سوشلزم اور ریاست

ٹراٹسکی کی کتاب ’’انقلاب سے غداری‘‘ سے اقتباس

[ترجمہ : خالد مسعود]

عبوری حکومت
کیا جس طرح کہ سرکاری اہل کار اصرار کرتے ہیں؟ یہ سچ ہے کہ سوویت یونین میں سوشلزم کی تکمیل ہو چکی ہے۔ اور اگر نہیں تو کیا حاصل شدہ فتوحات کم از کم قومی حدود کے اندر اس کی تکمیل کا یقین فراہم کرتی ہیں؟ قطع نظر اس کے کہ باقی دنیا میں واقعات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟ اگرچہ اس سے پہلے ہم نے سوویت معیشت کے اہم پہلوؤں کا جس طرح تنقیدی جائزہ لیا ہے اس سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اس سوال کے صحیح جواب کے نقطہ نظر سے ہم کتنے فاصلے پر ہیں تاہم بعض ابتدائی نظریاتی نقاط کے حوالے سے بھی ہم کچھ کہنا چاہئیں گے۔
مارکسزم تکنیک کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے عمل کو ترقی کا بنیادی سرچشمہ قرار دے کر کمیونسٹ پروگرام کی تعمیر کو پیداواری قوتوں کے انقلابی کردار پر منحصر سمجھتا ہے اگر آپ یہ تصور کرتے ہیں کہ کوئی آسمانی آفت مستقبل قریب میں ہماری زمین کو تباہ کرنے کے لیے آ رہی ہے۔ تو آپ کو البتہ یہ حق حاصل ہے کہ آپ اور بہت کچھ کے علاوہ کمیونسٹ خیال آفرینی کو بھی رد کر دیں۔ تاہم ایسے خیالی خطرے کے استثنیٰ (exception) کے علاوہ ایسی کوئی سائنسی وجہ موجود نہیں ہے کہ جس کو ہم اپنی تکنیکی اور ثقافتی پیش رفتوں کے امکانات کے راستے کی حد قرار دے سکیں۔ مارکسزم انسانی ترقی کی رجائیت سے سرشار ہے اور یہ واحد وجہ ہے جو اسے مذہب کا غیر مصالحانہ مخالف بناتی ہے۔
مارکسزم انسان کی معاشی قوت کو اس قدر بلند مادی زینے پر فرض کرنا ہے۔ جہاں انسان کی محنت بوجھ نہیں رہتی اور اسے محنت پر مجبور کرنا ضروری نہیں رہتا۔ زندگی کے وسائل میں بیش بہا اضافہ ہوتے رہنے سے ان کی تقسیم کو کسی کنٹرول کی ضرورت نہیں رہے گی (جیسے کہ آج بھی کسی کھاتے پیتے گھرانے یا کسی نفیس بورڈنگ ہاؤس میں ہوتا ہے) ماسوائے تعلیم عادات اور سماجی خیالات کی حد تک اور اگر آپ مجھے تھوڑی سی بے تکلفی کی اجازت دیں تو میں یہ عرض کروں گا کہ اس قدر عام سے امکان کو مثالیت پسند (Utopian) قرار دینا غبی پن کی علامت ہو گا۔
سرمایہ داری نے سماجی انقلاب کے حالات اور قوتیں تیار کی ہیں تکنیک ‘ سائنس اور پرولتاریہ‘ تاہم کمیونسٹ ڈھانچہ فوری طور پر سرمایہ دار سماج کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ماضی سے ملنے والا مادی اور ثقافتی ورثہ اس کام کے لیے ابھی بہت ناکافی ہے۔ مزدورں کی ریاست اپنے اولین اقدام میں ابھی ہر شخص کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ یعنی اس حد تک کہ جہاں تک وہ کر سکتا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ نہ ہی وہ ہر شخص کو اس کی ضروریات کے مطابق معاوضہ ہی دے سکتی ہے۔ یہ دیکھے بغیر کہ اس نے کتنا کام کیا ہے۔ پیداوار قوتوں کی افزائش کے لیے ضروری ہے کہ رواجاً اجرت کے مطابق ادائیگی کی جائے یعنی زندگی گذارنے کی اشیاء کی تقسیم انفرادی محنت کی پیداوار کی مقدار اور معیار کے مطابق ہو۔
مارکس نے نئے سماج کی اس اولین سطح کو کمیونزم کا سب سے نچلا مرحلہ کہا تھا اور اسے کمیونزم کے اعلیٰ ترین مرحلے سے جہاں ضرورت کی تمام نشانیاں مٹنے کے ساتھ ساتھ مادی عدم مساوات بھی ختم ہو جائے گی الگ کیا تھا۔ ان معنوں میں اکثر سوشلزم اور کمیونزم نئے سماج کے زیرین اور اعلیٰ مراحل کے تقابل کے طور پر لئے جاتے ہیں۔
سوویت حکومت کا سرکاری (ڈاکٹرائن) موقف کہتا ہے ’’ہم ابھی مکمل کمیونزم تک تو اگرچہ نہیں پہنچ پائے لیکن ہم یقیناًسوشلزم حاصل کر چکے ہیں یعنی کمیونزم کا ادنیٰ مرحلہ مکمل کر چکے ہیں۔ اس کے ثبوت میں وہ صنعت میں ریاستی ٹرسٹوں ‘ زراعت میں اجتماعی فارموں اور تجارت میں ریاستی اور امداد باہمی کی بالادستی کو پیش کرتے ہیں۔ پہلی نظر میں تو واقعی یہ سب مارکس کی نظریاتی سکیم کے مکمل طور پر مطابق دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ایک مارکسسٹ یا مارکس وادی صرف ملکیت کی صورتوں میں الجھ کر محنت کی کارگزاری کے جوہر کو نظر نداز نہیں کر سکتا۔ کمیونزم کے ادنیٰ مرحلے سے مارکس کی مراد ایسا سماج تھا جو اپنی نشوونما کے حوالے سے شروع ہی میں انتہائی ترقی یافتہ سرمایہ داری کے مقابلے میں بہر صورت اعلیٰ درجہ پر کھڑا ہو۔ نظریاتی طور پر اس تصور میں کوئی خامی نہیں کیونکہ اگر ہم عالمی سطح پر کمیونزم کے سوال کو لیں تو اپنے پہلے مرحلے میں بھی اسے سرمایہ داری سماج سے معاشی طور پر بلند سطح پر ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں مارکس کو توقع تھی کہ فرانسیسی اس سماجی انقلاب کی شروعات کرے گا۔ جرمن اسے جاری رکھے گا اور انگریز اسے مکمل کر دے گا۔ جہاں تک روس کا تعلق ہے۔ مارکس اسے کافی پیچھے سمجھتا تھا لیکن معروضی حقائق نے اس تصور کو درہم برہم کر دیا ہے جو کوئی بھی اب مارکس کے عالمگیر تاریخی تصور کا سوویت یونین کے مخصوص معاملے میں میکانکی طور پر اطلاق کرنے کی کوشش کرے گا وہ مایوس کن تضادات میں الجھ کر رہ جائے گا۔
روس سرمایہ داری کی عالمی زنجیر میں طاقتور ترین نہیں بلکہ کمزور ترین کڑی تھا۔ موجودہ سوویت یونین عالمی معیشت کی سطح سے قطعاً اونچا نہیں ہے بلکہ وہ تو ابھی سرمایہ دار ملکوں کو پکڑنے کی کوشش میں ہے۔ مارکس نے اگر اس سماج کو جسے سب سے زیادہ ترقی یافتہ سرمایہ داری کے عہد کی پیداوار قوتوں کی اشتراکیت کاری کی بنیاد پر استوار ہونا تھا کمیونزم کا ادنیٰ مرحلہ قرار دیا تھا تو یہ تعریف ظاہر ہے کہ سوویت یونین سے کسی صورت مطابقت نہیں رکھتی جو کہ آج تکنیکی ‘ ثقافتی زندگی کی اچھی چیزوں کے لحاظ سے سرمایہ دار ملکوں سے کافی پیچھے ہے۔ اس لیے یہ زیادہ درست ہو گا کہ سوویت یونین کی موجودہ حکومت کو اس کی تمام تر متضادی کیفیت کے باوصف ایک سوشلسٹ حکومت نہیں بلکہ سرمایہ داری سے سوشلزم کی طرف عبور کی تیاری کرنے والی حکومت کہا جائے۔
اصطلاحاتی درستگی کی خاطر اس طرح کی تعریف میں نمائشی پن کا شائبہ موجود نہیں ہے۔ حکومتوں کی قوت اور ان کے استحکام کا دارومدار آخری مراحل میں ان کی کارگزاری ہی پر موقوف ہوتا ہے۔ ایک سوشلسٹ معیشت جسے سرمایہ داری کے مقابلے میں برترتکنیک میسر ہو سوشلزم کی طرف اپنی نشوونما کے راستے پر پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ خودبخود بڑھتی جائے گی لیکن بد قسمتی سے یہ بات سوویت معیشت کے معاملے میں نہیں کہی جا سکتی۔
سوویت یونین کے بے ہودہ معذرت خواہوں کی اکثریت اس بارے میں مندرجہ ذیل طریقے سے دلیل بازی کرتی ہے۔ اگرچہ آپ یہ تسلیم بھی کر لیں کہ موجودہ سوویت حکومت ابھی سوشلسٹ نہیں ہے پھر بھی پیداوار قوتوں کا موجودہ بنیادوں پر آئندہ فروغ اسے جلد یا بدیر سوشلزم کی مکمل فتح تک لے جائے گا چنانچہ صرف وقت کا عنصر غیر یقینی ہے۔ اور کیا اس کے بارے میں غوغا آرائی بہت ضروری ہے؟
پہلی نظر میں ایسی دلیل چاہے کتنی ہی فتح مند دکھائی دے لیکن حقیقت میں وہ بہت سطحی ہو گی۔ جب تاریخی کارروائیوں کا مسئلہ ہو تو وقت ایک ثانوی عنصر نہیں ہوتا۔ گرائمر کی نسبت سیاست میں حال اور مستقبل کے فعلوں کو آپس میں گڈ مڈ کرنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کسی مظہر کی نشوونما ایک ہی سیدھ میں تواتر کے ساتھ آگے کی طرف مستقل طور پر جاری نہیں رہتی جیسا کہ ویب جیسے بے ہودہ ارتقا پسندوں کا خیال ہے۔ بلکہ اس میں کئی عبور آتے ہیں جب مقدار کیفیت میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کے دوران کئی بحران اور اگاڑیں پچھاڑیں ہوتی رہتی ہیں۔ سوویت یونین چونکہ سوشلزم کے پہلے مرحلے یعنی پیداوار اور تقسیم کے متوازن نظام کی منزل سے ابھی بہت دور ہے۔ اس خاص وجہ سے ہی اس کی نشوونما متوازن نہیں ہے۔ بلکہ تضادات کی صورت میں ہو رہی ہے۔ معاشی تضادات سماجی تصادموں کا باعث ہوتے ہیں جن کی اپنی منطق ہوتی ہے جو ضروری نہیں کہ پیداوار قوتوں کی نشوونما کی پابند ہو ہم ابھی دیکھ چکے ہیں کہ چوہدری کے معاملے میں یہ کتنی سچی بات تھی کہ وہ تدریجی ارتقا کر کے سوشلزم میں داخل ہونے کا قطعاً خواہش مند نہیں تھا۔ بلکہ وہ افسر شاہی اور اس کے نظریہ دانوں کو حیران کر دینے والا کسی اور ہی قسم کا انقلاب چاہتا تھا ؟کیا خود افسر شاہی جس نے تمام دولت اور اقتدار اپنے ہاتھوں میں سمیٹ رکھا ہے پر امن طور پر ترقی کر کے سوشلزم میں داخل ہونے کی خواہش مند ہے؟ اس معاملے میں شکوک و شبہات ہو سکتے ہیں تاہم اس بارے میں افسر شاہی کے اپنے قول کو حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس وقت یہ ممکن نہیں کہ اس سوال کا کوئی حتمی یا آخری جواب دیا جا سکے کہ سوویت سماج کے اندر معاشی تضادات اور سماجی تصادم اسے کس سمت لے جائیں گے یا یہ کہ آئندہ تین یا پانچ یا دس سالوں کے اندر اس کی نشوونما کی کیا صورت ہو گی اس کے نتائج کا انحصار دو زندہ سماجی قوتوں کی باہمی آویزش پر ہو گا اور وہ بھی قومی سطح پر نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ان قوتوں کے مابین اصل رشتوں ‘ ان کے ایک دوسری پر رد عمل اور ان کے تعلقات کے رجحانات کا ٹھوس تجزیہ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ ہم ریاست کے معاملے میں ایسے ہی تجزیے کی اہمیت کا جائزہ لیں گے۔

پروگرام اور حقیقت
مارکس اور اینگلز کی فکر کی روشنی میں لینن نے پرولتاری انقلاب کی اولین خصوصیت کو اس حقیقت کے روپ میں دیکھا کہ استحصال کرنے والوں کو ملکیت سے بے دخل کر دینے کے بعد یہ انقلاب سماج سے اوپر اٹھے ہوئے اس افسر شاہانہ ڈھانچے (Appratus) یعنی پولیس اور باقاعدہ فوج کے نظام کی ضرورت کو بھی ختم کر دے گا۔ ’’پرولتاریہ کو ریاست درکار ہوتی ہے۔ یہ بات تو آپ کو سارے موقعہ پرست بتا سکتے ہیں‘‘ لینن نے 1917ء میں اقتدار پکڑنے سے دو ماہ قبل لکھا تھا۔
’’لیکن یہ موقع پرست لوگ یہ بتانا بھول گئے کہ پرولتاریہ کو صرف مرتی ہوئی ریاست درکار ہوتی ہے یعنی ایسی صورت میں استوار کی گئی ریاست جو فوراً مرنا شروع کر دے اور موت سے کسی صورت بچ نہ سکے۔‘‘ (ریاست اور انقلاب) یہ تنقید اس وقت اصلاح پسند سوشلسٹوں یعنی روسی منشویکوں‘ برطانوی فیبین وغیرہ کے خلاف کی گئی تھی لیکن اب یہ دوگنا قوت کے ساتھ افسر شاہانہ ریاست کے اُن سوویت پجاریوں کونشانہ بناتی ہے جو افسر شاہانہ ریاست کے تقدس کی مالا جپتے ہیں جس کے ’’مرنے کا‘‘ ذرا بھی امکان موجود نہیں۔
افسر شاہی کی تعمیر کی سماجی ضرورت تمام ان صورتوں میں پیدا ہوتی ہے جہاں سماج میں زیادہ تیز تخالف موجود ہوں جنہیں نرم ’’ہموار‘‘ یا باقاعدہ کرنے کی ضرورت (ہمیشہ مراعات یافتہ اور صاحب جائیداد لوگوں کے حق میں اور ہمیشہ خود افسر شاہی کے حق میں) بھی پڑتی ہے۔ تمام بورژوا انقلابوں کے دوران چاہے وہ کتنے ہی جمہوری تھے ہمیشہ ہی اس افسر شاہی ڈھانچے کو مضبوط اور بہتر بنایا گیا۔ ’’افسر شاہی اور باقاعدہ فوج بورژوا سماج کے جسم پر گوشت خورے (Parasite) کی طرح ہوتے ہیں۔‘‘ لینن نے لکھا تھا۔ ’’ایسا گوشت خورہ جو اس سماج کے اندرونی تضادات کا پیدا کردہ ہوتا ہے جو اس سماج کو پھاڑتے ہیں لیکن پھر ان پھٹے ہوئے حصوں کو لڑنے سے روکتا بھی یہی ہے۔‘‘
1917ء سے جس لمحے اقتدار پکڑنے کے سوال نے پارٹی کے لیے ایک عملی صورت اختیار کر لی تھی۔ لینن اس گوشت خورے کو ختم کرنے کی فکر میں مصروف تھے۔ ’’ریاست اور انقلاب‘‘ کے ہر باب میں وہ اس بات کو بار بار دہراتے ہیں کہ کس طرح استحصالی طبقات کا تختہ الٹ کر پرولتاریہ پرانی ریاستی مشین کو تہس نہس کر دے گا۔ اور اپنا نیا ڈھانچہ یا آپریٹس ملازموں اور مزدوروں میں سے تخلیق کرے گا۔ اور ایسی تدابیر اختیار کرے گا کہ یہ لوگ افسر شاہی نہ بن سکیں۔ وہ تدابیر جن کی تفصیل کا مارکس اور اینگلز نے تجزیہ کیا تھا۔ (۱) نہ صرف انتخاب بلکہ کسی وقت بھی واپس بلانے کا اختیار (۲) معاوضہ اس سے زیادہ بالکل نہیں جتنا کہ عام مزدور کو اجرت ملتی ہے اور (۳) ایک ایسی حکومت کی طرف فوری عبور جس میں ’’تمام‘‘ مل کر کنٹرول اور نگرانی کے کام کو انجام دیں تاکہ ’’تمام‘‘ ایک وقت کے لیے ’’افسر‘‘ بن جائیں تاکہ کوئی بھی افسر نہ بن سکے۔‘‘ آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ لینن کسی ایسے کام کے بارے میں کہہ رہے ہیں جو بیسوں سالوں پر محیط ہو نہیں یہ وہ پہلے قدم ہیں جو ’’ہمیں پرولتاری انقلاب کے بعد اٹھانے چاہیں‘‘ ۔ پرولتاری آمریت کے تحت ریاست کے بارے میں اس واضح تصور نے روسی انقلاب کے ڈیڑھ سال بعد بالشویک پارٹی کے پروگرام میں مکمل صورت اختیار کر لی تھی۔ ایک مضبوط ریاست مگر بغیر افسروں کے، مسلح قوت مگر بغیر کپتان کے۔
دفاعی امور کسی سماج میں فوج اور افسر شاہی کی تخلیق کا سبب نہیں ہوتے بلکہ سماج کا طبقاتی ڈھانچہ ہی دفاع کے لیے معاشرے کی تنظیم سازی کرتا ہے۔ فوج سماجی رشتوں کا محض عکس ہوتی ہے یہ درست ہے کہ غیر ملکی خطرے کے خلاف جدوجہد کے دوران ایک مزدور ریاست کو بھی کسی دوسری ریاست کی طرح ایک مخصوص فوجی تکنیکی تنظیم کی ضرورت پیش آ سکتی ہے لیکن کسی صورت بھی اسے مراعات یافتہ افسروں کی ٹولی نہیں چاہیے۔ چنانچہ پارٹی کا پروگرام باقاعدہ فوج کی جگہ پر مسلح عوام کو لانا چاہتا ہے۔ لہٰذا پرولتاری آمریت کی حکومت اپنے اوائل ہی سے پرانے معنوں میں ’’ریاست‘‘ کے مفہوم سے عاری ہو جاتی ہے۔ (ایک ایسے آپریٹس کے بطور جو لوگوں کی اکثریت کو اپنا مطیع بنا کر رکھتا ہے)۔ ہتھیاروں کے ساتھ ہی مادی قوت براہ راست اور فوری طور پر مزدوروں کی تنظیموں جیسی کہ سوویتوں کو منتقل ہو جاتی ہے۔ ریاست ایک افسر شاہی آپریٹس کے بطور اسی دن سے مرنا شروع کر دیتی ہے۔ جس دن سے مزدوروں کا اقتدار جنم لے لیتا ہے۔ یہ پارٹی کے پروگرام کی آواز ہے۔ جو آج کے دن تک منسوخ نہیں ہوا۔ لیکن یہ کیسی عجیب لگ رہی ہے جیسے کسی مقبرے میں سے کوئی بھوت بول رہا ہو۔
آپ موجودہ سوویت ریاست کی کسی طرح بھی توجیح کریں ایک بات ناقابل تردید رہے گی اور وہ یہ ہے کہ اپنے وجود کی دوسری دہائی کے آخیر میں نہ صرف یہ کہ یہ ریاست ابھی تک مری نہیں بلکہ اس نے مرنا شروع بھی نہیں کیا۔ اس سے بھی بدتر حقیقت یہ ہے کہ یہ جبر کا ایک ایسا آپریٹس بن گئی ہے جو آج سے پہلے کسی نے نہ سنا ہو گا۔ افسر شاہی نہ صرف یہ کہ غائب نہیں ہوئی بلکہ اس نے لوگوں کے لیے جگہ بنانے کی بجائے خود ایک بے لگام قوت بن کر ان پر غلبہ پا لیا ہے۔ فوج کی جگہ مسلح عوام کو لانے کی بجائے فوج میں افسروں کی مراعات یافتہ ٹولی پیدا کر دی گئی ہے۔ جن کے سر ’’مارشل‘‘ کے تاجوں سے مزین ہیں۔ جبکہ ’’آمریت کے اسلحہ بردار عوام‘‘ کو سوویت یونین میں یہاں تک مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ غیر دھماکہ خیز ہتھیار لے کر بھی نہیں چل سکتے۔
مارکس اینگلز اور لینن نے مزدور ریاست کے بارے میں جو تصورات پیش کئے تھے۔ سٹالن کے زیر اقتدار موجودہ سوویت ریاست کا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔ اگرچہ لینن کے مضامین کی اشاعت کا کام سنسر کی طرف سے یقینی رد و بدل کے ساتھ اب بھی جاری ہے لیکن سوویت یونین کے موجودہ کرتا دھرتا اور ان کے چیلے چانٹے‘ پارٹی پروگرام اور موجودہ حقیقت کے درمیان پیدا ہونے والے شدید فرق کی وجوہات کے بارے میں سوال اٹھانے سے بھی قاصر ہیں ان کے لیے یہ کام سرانجام دینے کی کوشش ہم کریں گے۔

متعلقہ:
ریاست اور انقلاب