خود کشیاں، گلتے سڑتے نظام کی آدم خوری

[تحریر: ماجد قیوم]
فلسفیانہ افکا ر اور مباحث سے قطع نظر، آج کے سماج کی تلخی اور روزمرہ معیار زندگی میں گراوٹ ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ سماجی زندگی کا ایک اہم ادارہ خاندان اس سفاک نظام کے سائے تلے انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے۔ عورت کسی بھی معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن موجودہ عہد کے سماج میں عورت کے کردار کو سمجھنا انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔ آج کے عہد میں عورت ایک مظلوم جنس بنادی گئی ہے اور سماج کی ہر پرت میں عورت استحصال کا شکار نظر آتی ہے۔ چند دن پہلے جنوبی پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ میں اجتماعی زیادتی کا شکار بننے والی لڑکی نے انصاف کے تمام دروازے جب اپنے لئے بند پائے تو خود سوزی کرلی۔ خود سوزی کرنے والی طالبہ آمنہ بی بی کی عمر محض 18 سال تھی۔ اس افسوس ناک واقعے کے زخم ابھی بھرنے نہ پائے تھے کہ ایک اور معصوم زندگی اس نظام اور سماج کی سفاکیت کا شکار ہو گئی۔ عفینہ کندن جسے ابھی زندگی کی محض 17 بہاریں ہی دیکھی تھیں ملتان گرلز ڈگری کالج میں B.Com کی طالبہ تھی۔ گھریلو تنازعات، خونی رشتوں کی نفرت اور بھائی کے الزام سے دلبرداشتہ ہو کر پچاس فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔ عفینہ کندن نے ایک خط بھی چھوڑا جس کے چند فقرے درج ذیل ہیں:
’’میں اپنے گھر والوں اور دنیا والوں کی نفرت سے تنگ آ گئی ہوں۔ میں چھپ کر رو رو کے تنگ آ گئی ہوں، میں گھُٹ گھُٹ کر نہیں مرنا چاہتی، میں اب کھوکھلی مسکراہٹ قائم نہیں رکھ سکتی۔‘‘ اس خط کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’دنیا تیرے مزاج کی باندی نہیں ہوں میں!‘‘
عفینہ کا خط پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی کہ اس خط کے ذریعے اس نے اس بے حس سماج کی کھوکھلی قدروں کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کیا ہے۔ لیکن یہ بے حس سماج دو دن بعد سب کچھ فراموش کر دے گا اور پھر سے ایسی ہزاروں داستانیں دروازوں اور دیواروں کے پیچھے گم شدہ کلیوں کا نوحہ لکھنا شروع کر دیں گی۔
مذکورہ بالا دونوں واقعات بلا شبہ سماجی قتل ہیں اور اس سماج کے تمام اداروں، اقدار اور اخلاقیات پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سماج میں صرف ایک عفینہ اور ایک ہی آمنہ تھیں؟ ہمارے ارد گرد ایسے کتنے ہی واقعات پتا دیتے ہیں کہ آج کے اس جدید عہد میں بھی کہ جہاں حضرت انسان مریخ پر قدم رکھنے کو تیار ہے، وہاں عورت کا مقام کس قدر پست ہے۔ یہاں کہیں کہیں اگر عورت انسان ہے بھی تو مرد سے یہ پھر بھی کم تر ہی سمجھی جاتی ہے۔ نجی ملکیت اور لالچ کے اس سماج میں مردانہ تسلط کی نفسیات کو پروان چڑھانے کے لیے حکمران طبقے کے پیدا کردہ مذہبی بنیاد پرست اور دوسرے رجعتی عناصر پیش پیش ہیں۔ ان کے اپنے مفادات ہیں اور یہ اپنے ان گھٹیا مالی و سماجی مفادات کے تابع اور غلام ہیں۔ یہی چند مٹھی بھر انسان نما بھیڑئیے اس فرسودہ نظام کی بے ہودہ اخلاقیات کے ٹھیکیدار ہیں۔ رجعتی نفسیات عورت کو زر خرید غلام بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔ اسی طرح گزشتہ تین دہائیوں سے عورت کی ظاہری اور باطنی زندگی اس سماج میں متضاد شکل اختیار کر چکی ہے اور اسکی بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی ثقافتی و سماجی گھٹن ہے جس کی وجہ سے عورت میں عدم تحفظ کا رحجان بڑھتا جا رہاہے۔
سماجی روایات سے بغاوت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ سماج کی عام روش سے ہٹ کر رائے قائم کرنا پاگل پن کے مترادف سمجھا جاتاہے۔ مردانہ تسلط کے اس سماج میں بغاوت کرنے والے مردوں کا جینا اجیرن کردیا جاتا تو ذرا سوچیں کہ علم بغاوت بلند کرنے والی عورت کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہوگا؟ ایسے حالات میں عورت یا تو اپنی زندگی کا چراغ گُل کر دے گی یا پھرفرسودہ رسموں کی بھینٹ چڑھا دی جائے گی۔ اس بے حس سماج میں عورت غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہے۔ وٹہ سٹہ، ونی، کاروکاری، زبر دستی کی شادی اور قرآن سے نکاح جیسی قبیح اور غیر انسانی قدروں پر قربان کی جارہی ہے۔ گھر سے باہر عورت جنسی ہوس کا شکار بنتی ہے تو گھر میں گھر والوں کے لیے کمزوری، بوجھ اور نام نہاد معاشرتی بدنامی کی ایک شکل بنا دی جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ نظام عورت کے تشخص ہی کو حرف غلط کی طرح مٹا دینا چاہتا ہے۔
آج کی عورت اس نیم سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ اقتصادی رشتوں کی وجہ سے اُس معاشی بدحالی کا شکار ہے جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ خونی رشتوں میں کوئی سچائی باقی نہیں رہی ہے۔ انسان گرا نہیں ہے بلکہ اسے گرا دیا گیا ہے۔ یہ تمام غیر انسانی کیفیات اس نظام زر کی پیدا کردہ ہیں۔ بحیثیت مجموعی عورت گھر، فیکٹری، یونیورسٹی، کالج، میڈیا انڈسٹری غرضیکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس سفاک نظام کی درندگی کا شکار ہونے والی سب سے بڑی جنس بنا دی گئی ہے۔ معاشرتی سطح پر ہم نے عورت کو صنفِ نازک کہہ کہہ کر خود عورت کے دماغ میں یہ زہر بھر دیا ہے کہ وہ کمزور ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ برطانوی خواتین فریاپیٹرسن اور ڈینلی ہیگز جو کہ ونگ واکرز کے شعبے سے وابستہ ہیں، نے150 میل فی گھنٹہ کی رفتار سیاڑنے والے 1930ء ماڈل کے بوئنگ جہاز کے پروں پر کھڑے ہو کر وہ کرتب دکھائے کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ کویت سٹی میں اپنی نوعیت کا منفرد مظاہرہ دکھانے کے بعد فریا اور ڈینلی کا کہنا تھا کہ خواتین صنفِ نازک کہلاتی تو ہیں لیکن اگر کچھ کر دکھانے کی ٹھا ن لیں تو کر کے ہی دکھاتی ہیں۔ ان دونوں خواتین کے پختہ جسم اور دماغ ثابت کرتے ہیں کہ عورت کسی لحاظ سے بھی کمزور اور کم تر نہیں ہے۔ ضرورت صرف سماجی سوچ کو بدلنے کی ہے اور سماج کی فرسودہ قدروں کو ایک نیا رخ دینے کے لیے لازم ہے کہ اس نظام کا خاتمہ ہو کہ جس میں انسان کی قدر و منزلت ہی نہیں ہے۔
ایک بو عزیزی کے جلنے سے پورا تیونس جل اٹھا تھا۔ سماج کی مثال بھی ایک آتش فشاں کی سی ہے جو کہ مسلسل جلتا تو رہتا ہے لیکن وقفے وقفے سے اس میں دھماکے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ یہ دھماکے ارد گرد کی ہر چیز کی شکل و صورت ہی بدل دیتے ہیں۔ آج کا سماج بھی جل رہا ہے۔ تیاری اور انتظا ر ہے تو اس دھماکے کا جس سے یہ پھٹے گا اور آج کے عہد کے انسان کے ساتھ ساتھ نسلِ انسانی کی تقدیر کو یکسر اور یک لخت پلٹ کر رکھ دے گا۔ انسان کی مثبت اور حقیقی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ایک غیر طبقاتی معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ نسل انسانی کے پاس نجات اور بقا کا واحد حل سوشلسٹ انقلاب ہی ہے جس کی جدوجہد خواتین کی شمولیت کے بغیر ادھوری ہے۔ لیون ٹراٹسکی کے الفاظ میں ’’دنیا کو بدلنا ہے تو اسے عورت کی نگاہ سے دیکھو!‘‘

متعلقہ:
سوشلزم: عورت کی نجات
وجود زن ہے آھن!