آل پاکستان نادرا ایمپلائز یونین کے مرکزی صدر سلیم شیر پاؤ کا انٹرویو

اہتمام: کامریڈ نعمان خان (PTUDC پشاور)

آپ نے نادرا میں کب ملازمت اختیا ر کی تھی اور آج آپ کس عہدے پر کام کر رہے ہیں؟
میں نادرا 1984ء میں بھرتی ہوا تھا۔ اس وقت ادارے کا نام قومی شناختی کارڈ تھا۔ میں آج نادرا میں جونیئر کلرک BPS-07 پر کام کر رہا ہوں۔

نادرا میں یونین کب بنی ہے؟
نادرا امیں پہلی یونین 1988ء میں بنی تھی۔ اس وقت اس کا نام رجسٹریشن ایمپلائز ایسوسی ایشن تھا۔ ایک افسر نے بہت سے ملازمین کے دور دراز علاقوں میں تبادلے کر دئیے تھے جسکی وجہ سے ملازمین اکھٹے ہوئے اور یہ ایسوسی ایشن بنائی۔ بعد ازاں افسر شاہی نے ملازمین کے خلاف انتقامی کاروائی کی۔ پھریونین کے مفاد پر ست ٹولے کی وجہ سے 1995ء میں یہ یونین اپنی موت خود ہی مر گئی۔ پرویز مشرف کی حکومت میں ادارے میں بے شمار فوجی برگیڈیئر،جنرل اور کرنل وغیرہ آگئے تو 2003ء میں ہم نے ایک ایسوسی ایشن بنائی۔ اس کے چیئرمین بلقیاس خان تھے جو آج کل اسسٹنٹ ڈائیریکٹرہیں۔ نیجمنٹ سے شوکاز کا نوٹس ملا تو انھوں نے یونین سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد سعادت خان چیئرمین منتخب ہوئے۔ اُ ن کی سربراہی میں ہم نے بہت ملازمین کے حقوق کے لئے جدوجہد کی۔ پہلے یہ یونین صوبائی تھی لیکن پھر ہم نے سوچا کہ نادرا ایک وفاقی ادارہ ہے اور اسکی یونین بھی وفاقی ہونی چاہیے۔ ہم چند دوستوں نے ہمت کی اور پورے پاکستان کا دورہ کر کے تمام دوستوں کی مشاورت سے رجسٹریشن ایسوسی ایشن سے نام تبدیل کر کے آل پاکستان نادراایمپلائیز یونین قائم کی۔ یہ یونین 9 اکتوبر 2012ء کو رجسٹر ڈ ہوئی اور میں اس کا پہلا مرکزی صدر منتخب ہوا۔

آپ نے جب دوبارہ یہ ایسوسی ایشن بنائی تو اس وقت کیا حالات تھے ؟ کیا مشکلات آپ کے سامنے پیش آئیں اور آپ نے ملازمین کو کیسے اکھٹا کر لیا؟
اس وقت یہ حالت تھی کہ ہم نے ایک مرتبہ جناح پارک میں 5 بندوں کی میٹنگ کی۔ ہمارے ساتھ ایک اخبار کار پورٹر بھی تھا اور ان پانچ بندوں میں نیجمنٹ کا ایک مخبر بھی شامل تھا۔ وہ ہماری حکمت عملی کی خبرمنیجمنٹ کو دیتا رہا۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ یہ منیجمنٹ کا مخبر ہے۔ منیجمنٹ نے انتقامی کاروائی کر کے ہمیں شوکاز کے نوٹس جاری کئے اور ہمارے تبادلے چترال اور کوہستان کر دئیے گئے۔ اس وقت کی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد کا اضافہ کیا لیکن نادرا نے ہمار ی تنخواہیں نہیں بڑھائیں۔ اس کے بعدایک بعد پھر سرکار نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 15 فیصد بڑھائیں لیکن ہماری تنخواہیں نہ بڑھائی گئیں۔ اس ظلم کے جواب میں ہم یکجاہوئے اور 30 فیصد اضافے کے مطالبے پر تحریک چلائی۔

آج نادرا کے محنت کشوں کے مسائل کے حوالے سے منیجمنٹ کا کیا رویہ ہے؟
منیجمنٹ کا رویہ نتہائی ہتک آمیز ہے۔ جب سے ہمارے ملازمین ریگولر ہوئے ہیں ان سے پر انے سروس سٹرکچر لے لئے گئے ہیں اور نئے سروس سٹرکچر ابھی تک نہیں ملے۔ افسران ملازمین کو ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ انتظامیہ نے آج تک ہمارے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کیا۔

آپ نے نادرا کے محنت کشوں کی مستقل ملازمت کے لیے احتجاجی تحریک کب شروع کی تھی؟
ہم نے ملازمین کی مستقلی کے لیے احتجاجی تحریک کا باقاعدہ آغاز تو 2007ء سے کیا تھا لیکن اس سے پہلے بھی میں نے 2004ء میں نے خوداکیلے ہی ایک بھوک ہڑتالی احتجاج کیا تھاجس میں میرے ساتھ میرے اپنے بچے بھی تھے۔ اس احتجاج کو ملازمین میں کوئی پزیرائی نہیں ملی لیکن میں انہیں دکھانا چاہتا تھا کہ فوجی جرنیل اور بیوروکریٹ کا مقابلہ صرف طبقاتی جدوجہد سے کیا جاسکتا ہے۔ اس بھوک ہڑتا ل کے نتیجے میں مجھے کئی ساتھی ملے۔ پھر ہم نے مل کر 2006ء سے لے کر 2011ء تک بڑے دھرنے دئیے۔ منیجمنٹ نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے پہلے پہل تو ہمارے تبادلے کردئیے اور بعد ازاں ہماری سروسز کو بھی ختم کردیا گیا۔ ہم تکلیفیں برادشت کرتے رہے اور2012ء میں ہم نے اسلام آباد ڈی چوک میں بھوک ہڑتال کی۔ چھ دنوں تک ہم اسلام آباد کی سڑکوں پر بیٹھے رہے اور پولیس نے ہم پر لاٹھی چارج بھی کر کے ہمارے ساتھیوں کو گرفتار بھی کیا۔ لیکن پھر بھی ہم نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔ آخر کار منیجمنٹ کو مجبور ہوکر ہمارے مطالبات ماننے پڑے اور ہماری ملازمتوں کو مستقل کیا گیا۔

کیا آپ کے خیال میں یہ احتجاجی تحریک اپنی منزل تک پہنچ گئی تھی؟
جزوی طورپر۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم افسر شاہی کو نہ توڑسکے۔ پھر ہمارے ساتھ دھوکہ کیا گیااور آج تک ہمیں سروس سٹرکچر کی کوئی بھی سہولت نہیں دی گئی۔ یہاں تک کہ آج تک ہمیں سروس بک بھی نہیں دی گئی۔ لیکن آج پھرہم ایک نئے جوش وجزبے سے ایک تحریک کا آغاز کررہے ہیں۔ یہ تحریک ادارے کو افسر شاہی اور فوجی جرنیلوں سے پاک کرنے تک جاری رہے گی۔ ہماری منزل ادارے کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہے۔

نادرا ایک وفاقی ادارہ ہے اور وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔ کیا نادرا کے محنت کشوں کو بھی دوسرے وفاقی اداروں کے ملازمین کی طرح سہولیات میسرہیں؟
2000ء آرڈیننس کے تحت اس ادارے کا اپنا ایک قانون اور ضابطہ ہے لیکن ہمیں حیر ت ہوتی ہے کہ وہ قانون آج تک ہمیں دکھایا نہیں گیا۔ ملازمین کی سہولیات برائے نام ہیں۔ ایک اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے۔ باقی اداروں کو اگر دیکھا جائے تو انکے رولز تحریری شکل میں موجود ہیں۔ لیکن نادرا میں جو افسران کی مرضی ہو وہی قانون بن جاتا ہے۔ آج تک ہم کو وفاقی اداروں کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ 2000ء کے آ رڈیننس کے مطابق صرف افسر شاہی کو تمام تر سہولیات میسرہیں۔

آج آپ ٹریڈ یونین کی سیاست کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟
آج ہم سب انفرادی مفادات کی سوچ رکھتے ہیں۔ ہمیں یہ نفسیات ختم کرنا ہوگی اور اجتماعی بنیادوں پر سوچنا ہو گا۔ تمام اداروں کے محنت کشوں کی طبقاتی جڑت ہی نجا ت کا واحد راستہ ہے۔