سوشلزم: عورت کی نجات کا واحد حل

| تحریر : لاجونتی |
10429408_386008198239685_5752780492807936373_nسرمایہ دارانہ نظام کے تحت صنعتی انقلاب تمام تر انسانوں کے لئے وہ تکنیکی، سماجی و معاشی ترقی لایا جو ماضی کا کوئی نظام نہیں دے پایا تھا۔ اس ترقی پسند اور جدید نظام کے باعث انسانوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، سماجی پیداوار کے ساتھ ساتھ انسانی شعور بھی آگے بڑھا یہاں تک کہ قوم پرستی اور مذہب پرستی کی حدود کو بھی پامال کرکے رکھ دیا۔ ماضی کے سماجوں میں عورتوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں عورتوں کو بھی مردوں کے برابر تعلیم حاصل کرنے کا حق ملا۔ اپنی شروعات میں یہ نظام ترقی پسند ثابت ہوا، مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی سماجی کاموں میں حصہ لینے لگیں اور سماج کی ترقی میں ایک خاص کردار ادا کیا۔ لیکن اگر اس نظام کی موجودہ کیفیت پر نظر دوڑائی جائے تو یہ آسانی سے دیکھا جاسکتاہے کہ ماضی میں جن تمام تر عوامل پر سرمایہ داری کی ترقی کی بنیادیں ٹکی ہوئی تھیں آج وہ اپنی نفی میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ ماضی میں حاصل کی گئی معاشی حاصلات سے لیکر انسانی درجوں تک ہر جگہ بس بحران ہی بحران ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں جہاں آبادی کی اکثریت غربت کی گہرائیوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو، بچے، بوڑھے بلک بلک کر دم توڑ رہے ہوں، نوجوان اپنی جوانی در در کی ٹھوکریں کھا کر پوری کر رہے ہوں، ایک ایسے سماج میں عورت کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے ہم اس کا جائزہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ بورژوا نظریہ دان جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اب عورت آزاد ہے تو یہ آزادی کے نام پر دیے جانے والے ایک دھوکے اور فریب کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ آج کے اس سرمایہ دارانہ نظام میں عورت آزاد تو ضرور ہے لیکن اسکی آزادی کا مفہوم کیا ہے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یہ نام نہاد سرمایہ دارانہ نظام جو اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے عورتوں کو حقیقی آزادی دینے میں پوری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ اس نام نہاد سرمایہ دارانہ آزادی میں بھی فرسودہ ریتیں، رسم و رواج اور غیرت کے نام پر ظلم برقرار ہے اور عورتیں پہلے سے زیادہ مشکلات سے دوچار ہیں۔ بورژوا طبقہ جو سرمایہ داری کو انسانی سماج کا آخری اور حتمی نظام گردانتا ہے وہ عورتوں کے متعلق گھٹیا اور فرسودہ نظریہ رکھتا ہے اور عورتوں کا جنسی بنیادوں پر استحصال جاری رکھ کر ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ جس نظام نے اکثریت آبادی کی زندگی کو اجیرن کررکھا ہو بھلا اس سے اور اُمید بھی کیا کی جاسکتی ہے!
8 مارچ جوکہ پوری دنیا کی طرح ہر سال پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے اس عظیم دن کو بڑی بڑی این جی اوز اور سول سوسائٹی بڑے جوش وخروش سے مناتی ہیں۔ بڑے بڑے پروگرامات منعقد کئے جاتے ہیں اور اس جشن میں شامل ہونے والی خواتین کی اکثریت مڈل کلاس اور اپر کلاس سے ہوتی ہے۔ حکمران طبقہ اس دن کو ایک فیسٹیول کے طور پر مناتا ہے، پورے ملک میں تقاریب کا نہ دیکھا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، وزراء دل کھول کے خواتین کے کردار پر ہر ٹی وی چینل پر بحث کرتے نظرآتے ہیں اور بالآخر سارا دن گھسی پٹی تقاریر سنتے سنتے وہ دن گزرجاتا ہے۔ کبھی عورتوں کے حقوق اور برابری کی باتیں کی جاتی ہیں تو کبھی نہ پورے کئے جانے والے وعدے! اور زندگی اس دن کے ڈھلتے ہی پھر اپنے معمولات کا رخ کرتی ہے اور سارا سال بھوک، ننگ اور غربت میں پڑی محنت کش خواتین کی زندگیوں میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ یہ بورژوا طبقہ محنت کش خواتین کے متعلق اگرچہ ہمدردانہ رویہ اپناتا ہے بھی تو صرف اپنی سیاست چمکانے کے خاطر۔ ایک طرف عورت کو کمزور اور مظلوم کہہ کر اُسے اپنے کمزور ہونے کا مسلسل احساس دلایا جاتا ہے تو دوسری طرف یہی وہ طبقہ بھی ہے جو عورتوں کو سرے بازار نیلام کرکے اربوں کا منافع بھی کماتا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ریاست کے تمام ستونوں کی طرح اس کھیل میں میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتا، عام دنوں میں تو سوائے خواتین کے فیشن شوز، اشتہارات میں ان کی نمائش، عورتوں کے کپڑوں، میک اپ اور فٹ رہنے کے لئے کیا کیا جائے و دیگر کے اور کچھ دکھانا غیر ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن اُس روز پورا میڈیا خواتین کے دکھڑے رونے بیٹھ جاتا ہے۔ اربوں روپوں کے اشتہارات سے لیکر مارننگ شوز تک میڈیا صرف اپنی ’’ریٹنگ‘‘ کے چکر میں یہ سب کچھ کرتا ہے۔ جتنی دولت یہ لوگ ٹی وی پر یہ فضول گفتگو کرکے ضائع کردیتے ہیں انہیں شاید اس بات کا علم نہیں کہ صرف انہی پیسوں سے تھر میں موجود بیماری اور بھوک سے دوچار ماؤں اور ان کے بچوں کے حالات کو کچھ بہتر کیا جاسکتا ہے۔
کسی بھی ملک کی معاشی بدحالی زیادہ تر وہاں کے محنت کش طبقے کی زندگی پر قحط ڈھاتی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مشکلات سے گھر میں موجود گھریلوں خواتین کو گزرنا پڑتا ہے۔ اُن ماؤں کے دکھوں کا شاید ہی کوئی اندزہ بھی کرپائے کے جس کے بچے کم عمری میں اسکول جانے کے بجائے چائلڈ لیبر کا شکار ہوجائیں۔ جو خواتین خود اپنے گھر کی معاشی مشکلات دور کرنے کے لئے ملوں اور فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں ایک تو انہیں مردوں کی نسبت کم اجرت دی جاتی ہے اور دوسرا انہیں کمزور اور لاچار سمجھ کر انہیں پل پل جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ آج پوری دنیا میں کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو برابر کی اجرت دی جاتی ہو، یہاں تک کے ناچتی گاتی منچلی این جی اوز کی خواتین کے آئیڈیل ملک امریکہ میں بھی یہ فرق بڑے پیمانے پر موجود ہے اوریہ دنیا بھر میں اجرت میں فرق کے تناسب سے 65 ویں نمبر پر ہے ایک ایسے ملک میں جہاں محنت کش مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد 140000 سے زیادہ ہے خاص حیثیت رکھتا ہے جبکہ ورلڈ اکنامک فورم کی اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان 142 ممالک کی اس فہرست میں 141 ویں نمبر پر ہے۔
ویسے تو پاکستان کی حالیہ صورت سے واقفیت رکھنے والے کسی بھی فرد سے یہاں موجودہ خواتین کی حالت زار پر گفتگو نئی نہیں ہوگی لیکن اگر حالات کو اعداد وشمار کے حوالے سے ناپا تولا جائے تو مزید گہرائی سے چیزوں کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں کل خواتین کا 25 فیصد سے زائد محنت کی منڈی میں موجود ہیں، 2011 ء میں یہ تعداد 24.4 فیصد تھی، ان خواتین کی اکثریت زراعت سے وابستہ ہے۔ اگرچہ دیگر حوالوں سے اعداد کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں بچے پیدا کرنے کا تناسب 1970-75ء میں 4.32 فیصد تھا جوکہ 2005ء تک کم ہوکر 2.56 فیصد ہو گیا، سماجی طور پر صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ صرف گھریلو تشدد کی شکار خواتین کی تعداد وومین فاؤنڈیشن کے مطابق 2012ء تک 7516 (ایسے واقعات جو رپورٹ ہوئے) تک پہنچ چکی تھی جوکہ تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ ان میں تقریبا 10 فیصد صرف راولپنڈی میں رپورٹ کئے گئے ہیں، خود کشی کے واقعات میں لاہور، گجرانوالہ اور کراچی سرفہرست ہے، جبکہ 18 فیصد گینگ ریپ کے واقعات میں سب سے زیادہ واقعے اوکاڑا میں ہوتے نظر آئے۔ اپنی نوعمری سے لیکر بڑھاپے تک ہر وقت عورت کو سماج کے باقی افراد کی نسبت زیادہ استحصال کا شکار بنایا گیا ہے، دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں 2009ء تک 475 سے زائد گرلز اسکولوں کو طالبان کی جانب سے مسمار کیا گیا، تاکہ وہ پھول جیسی بچیاں پڑھ لکھ کر اچھے مستقبل کی خواہشوں سے بھی محروم ہوجائیں۔
آج کے اس طبقاتی سماج میں عورت ایک غیر فطری زندگی گزارنے پرمجبور ہے، زندگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت گھر کی چار دیواروں میں خاندان بناتے بناتے دم توڑدے۔ عورت کا خاندانی غلامی کا عادی ہوجانا تو ایک خوفناک طاعون ہے۔ نہ صرف غریب بلکہ مڈل کلاس خاندان کے اندر خواتین پر بوجھ اور انکی قسمت کی مایوسی کا موازنہ تو شاید آج کی انتہائی بدترین قید و مشقت سے بھی نہیں کیا جاسکتا جہاں کوئی آرام نہیں، کوئی چھٹی نہیں اور نہ ہی کوئی امید کی کرن۔ آج کی عورت کی محکومی کی جڑ بھی وہی خاندانی رشتے اور گھریلو محنت ہے جس نے اسے صدیوں سے جکڑے رکھا ہے۔ اگر عورتوں کے گھریلو کام کاج کو کل معاشرتی مقدار کے حوالے سے پرکھا جائے تو اس محنت کا اجر معاشرے کے جی ڈی پی کا بہت بڑا حصہ ہے لیکن اس بازار اور منافع خور نظام کو یہاں یہ مفت حاصل ہوتا ہے۔ محنت کی اس اتنی بڑی چوری کا شاید ہی اندازہ بھی لگایا جاسکے۔
اس تمام تر صورتحال میں اگر عورتوں کے حالات کو بہتر بنانا ہے تو وہ کبھی بھی اس سماج کی باقی پرتوں سے کٹ کر نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں پلنے والے ہر فرد کی حالت زار کو اس سماج کو اکھاڑ پھینکنے کے سوا بہتر نہیں کیا جاسکتا۔ صرف ایک غیرطبقاتی معاشرے میں ہی عورت کو حقیقی معنوں میں آزاد کروایا جاسکتاہے، آج تیزی سے محنت کش خواتین کی اس پرت کو جوڑنے کی ضرورت ہے جو ملوں، فیکٹریوں سمیت دیگر اداروں میں ورکرز کی صورت میں موجود ہیں جن میں کسان خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ ان تمام پرتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو نظریاتی اور شعوری طور پر منظم کیا جائے تبھی اس جنگ کو جیتا جاسکتا ہے، جس طرح کسان کو غلامی کے شکنجوں سے آزاد کرائے بغیر سوشلسٹ ریاست کی تعمیر تک رسائی ممکن نہیں بالکل اسی طرح کسان خواتین اور محنت کش خواتین کو خاندانی اور گھریلو بندھنوں سے آزاد کرائے بغیر سوشلزم کی طرف پیش قدمی ممکن نہیں۔ جب تک تمام محنت کش خواتین مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرکے اس طبقاتی نظام کا خاتمہ نہیں کرتیں تب تک اُن کی نجات ناممکن ہوگی۔ نجی ملکیت کے خاتمے سے عصمت فروشی کا بھی خاتمہ ہوگا اور اسی طرح انسانیت کو تمام مسائل سے چھٹکا را ملے گا، آج سماج میں جنسی بے راہ روی کی ذمہ داری خواتین پر ڈالی جاتی ہے لیکن خواتین کی معاشی آزادی ہی انسان کی حقیقی آزادی کی جانب ایک ٹھوس قدم ہوگا۔