بجلی کا بحران اور جھٹکوں کی سیاست

تحریر: لال خان:-
(ترجمہ: کامریڈ علی)
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس بات کو عوام کی اکثریت اور ان کی سماجی کیفیت کے نقطہ نظر سے دیکھا اورپرکھا جائے تو صورتحال بالکل ہی مختلف اور الٹ نظر آتی ہے۔ زیادہ تر ایجادات سماجی ضروریات بن جاتی ہیں جب اکژیت ان ایجادات کے فوائد سے واقف ہوجائے اور اس کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنا لے۔ ایسے موقعو ں پر یہ ایجادات سماجی ضرورتوں کی صورت اپنالیتی ہیں اور عمومی طور پر ا ن کا وجود عام تام حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ بجلی کے حوالے سے بھی یہ بات بالکل درست ہے۔ جب لوگ بجلی کے استعمال کے عادی ہوگئے تو بجلی بھی ان کی زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن گئی۔ لیکن، پاکستان جیسے ممالک میں بجلی کی فراہمی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہاں بہت دکھ ہوتا ہے۔ پنجابی میں ایک بہت دلچسپ روایتی کہانی ہے۔ ایک غریب کسان گندم کی بوری چھت پر لیکر جارہا تھا۔ اس کے سپر وائزر نے ماچس جلائی، تاکہ سیڑھیوں کو روشن کرسکے۔ کچھ لمحوں بعد ماچس بجھ گئی۔ اس کسان نے نفرت سے کہا ’’تم نے تو مجھ سے میرا اندھیرا بھی چھین لیا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ جب ماچس بجھی تو اس کی آنکھیں جو اندھیرے کا عادی ہوگئیں تھیں، وہ پہلے کی طرح اندھیرے میں دیکھنے سے قاصر تھیں۔

وہ عذاب جس سے پاکستان کے عوام کو اپنی رازمرہ کی زندگیوں میں بجلی کے بحران کی وجہ سے گزنا پڑتا ہے بہت تکلیف دہ ہے۔ بجلی کی ایجاد، شاید اب تک کی تمام تر ایجادات میں سب سے اہم ایجاد ہے جو کہ انسانی سماجی وجودیت کی بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔ صنعت ہو یا گھر، تعلیم ہو یا صحت، بجلی معاشی، سماجی اور گھریلو زندگی کے بے شمار شعبوں کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بجلی کی عدم موجودگی میں زندگی تقریباََ ایک ٹھہراؤ کی کیفیت میں آجاتی ہے۔ پاکستان میں کئی سالوں سے لوڈ شیڈنگ ایک معمول بن گئی ہے، لیکن پھر بھی بجلی کی طاقت کا کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے لوگ لوڈ شیڈنگ کے عادی نہیں ہوسکے۔ بجلی کی قوت پر انحصار اتنا شدید ہے کہ بجلی کی عدم موجودگی میں روز مرہ کے کام عام طریقہ کار سے نہیں ہوتے اور ٹھہراؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے عوام میں ایک طنزیہ لطیفہ گردش کر رہا ہے، کہ اس خطے کہ سب سے خوش عوام پاکستانی ہیں، کیونکہ وہ ہر گھنٹے بعد جشن بناتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر گھنٹے بجلی جانے کہ بعد جب واپس آتی ہے تو لوگ خوشی مناتے ہیں کہ ’’آگئی ہے، آگئی ہے۔‘‘ لیکن اب تو ایسا بھی نہیں رہا، وسیع علاقوں میں تو بیس گھنٹوں سے اوپر لوڈ شیڈنگ رہتی ہے۔

ریاست کے معاملات کسی طورکوئی لطیفہ نہیں ہوتے۔ یہ لوڈشیڈنگ صرف لوگوں کی جسمانی کیفیت پر اثر انداز نہیں ہوتی، بلکہ بہت تیزی سے یہ مسئلہ ایک نفسیاتی صدمے کی صورت اختیا ر کر رہا ہے۔ اس سے لوگوں کے موڈ، رویے، ان کے طرز عمل بگڑ جاتے ہیں، اور سماجی بیگانگی بڑھ جاتی ہے۔ لوگ بیتابی اور غصے کا شکار ہیں۔ پچھلے چار سالہ جمہوری اقتدار میں لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں اضافے کے بعد سے یکے بعد دیگرے باقاعدہ وقفوں کہ ساتھ احتجاج ہوئے ہیں۔ یہ ایک بڑے عوامی ابھار میں تبدیل ہوسکتے ہیں اور جو کہ اس پورے نظام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور لیڈروں نے ایک دوسرے پر دوش ڈالنا شروع کردیا ہے، جس کا مقصد پہلے سے خستہ حال اور محروم عوام کو اس جدوجہدسے دوررکھنااورگمراہ کرنا ہے جس سے وہ اس المناک سماج کے تمام خرافات اور مصیبتوں سے مکمل چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ ماہرین اور تجزیہ نگار بجلی کی پیداوار اور اس کی فراہمی کے حوالے سے نئے خیالات اور جدید معلومات سے لیس ہیں۔ تھر کے وسیع کوئلے کے ذخائر، شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار، جوہری طاقت سے یا سند ھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں چلنے والی ہوا اور سمندری لہریں، ان گنت وسائل کی طرف بار، بار اشارہ کیا جا رہا ہے کہ جن کو بروئے کار لاتے ہوئے بجلی کی کمی کے بحران کو حل کیا جاسکتا ہے۔ بھرپور کثرت سے جدید معلومات اور مشورے ٹیلی ویژن اورپریس میں بھی موجود ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے بھرپور صلاحیات موجود ہیں۔ استعمال کی جانے والی بجلی 15000 میگاواٹ ہے جبکہ پیداواری صلاحیت 19500 میگاواٹ کی ہے۔ تو مسئلہ کہاں ہے؟ پیداواری صلاحیت سے کم پیداوار کرنے کی وجہ صرف منافع ہے اور یاست کی طرف سے پرائیویٹ بجلی پیدا کرنے والے اداروں کی حد سے زیادہ قیمتیں ادا کرنے کے لئے اور ہائیڈرواور دیگر ریاستی ملکیت کے پیداواری یونٹوں کے انفراسٹرکچر کی مرمت کے لیے فنڈز کی عدم موجودگی !پچھلی دہائی میں ہمہ وقت بڑھتے ہوئے جی ڈی پی اخراجات جس کی وجہ سامراجی قرضوں کی ادائیگی اور عسکری سامان خریدنا ہے، اورجس کی وجہ سے پرانے ساز و سامان کی ازسرنو مرمت یا نیا انفراسٹرکچربنانا ممکن ہی نہیں، ا س کی وجہ سے بمشکل ہی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والاکوئی نیا یونٹ بن سکا، صرف بجلی کی پیداوار کا انفراسڑکچر ہی نہیں بلکہ ریلوے، تعلیم اور صحت کے شعبے بھی خستہ حالی اور لاپرواہی کا شکار ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ خسارے مزید بڑھیں گے۔ کچھ قدامت پرستوں کے اندازوں کے مطابق 2020 ء تک بجلی کا شارٹ فال 20,000 میگاواٹ سے بھی تجاوز کر جائے گا۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ سرمایہ داری میں انفراسٹرکچر اور دیگر منصوبوں کی منصوبہ بندی اور تعمیر ساماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نہیں کی جاتی بلکہ اس کا مقصد منافع کمانا ہوتا ہے۔ ایک گلے سڑے بحران کا شکار سرمایہ داری نظام میں جہاں پاکستان میں جائز طریقوں سے شرح منافع کو بڑھایا نہیں جاسکتا، وہاں سب سے بیہودہ اور گھٹیا کرپشن، ریاست اور کاروبار میں دیکھنے کو نظر آتی ہے۔ پھر یہی انفراسٹرکچر، تعمیر اور منصوبہ بندی کو بناتا ہے۔ اس کے بعد سے پانی سے پیدا کی جانے والی بجلی کو صرف 37 فیصد تک محدود کردیا گیا تھا۔

1994-5ء کے دور میں جو آزاد پاور پلانٹس (Independent Power Plants) بجلی کی پیداوار کی غرض سے لگائے گئے، وہ تیل کی مصنوعات سے چلنے والے تھے۔ سامراجی ملٹی نیشنلز کو بہترین کنٹریکٹس دیے گئے، جن کے بل بوتے پر انہوں نے بجلی سے بہت زیادہ منافع کمایا۔ ساتھ ہی رشوت اور کمیشن کی صورت میں ملنے والی رقم یہاں کی سامراج کی گماشتہ بیوروکریسی اور سیاست دانوں کو بھی ملی۔ یہاں کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈیڑھ دہائی سے زیادہ سے تقریبادو ارب ڈالر سالانہ کا منافع بھیجواتی رہی ہیں۔ ذرا سوچئے، اگر اتنی زیادہ رقم بجلی کی پیداوار کے دوسرے ذریعوں پر خرچ کی جاتی ؟ ان نجی ملکیت کے پاور پلانٹس میں 4981 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، لیکن صرف حکومتوں پر دباؤ ڈال کر اپنی قیمتوں کو بڑھانے کی غرض سے ان میں صرف 2319 میگاواٹ بجلی پیداکی جاتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنا بہت آسان ہے۔ ان آئی پی پیز (IPP146s) کو نیشنلائز کر کے مزدوروں کے کنٹرول اور منیجمنٹ میں دے دیا جائے اور اگلے ہی لمحے ’’ روشنی ہوجائے گی۔ ‘‘

لیکن ہمارا حکمران طبقہ یہ نہیں کر سکتا، خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت یا ادارے سے ہو۔ آخری عشروں میں پاکستان کی بورژوازی نے ایک بہتر صنعتی سماج بنانے کی ساری امیدیں بھی چھوڑ دی ہیں اور اب انہوں نے یہاں کے عوام کو طاقت سے کچلنے کیلئے معاشی، سماجی اور سیاسی جبر شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے یہاں کے محکوم اور محروم عوام کو بجلی کے جھٹکے دینے شروع کردیے ہیں۔ ایک ایسے فلسفے کو بنیاد بنا کر جس کا مدار منطقی تجربات پر مبنی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ سخت جبرواستبداد سے یہاں کے عوام پر زخم پر زخم لگا کر یہاں کے لٹیرے حکمران، عوام کو لمبے عرصے تک دبائے رکھیں گے۔ وہ بہت غلط انداز سے سوچ رہے ہیں۔ عوام دیکھ رہے ہیں۔ جوبھی امیر اور طاقت ور ہیں، ان کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ بجلی کے بغیر زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔ یہ طبقاتی تضاد لاوے کی طرح ابل رہا ہے۔ جب یہ لاوا پھٹے گا تو یہاں کا حکمران طبقہ اس عوامی ابھار سے بچ کر بھاگ نہیں سکے گا۔

ڈیلی ٹائمز، یکم اپریل 2012

متعلقہ: