روسی طیارے پر حملہ، اشتعال یا انتقام؟

| تحریر: لال خان |

مذہبی دہشت گردی کے ہاتھوں برباد ہوتی دنیا میں غربت، محرومی، بیگار، ہجرت اور ماحولیاتی تباہی سے تاراج اربوں انسانوں کی زندگی اجیرن ہے۔ بنیاد ی وجہ گلتا سڑتا سرمایہ دارانہ نظام ہے جو عالمی سطح پر کوئی سیاسی استحکام اور معاشی ترقی دینے سے قاصر ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جاری مسلسل تباہی اور تشدد اسی متروک نظام کی بوسیدگی کا ہی اظہار ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں میں حالات بد تر ہی ہوئے ہیں۔ آج کل تاریخ کی سب سے بڑی فوجی قوتیں مذہبی جنونیوں کے ایک نیم منظم گروہ ’داعش‘ پر بمباری کر رہی ہے لیکن نتائج بڑے مبہم ہیں، الٹا بمباری کرنے والی قوتوں کے درمیان اختلافات شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ترک تیاروں کا روسی بمبار جہاز مار گرانا پہلے سے انتہائی نازک صورتحال میں خطرناک اشتعال انگیزی ہے۔
turkey supporting isisیہ واقعہ کوئی حادثہ تھا نہ ہی ترک حکومت کی خواہش اور احکامات کے بغیر ہوا۔ خطے میں اردگان کے عزائم ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ وہ سلطنت عثمانیہ کی طرز پر وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے بڑے علاقوں پر ترک کنٹرول کا خواہاں ہے۔ ان عزائم کے لیے وہ ترک زبانیں بولنے والوں مثلاً ترکمانوں کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس طرح ماضی میں زارِ روس اپنی توسیع پسندانہ خارجہ پالیسی کے لیے جنوبی سلاوی نسل کے لوگوں کو استعمال کرتا تھا۔ یہ کوئی راز نہیں رہا کہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور شام کی زمین ہتھیانے کے لیے داعش کی عسکری اور مالی مدد میں اردگان پیش پیش ہے۔ اس نے شام میں بربریت کرنے والے مذہبی جنونیوں کے لیے ترکی کی سرحد کھول رکھی ہے اور تیل کی فروخت میں داعش کو سہولت دے رہا ہے، بلکہ اس سے خود بھی منافع کما رہا ہے۔ علاوہ ازیں ترک ریاست داعش سے برسر پیکار کردوں پر بد ترین جبر کر رہی ہے۔
مغربی سامراجی اس حقیقت پر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں کہ ترک اور ان کیساتھ سعودی، کویتی، اماراتی اور قطری حکمران شام میں جہادیوں کو (بشمول داعش) اسلحہ اور پیسہ دے رہے ہیں۔ لیکن شام میں روس کی مداخلت سے صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ حالیہ چند ہفتوں میں کردوں نے قابلِ ذکر پیش قدمی کی ہے۔ روسی بمباری نے شام اور ترکی کی سرحد پر داعش کی رسد میں بھی خاصاخلل ڈالا ہے جس سے اردگان کو خاصی تکلیف ہوئی ہے۔
پیرس میں ہونے دہشت گرد حملوں کے بعد سفارتی محاذخاصا گرم ہے۔ پیرس حملے کے بعد فرانس، برطانیہ اور امریکہ با دل ناخواستہ شام میں داعش کے خلاف روسی مہم کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ شام کے مستقبل میں فیصلہ کن کردار پیوٹن کا ہے اور مغربی طاقتیں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ترکی میں ہونے والے جی ایٹ اجلاس میں پیوٹن اور اوباما کے درمیان طے پانے والی ڈیل ترک اور سعودی حکمرانوں کے مفادات سے متضاد ہے۔ مغرب کو روس کی دھونس کے پیش نظر بشار الاسد کی حکومت کو فی الوقت برداشت کرنا پڑ رہا ہے، کم از کم مسئلہ ’’مذاکرات کے ذریعے حل‘‘ ہونے تک۔ انہیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑا ہے کہ شام میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی داعش تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کا دائرہ نصرہ فرنٹ اور دوسرے القاعدہ نواز گروہوں (جو وحشت میں داعش سے کم نہیں)تک پھیلایا جائے گا۔ مختصراً یہ کہ روس اور مغرب کے درمیان ڈیل میں ترکی اور سعودی عرب شامل نہیں ہیں۔ اکتوبر میں ’سیرئین ڈیموکریٹک فورسز‘ کے قیام کے وقت بھی یہ واضح تھا۔ مغربی ممالک کی مدد سے قائم ہونے والے اس اتحاد میں ترکی، قطر، کویت اور سعودی پراکسی گروپوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
روسی مداخلت کے بعد سے سعودیوں نے اپنے بنیاد پرست پراکسی گروہوں کو اسلحہ کی ترسیل میں اضافہ کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ترک اور سعودی حمایت یافتہ گروہوں نے امریکی حمایت یافتہ گروہوں کے خلاف حملے تیز کر دئیے ہیں۔ نصرہ فرنٹ نے کرد شہر عفرین پر حملے کی دھمکی دی ہے اور امریکہ کے حمایت یافتہ ’جیش الثوار‘ کے خلاف حملے کا انتباہ بھی کیا ہے۔ ترکی، سعودی عرب اور قطران جہادی گروہوں کی برسوں سے مدد کر رہے ہیں اور انہیں اربوں ڈالر دے چکے ہیں۔ روس اور بشار الاسدکے ساتھ مفاہمت ان کے مفادات پر کاری ضرب کے مترادف ہے، خصوصاً اردگان کے لیے، جو خود کو ایک مظبوط عثمانی سلطان بنا کر پیش کر رہا ہے لیکن داخلی حالات اس کے تخت کو لرزا رہے ہیں۔
اردگان حکومت کی جانب سے روسی طیارہ گرانے کا بنیادی مقصد روس کو ترکی کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے مشتعل کرنا ہے۔ واضح رہے کہ ترکی نیٹو کا ممبر ہے اور روسی حملے کی صورت میں نیٹو کو ترکی کے دفاع کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے، یعنی ماسکو سے تعلقات توڑنے ہوں گے۔ ایسے میں روس کی پوزیشن کمزور ہو گی، ترکی شام میں مداخلت جاری رکھ پائے گا اور اس کی جہادی کٹھ پتلیاں سکھ کا سانس لے سکیں گی۔ لیکن اردگان کا یہ داؤ کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ترکی کہنے کو امریکہ کا اتحادی ہے لیکن وہ اپنے ایجنڈے اور مفادات کو آگے بڑھا رہا ہے جو موجودہ وقت میں امریکی سامراج کے مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ در حقیقت اردگان طاقت اور کشیدگی کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اہمیت جتانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مغربی قوتیں ان چالبازیوں سے خاصی خائف ہیں، لیکن مجبور بھی۔
اردگان نے پیوٹن کو اشتعال دلایا ہے۔ پیوٹن کی شخصیت، کردار اور نفسیات کو مدنظر رکھا جائے تو وہ معاف کرتا ہے نہ ہی بھولتا ہے۔ اگرچہ وہ غیض و غضب کا اظہار کرے گا لیکن ایک طیارے کی تباہی وسیع تر پالیسی کے سامنے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ روسی جواب میں کچھ نہیں کریں گے۔ اس واقعے کے بعد پہلے بیان میں پیوٹن نے کہا ہے کہ ترکی نے پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے اور دہشت گردوں کی مدد کی ہے۔ اس نے یہ زور دے کر کہا ہے کہ طیارہ ترک سرحد سے ایک کلو میٹر دور جا رہا تھا نہ کہ اس کی جانب پرواز کر رہا تھا، یعنی اس سے ترکی کی قومی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں تھا، مزید یہ کہ روسی طیارہ شام کے لداقیہ صوبے میں ان دہشت گردوں کو نشانہ بنا رہا تھا جن میں کئی روس سے آئے ہیں اور ’’اس واقعے سے روس اور ترکی کے تعلقات بری طرح متاثر ہوں گے‘‘۔
turkey russia cartoonروس کے اندر پیوٹن کی ساکھ ’’روس کے دشمنوں کے خلاف کھڑے ہونے والے طاقتور شخص‘‘ کے امیج پر منحصر ہے۔ چنانچہ وہ اردگان کو اس بے عز تی کی سزا نہ دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ سزا کیا ہو گی، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ وہ جو بھی اقدام اٹھانے کا فیصلہ کرے گا، امریکیوں کو اس کی پیشگی اطلاع دے گا۔ امریکی اسے پسند کریں نہ کریں، لیکن ان کے پاس برداشت کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
اس واقعہ کے فوراً بعد ترکی نے روس سے رابطہ کرنے کی بجائے نیٹو کا ہنگامی اجلاس بلایا جس کا مطلب ہے کہ ترکی نیٹو سے داعش کی مدد کروانا چاہتا ہے۔ امریکی، اردگان کو بچانے کے لیے اس لڑائی میں شامل نہیں ہونا چاہیں گے۔ اپنی حرکتوں کی وجہ سے اردگان ان کے لیے درد سر بنتا جا رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح امریکی بہت شور مچائیں گے، لیکن کریں گے کچھ نہیں۔ امریکہ کو شام میں کنٹرول سے باہر ہو جانے والے جہادیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے روس کی مدد درکار ہے۔ یہ ان کی پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے، بلکہ تمام پالیسی ہی یہی ہے۔
’’تحقیقات‘‘ ہونے تک صبر سے کام لینے کے مسلسل مطالبوں سے ظاہر ہوتا ہے واشنگٹن والے خاصے پریشان اور متذبذب ہیں۔ امریکہ اور یورپی طاقتیں شام کی پیچیدگی میں اس حد تک پھنس چکے ہیں کہ انہیں مسئلے کے حل میں روس کی شمولیت تسلیم کرنی پڑ رہی ہے۔ روسی طیارے کی تباہی کے بعد وہ روسیوں کو پر امن اور ترکوں کو حد میں رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے لیکن اس سے کچھ بھی حل نہیں ہو گا۔ دہشت گردی، بحران اور جنگوں کی جڑیں اس بیمار نظام میں ہیں جس کا خاتمہ نہ کیا گیا تو سرمایہ داری کی بیماری نسل انسانی کو ایک کے بعد دوسرے خطے میں برباد کرتی چلے جائے گی۔

متعلقہ:

شام کی آگ پیرس میں…

شام: مغربی سامراج کی تضحیک