیاسوں کا بڑھ بڑھ کے منہ چڑاتی ہے
جہاں کے دیپ میں جلتا ہے غریبوں کا لہو
جہاں فانوس پہ محنت کشوں کی لاشیں ہیں
وہ مکین یاد رکھیں، ہاں قسم سے یاد رکھیں!
سلگ رہی ہے اسی راکھ میں وہ چنگاری
جو بھڑک اٹھی تو یہی بام و در جلا دے گی
کرے گی پھر سے وہی سرخ شرارے روشن
جمود عہد کی ہر بے بسی جلا دی گی
وہ وقت دور نہیں اے میرے سبھی پیارو
میرا مزدور جب خود تقدیر بن کے نکلے گا
کرے گا پھر سے وہی سرخ سویرا روشن
عہد بدلا تھا کبھی، آج پھر سے بدلے گا!

عاطف علی