امریکی سامراج کا داخلی جبر

| تحریر: لال خان |

یہاں کی ’لبرل‘ اور ’سیکولر‘ دانش امریکہ میں جمہوریت اور آزادی کے قصیدے پڑھتی نہیں تھکتی۔ امریکی معیشت کی نقالی پر بھی پورا زور یہ لبرل خواتین و حضرات دیتے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ ’لبرل‘ ہو یا مذہبی، اقتدار کے لئے واشنگٹن کا دست شفقت اپنے سر پر رکھوانے کی دوڑ گزشتہ سات دہائیوں سے ہی چلی آرہی ہے۔ سابق بائیں بازو کی اکثریت نے بھی عرصہ ہوا اپنے قبلے ماسکو اور بیجنگ سے واشنگٹن منتقل کر لئے ہیں۔ یہاں کا حکمران طبقہ جس سامراج کی سیاسی، ثقافتی، سفارتی اور معاشی اطاعت بنیادی ذمہ داری سمجھ کر کرتا ہے وہ سرد جنگ کے بعد سے ایسا پاگل ہاتھی بن چکا ہے جو چینی کے برتنوں کی دکان میں گھس گیا ہو۔ لاطینی امریکہ سے لے کر مشرق وسطیٰ اور افغانستان تک، امریکی سامراج کی بالواسطہ یا براہ راست عسکری جارحیت یا پھر معاشی دھونس سے ایک کے بعد دوسرا ملک برباد ہو رہا ہے۔لیکن سامراجی ریاست کی جبر و وحشت صرف دوسرے ممالک تک ہی محدود نہیں ہے۔سرمایہ دارانہ معیشت کا بحران جوں جوں گہرا ہو رہا ہے، خود امریکہ کے اندر عوام پر امریکی ریاست کا جبر بڑھتا چلا جارہا ہے۔طبقاتی، جنسی اور لسانی بنیادوں پر استحصال کی شدت آج اپنی بلند ترین سطح پر ہے جس کی واضح عکاسی گزشتہ کئی ہفتوں سے امریکی شہر بالٹی مور میں رونما ہونے والے واقعات سے ہوتی ہے۔
latuff on baltimore events’’سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی قیمتی ہیں‘‘ کے عنوان سے جاری تحریک فریڈی گرے کے پولیس کے ہاتھوں وحشیانہ قتل کے بعد ایک بار پھر سے پھٹ پڑی ہے۔ اس واقعے کے بعد لاکھوں لوگ ایک بار پھر پورے امریکہ میں ریاست کے نسلی تعصب اور پولیس کی وحشت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ نہتے شہریوں، خاص کر سیاہ فاموں کا پولیس کے ہاتھوں قتل امریکی سماج کا معمول بن چکا ہے جس کے خلاف گزشتہ چند سالوں سے ابھرنے والی تحریکیں، سماج کی کوکھ میں پلنے والی بے چینی، نفرت اور غم و غصے کا اظہار ہیں۔ یہ جذبات امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں کے دل و دماغ میں اس نظام کے خلاف سلگ رہے ہیں جس کے بارے میں نسلوں سے انہیں یقین دلایا جاتا رہا ہے کہ یہ سب کے فائدے کا ضامن ہے۔ 2008ء کے بعد سے بالخصوص امریکی عوام محسوس کر رہے ہیں کہ امریکی حکمران طبقے کا یہ پراپیگنڈا زمینی حقائق سے متضاد ہے۔ معاشی بحران کا سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر لاد دیا گیا ہے، بینکوں کو ہزاروں ارب ڈالر کے بیل آؤٹ ریاست نے دئیے ہیں اور سرمایہ داروں کی شرح منافع آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ نئی نسل اب یہ نتیجہ اخذ کر رہی ہے کہ یہ سب کچھ چند ایک ’بُرے‘ سیاستدانوں، ریاستی اہلکاروں یا کرپٹ پولیس افسران کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ پورا نظام ہی گل سڑ چکا ہے۔
بالٹی مور امریکی صنعت اور معیشت کے زوال کا عبرت کدہ ہے۔ سرکاری طور پر 25 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پیداواری شعبے میں نوکریوں کی تعداد 35 فیصد کم ہوگئی ہے۔ شہر کے پسماندہ علاقوں میں حالات زندگی شنگھائی یا نئی دہلی کی جھونپڑ پٹیوں سے مختلف نہیں ہیں۔ یہ شہر درحقیقت اس ڈراؤنی فلم کا ٹریلر ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت مستقبل میں امریکی نوجوانوں کا انتظار کر رہی ہے۔
لسانی تفاوتیں جدید امریکی سماج کے خمیر میں موجود ہیں جنہیں وہاں کا حکمران طبقہ ہمیشہ سے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا آیا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے تاریخی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے جو اپنی ترقی یافتہ ترین شکل میں بھی نسل پرستانہ تعصبات کو ختم کرنے کی بجائے مزید ابھار رہا ہے۔ لیکن دوسرے کئی شہروں کی طرح بالٹی مور میں گزشتہ کچھ سالوں کے واقعات یہ بھی ثابت کرتے ہیں امریکی محنت کش اور نوجوان حکمران طبقے کے تعصبات کو یکسر رد کر رہے ہیں۔ حالیہ تحریک میں تمام رنگوں اور نسلوں کے لوگ ریاستی جبر کے خلاف طبقاتی طور پر یکجا ہو کر احتجاج کر رہے ہیں۔ لیون ٹراٹسکی کے الفاظ میں یہ ’’انقلاب کا مالیکیولر عمل‘‘ ہے جو بڑے انقلابی دھماکے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

پولیس کے جبر کو نسل یا جنس تک سیدھے سادے انداز میں محدود نہیں کیا جاسکتا۔ فریڈی گرے کے قتل میں ملوث چھ میں سے تین پولیس والے سیاہ فام ہیں اور ان میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ بالٹی مور کی میئر بھی ایک سیاہ فام عورت ہے جو کئی اعلیٰ ریاستی عہدوں پر فائز ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے امکانات سیاہ فام امریکیوں کے لئے سفید فاموں کی نسبت 21 گنا زیادہ ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ’’اقلیتوں کی زیادہ نمائندگی‘‘ جیسے کاسمیٹک اقدامات سے بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔ بنیادی مسئلہ وہ نظام ہے جس میں حکمران طبقہ قوانین، پولیس، عدلیہ اور ریاستی جبر کی دوسری اشکال کو اپنے مفادات، دولت اور طاقت کے لئے استعمال کرتا ہے۔وسائل چند ہاتھوں میں مرکوز ہوتے چلے جاتے ہیں اور آبادی کے وسیع حصے قلت اور محرومی میں غرق ہو کر جھونپڑ پٹیوں میں غیر انسانی زندگی گزانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جہاں ناگزیر طور پر جہالت، جرائم اور بیگانگی جنم لیتی ہے۔ یہ سماجی لعنتیں وقت گزرنے کے ساتھ کسی ایک لسانی گروہ کے ساتھ نتھی کر دی جاتی ہیں اور مظلوم کو ہی ظلم کا ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔
بالٹی مور کے واقعات میں امریکہ کے ’’آزاد‘‘ اور ’’غیر جانبدار‘‘ کارپوریٹ میڈیا کا کردار بھی ایک بار پھر عیاں ہوا ہے جس کے کیمرے ہزاروں افراد کے پر امن مظاہروں سے ہٹ کر لوٹ مار یا توڑ پھوڑ کرنے والے مٹھی بھر افراد پر ہی مرکوز رہے۔ یہ تخریب کار عناصر بھی اکثر و بیشتر پولیس ایجنٹ تھے جن کا مقصد پوری تحریک کو بدنام کرنا تھا اور بیشتر واقعات میں مظاہرین ان تخریب کاروں کو روکتے ہوئے نظر آئے۔ لیکن توڑ پھوڑ یا جلاؤ گھیراؤ کی نفسیات بھی ان مادی حالات میں جنم لیتی ہے جب عوام خود کو سماج سے بیگانہ سمجھتے ہیں۔ بالٹی مور کے شہری بجا طور پر شہر کو ’’اپنا‘‘ نہیں سمجھتے کیونکہ سب کچھ تو بینکوں اور کارپوریٹ سرمایہ داروں کی ملکیت ہے جو عوام کا خون چوستے چلے جارہے ہیں۔مارٹن لیوتھر کنگ کے بقول ’’دنگا فساد درحقیقت ان کی زبان ہوتی ہے جنہیں سننے کو کوئی تیار نہ ہو۔‘‘
ایسی تحریکوں میں عوام کو ’’عدم تشدد‘‘ کا درس بھی اس حکمران طبقے کی طرف سے خوب دیا جاتا ہے جو خود تشدد کے پہاڑ توڑ رہا ہوتا ہے۔ ’دی اٹلانٹک‘ پر شائع ہونے والے حالیہ مضمون میں بالکل درست لکھا ہے کہ ’’عدم تشدد کی تبلیغ جب سیاسی تشدد کے مضمرات سے بچنے کے لئے کی جائے تو اس کی منافقت خود ہی عیاں ہو جاتی ہے۔کسی جنگ کے عروج پر جب جارح کو سانس لینے کا کچھ وقت درکار ہو تو ایسے میں عدم تشدد کا پرچار مجروح کے لئے ذلت بن جاتا ہے۔عوام پر تشدد کی انتہا کرنی والی ریاست کی طرف سے عدم تشدد کی بات مظلوموں کے لئے زہر قاتل ہوتی ہے۔‘‘ بالشویک انقلاب کے قائد لیون ٹراٹسکی نے اپنی تحریر ’’ان کی اور ہماری اخلاقیات‘‘ میں بڑا واضح لکھا تھا کہ ’’ایک آقا مکاری اور جبر سے غلام کو زنجیروں میں قید کرتا ہے۔ ایک غلام عیاری اور جبر سے یہ زنجیریں توڑتا ہے…اور (حکمران طبقے کے ) مکروہ ہیجڑے ہمیں بتاتے ہیں کہ اخلاقیات کی عدالت میں یہ دونوں برابر ہیں۔‘‘
Malcolm-X-You-cant-have-capitalism-without-racismکارپوریٹ میڈیا کی جانب سے ٹھونسی جانے والی ’’کامن سینس‘‘ کے مطابق تو امریکی عوام بڑے تنگ نظر ہیں جن کا حقیقی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ میڈیا عوام کی سیاست میں دلچسپی کو صرف ’’صدارتی الیکشن‘‘ کے دنوں میں ہی اجاگر کرتا ہے۔ 2016ء میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے اخراجات کا تخمینہ پانچ ارب ڈالر ہے۔ یہ سرمایہ کاری امریکی حکمران طبقہ اپنی سیاسی کٹھ پتلیوں پر کر کے اربوں ڈالر کا منافع کمائے گا۔ اس ’’جمہوریت‘‘ کا امریکی عوام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقتاً فوقتاً امریکی عوام، خاص کر نوجوان پر تشدد مظاہروں کے ذریعے اپنی آواز اٹھا رہے ہیں۔ یونیسف نے 41 امیر ممالک میں امریکہ کو سماجی طور پر 36 واں درجہ دیا ہے جہاں 32.2 فیصد بچے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ناروے میں یہ شرح 5.3 فیصد ہے۔ امریکی عوام گرتی ہوئی اجرت، بڑھتی ہوئی عدم مساوات، نسل پرستی اور سرمایہ داری کا آپسی تعلق بھی سمجھ رہے ہیں۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سیاہ فاموں کی زندگیاں امریکی سرمایہ داری کے لئے قیمتی نہیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نظام کے لئے کسی بھی محنت کش یا غریب کی زندگی قیمتی نہیں ہے۔ صرف منافع قیمتی ہے۔ اس نظام کی حدود میں لسانی برابری کی بات بھی آخری تجزئیے میں جبر و استحصال سہنے کی برابری بن جاتی ہے کیونکہ استحصال کی حقیقی بنیادیں طبقاتی ہیں۔ مارکسسٹ ہمیشہ سے وضاحت کرتے رہے ہیں کہ امریکی محنت کش طبقے کا دیو جب بیدار ہو گا تو کوئی قوت اسے روک نہیں پائے گی۔ یہ تناظر آج حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔ نظام کی یکسر تبدیلی کے لئے انقلابی پارٹی، مارکسی پروگرام اور لائحہ عمل بہر حال لازم ہے جو محنت کش عوام کی شکتی کو درست سمت فراہم کر سکے۔ فرگیوسن اور بالٹی مور کے واقعات صرف ابتدائی جھلکیاں ہیں۔ لسانی تعصب، عدم مساوات، غربت اور ریاستی جبر کو پروان چڑھانے والے نظام کے خلاف حتمی فتح تک طبقاتی جنگ جاری رکھنا ہوگی!

متعلقہ:

لسانی بربریت: امریکی سامراج کی مکروہ حقیقت

امریکہ میں سامراج کی وحشت

جنوبی افریقہ: صرف رنگ بدلا تھا، نظام نہیں۔۔۔