جنسی ہوس کا ناسور!

| تحریر: لال خان |

عمران خان کے جلسوں میں جس ہولناک رجحان کا اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے وہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان کی بے حرمتی کا تسلسل ہے۔ ان جلسوں میں ہوس کے بچاریوں کی وحشت ناک حرکات ایک معمول بن چکی ہیں۔ لاہور میں ہونے والا یہ ہوس کی وحشت کا کھلواڑ تو سب حدیں پار کر گیا تھا۔ ستم یہ ہے کہ ان واقعات کو طرفین ’سیاسی‘ الزام تراشی کی ضرورت کی تکمیل کے لئے استعمال کرپارہے ہیں۔ یہاں کے تجزیہ نگار اور مفکرین بھی اس سطحی سوچ اور ظاہریت پرستی کے فلسفے کے تحت ہی ان بھیانک ’حادثات ‘کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ کوئی عوام کو یہ باور کروانے کے لیے تیار نہیں کہ ایسے غیرانسانی رویے اور حرکات کے پیچھے جو نفسیاتی الجھنیں، محرومیاں اور بیماریاں ہیں، ان کی وجہ کیا ہے؟
اگر ہم کسی بھی معاشرے کے سطحی کرداروں اور حکمرانوں کے معیاروں کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ سماج میں معاشی زوال، سماجی پستی اور محرومی کی ذلت کس حد تک شدت اختیار کرگئی ہے۔ جب مختلف قسم کی محرومیوں کی ذلت معاشرے کی رگوں اور شریانوں کے ساتھ ساتھ اس کے مختلف اعضا میں کسی ناسور کی طرح سرائیت کرجاتی ہے تو پورا سماج اس اذیت سے شدید خلفشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ محرومی جب بہت وسیع اور دیوہیکل ہوجائے اور اس کے ازالے کے وسائل اور راستے محدود ہوجائیں تو ا س سے نکلنے کے لیے ایک اندھی اور جنونی دوڑ شروع ہوجاتی ہے۔ اس میں خود غرضی کی مسلط نفسیات ہر کسی کو روند کر آگے بڑھ جانے کے نیم پاگل پن کو جنم دیتی ہے۔ بدعنوانی، دھوکہ دہی، جھوٹ اور فریب معاشرے کا معمول بن جاتے ہیں۔ اس منافقت سے لبریز اخلاقیات میں ہر کوئی وہ بننے کا ڈھونگ کررہا ہوتا ہے جو وہ ہوتا نہیں ہے۔ لیکن اس منافقت کے نقاب کے پیچھے ہر قسم کی بڑھتی ہوئی محرومی جس ہوس کے طوفان کو مسلسل مجتمع کررہی ہوتی ہے، اس کو جب موقع ملتا ہے تو وہ پھٹ پڑتا ہے۔ دولت اور جائیداد کے حصول کی ہوس کوجب کچھ غصب کرنے کا تھوڑا سا بھی موقع ملتا ہے تو یہ اس حد تک بھیانک ہوجاتی ہے کہ خاندانی رشتوں کے ساتھ ساتھ عمر بھر کے یا رانوں اور گہرے مراسم کو قتل کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ اسی طرح جنسی ہوس بھی اتنی بڑھ چکی ہے کہ عورت کو دیکھتے ہی یہ بیشتر مردوں میں بھڑک اٹھتی ہے او ر پھر یہ کئی مرتبہ ایسا جنون بن جاتی ہے کہ عورت کے جسم کو ایک استعمال کی جنس سمجھ کر نوچ نوچ کر لوٹ لینے کی درندگی کے مظاہرے کرواتی ہے۔ جہاں اس معاشرے میں عورت کی تکریم کے بارے میں اتنے فتوے دیئے جاتے ہیں، سرمائے کی سیاست اور فکر کے اَن داتا اپنے اپنے لبرل یامذہبی انداز میں عورت کی عزت واحترام کا واویلا مچائے رکھتے ہیں، وہاں’’اہل دانش، پرہیز گار اور نیک وذہین‘‘ افراد بھی موقع ملنے پر اپنی ہوس کی اس وحشت کا بھیانک مظاہرہ کرنے میں کبھی تامل نہیں برتتے۔ جو اپنی خوداری، نیک نامی اور شرافت کا پرچار کرواتے رہتے ہیں وہ ایسی حرکات کر جاتے ہیں کہ عام انسان صدمے میں آجاتا ہے۔ یوسف حسن نے ایسے معاشرے کے بارے میں کہا تھا

آندھی میں بھی نہ جن کا نشانِ انا گرے
باب ہوس کھلا تو وہ ٹکڑوں پہ جا گرے

اگر عورت کی طرف رویے کے حوالے سے بڑے بڑے نامی گرامی مردوں کی اصل حقیقت یہ ہوتو ایسے معاشرے میں عام نوجوانوں، خصوصاً معاشرے کی محروم پرتوں کے افراد کا ایسے جمود اور سماجی گھٹن کے عہد میں جو ردعمل سامنے آتاہے، وہی ہمیں عمران خان کے جلسوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن خواتین کو بن سنور کر آنے پر اعتراض کرنے والے رجعتی سیاست دانوں اور ملاؤں کا یہ رویہ پھر اسی نفسیات کی غمازی کرتا ہے کہ عورت ایک استعما ل کی جنس ہے لہٰذا جس کی ملکیت ہو وہ اس کو پردوں میں ڈ ھانپ کر رکھے، چار دیواریوں کی قید میں بند کرکے رکھے۔
لیکن عورت بھی آخر انسان ہے۔ جنم جنم سے اس معاشرے میں عورت نے مرد کے شانہ بشانہ کام کیا ہے، معاشرے میں معاشی اور ثقافتی ارتقا میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب سے لے کر اب تک، یہاں کی دہقان خواتین نے گھریلو مشقت بھی کی ہے، بچوں کو بھی پالا ہے اور فصلوں کو بھی بویا اور کاٹا ہے۔ تپتی دھوپ میں’بُرقعے ‘پہن کر تو گندم کی کٹائی ممکن نہیں ہے۔ اسکی محنت کا معاشرے کے ارتقا اور ترقی میں مرد سے شاید زیادہ ہی کردار بنتا ہے۔ کیونکہ اس نے کھیتوں اور فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ اپنے گھروں کوبھی سنبھالا، چلایا اوربنایا ہے۔ تما م تر مشقت اور دوہری تہری محنت کے ساتھ ساتھ عورت میں اپنے پریوارکو خوشیوں کا گہوارہ بنانے کا عزم زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ لیکن جب عمران خان اپنے جلسوں میں یہ سبق پڑھائے گا کہ’’ اس خطے کی تاریخ محمد بن قاسم کے سندھ آنے سے شروع ہوتی ہے‘ ‘، تو اس سے رجعت ہی کوتقویت ملتی ہے، جویہاں پر مذہبیت کے نام پر مسلط کی جارہی ہے۔ جہاں ایسے ’’نظریات‘‘ کا پرچارہو رہاہو، وہاں فیشن ایبل درمیانے طبقے کی خواتین کو ہوس کی نفسیات، تضحیک اورجنسی حملوں کے ایسے واقعات کا سبب سمجھنے کیلئے راکٹ سائنس درکار نہیں ہوتی۔ لیکن دوسری جانب یہاں کی لبرل سیکولر سول سوسائٹی کا اپنا المیہ ہے۔ وہ خواتین کی آزادی کو میک اپ، ’کارڈرائیونگ، ‘ مغرب زدہ لباسوں اور کیٹ واکس وغیرہ کے کارناموں سے جوڑتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کی خواتین کا وسیع تر حصہ جن مزدور اور دہقان طبقات سے تعلق رکھتا ہے، ان کے پاس تو روٹی روزی کی کشمکش سے ہی فرصت نہیں ہے، وہ ایسی ’ثقافتی‘ اور ’’ماڈرن‘‘ سرگرمیوں کو جاننے سے بھی محروم ہیں۔ عورت کو اشتہاروں میں اشیا کی مارکیٹنگ کے لیے ایک جنس کے طور پر استعمال کیا جائے یا پھر اس کو مذہب کے نام پر زمانے اور سماج کے ہر ناطے، ہر شعبے میں شراکت سے کاٹ دیا جائے تو یہ دونوں صنفی استحصال اور ظلم کی ہی شکلیں ہیں۔
عورت کو جن تاریخی اور رجعتی توہمات کے ذریعے مردوں سے کم تر انسان باور کروا کر معاشرے میں پیش کیا جاتا ہے اس کا بنیادی مقصد عورت کی غلامی کے ذریعے اس کی محنت کا سماجی وگھریلو مشقت کی شکل میں استحصال ہے۔ محنت کش عورت یہاں دوہرے استحصال کا شکار ہے، اس کے اندر بھی اس ظلم وجبر کے خلاف ایک نفرت اور حقارت کا لاواسلگ رہا ہے۔ آزادی نسواں یا جنسی جبر واستحصال سے آزادی کا مسئلہ بنیادی طور پر ان معاشی، اقتصادی اور خاندانی مروجہ ڈھانچوں سے آزادی کے ساتھ منسلک ہے۔ اس نظام زر کو چلانے کے لئے جس استحصال کاشکار خواتین محنت کش ہوتی ہیں اس میں جنسی حملوں کے خطرے سے عدم تحفظ کا احساس ان کو کمزورا ور مجبور کرنے کے لیے بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ خواہ مذہبی رجعت کا جبر ہو یا عورت کو ’نمائشی جنس‘ بنانے کا لبرل ازم کاستم، اسی نظام کے ڈھانچوں کے ذریعے ہی ان کو معاشرے پر مسلط کیا جاتا ہے۔
لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ’’ ہر سماج کے تمام دھارے جس نقطہ اور محور پر مرکوز ہوتے ہیں وہ ماں ہوتی ہے۔ جب تک ماں آزاد نہیں ہوتی معاشرہ محکوم رہے گا‘‘۔ جنسی جبر سے آزادی طبقاتی جدوجہد کا ایک بنیادی حصہ ہے اورانقلابی سوشلزم کے مقاصد کا بنیادی جزو ہے۔ جب بھی یہا ں کے محنت کش کسی انقلابی بغاوت میں اتریں گے، عورت اس میں ہراول ہوگی۔ لاتعداد انقلابات کی تاریخ اسکی گواہ ہے۔

متعلقہ:

وجود زن کب ہو گا آہن؟