مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!

[تحریر: الیاس خان]
جب کسی سماج میں معاشی بحران اپنی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے تو جرائم کی سنگینی، رفتار اور تعداد بھی بڑھتی ہے۔ ان حالات میں ریاست اور حکمران طبقہ حالات پر قابو پانے اور استحصالی نظام کے تسلسل کے لئے خوف اور جبر کے نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ جرائم کے انسداد کے لیے سخت قوانین اور سنگین سزاؤں کا اجراء کیا جاتا ہے۔ مجرموں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر جیلوں کی تعداد میں اضافہ کیا جاتا ہے، جرائم پر کنٹرول کے لیے نئی پولیس چوکیاں اور تھانے تعمیر کیے جاتے ہیں، روایتی عدالتوں کے ساتھ ساتھ ’’خصوصی‘‘ عدالتیں بھی متعارف کرائی جاتی ہیں۔ آج پاکستانی عدلیہ کے تذبذب ہی کو دیکھ لیں۔ ۔ ۔ کبھی اینٹی کرپشن عدالتیں، کبھی احتساب عدالتیں، کبھی انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں، کبھی پرائس کنٹرول عدالتیں تو کبھی شرعی عدالتیں وغیرہ وغیرہ، لیکن جرائم ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ پاکستانی ریاست نے کرپشن اور جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف ادارے مثلاً اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ، نیشنل اکاونٹ ابیلیٹی بیورو وغیرہ قائم کئے مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ خوف وہراس پھیلانے کے لیے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو تختہ دار پر چڑھانے کے باوجود بھی قتل و غارت گری کے واقعات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔

اگر ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جب سماجوں میں دولت کا ارتکاز بڑھتا ہے تو جرائم کی شرح میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہوتا ہے۔ ان حالات میں سخت ترین سزائیں بھی جرائم کا سد باب کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ یورپ، بالخصوص انگلستان میں جیب کتروں کو سزائے موت دی جاتی تھی اور انہیں کھلے میدانوں میں سرعام پھانسی پر لٹکا یا جاتا تھاتاکہ باقی لوگ عبرت پکڑیں، لیکن عین اس وقت جب جیب کترے کو پھانسی پر لٹکایا جاتا تھاتو تماشا دیکھنے والوں کی بھیڑ میں کئی لوگوں کی جیبیں کٹ رہی ہوتی تھیں۔
جرائم کو روکنے کے لئے سنگین سزائیں دینے کا تصور خاصا پرانا ہے۔ سزائے موت کی تجویز محض قاتلوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ بعض معاشروں میں معمولی نوعیت کے جرائم پر بھی تعزیری قانون کے تحت یہ سزا دی جاتی ہے۔ لیکن حکمران طبقہ زیادہ تراس سزا سے مستثنیٰ قرار پاتاہے۔ جنرل ضیاء الحق کے جابرانہ دور میں عوام کو تابع رکھنے کے لئے مارشل لاء کورٹس کا جال پھیلایا گیا لیکن بڑے مگر مچھ سرمائے کی طاقت کے بلبوطے پر سزاؤں سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔ آج کی طرح قبل از مسیح کی یونانی ریاستوں میں بھی حکمران طبقات کے خلاف بغاوت اور فرسودہ رسومات کے خلاف منطقی دلیل دینے والوں کو سزائے موت دی جاتی تھی۔ سقراط کو اسی ’’جرم‘‘ میں زہر کا پیالا پینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ آج سعودی عرب جیسی رجعتی ریاستوں میں چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا بھی نئی نہیں ہے بلکہ یہ بہت سے قدیم سماجوں میں بھی مستعمل تھی لیکن چوری ختم نہیں ہوئی۔
حکمران طبقے اور ان کے دلال دانشور وں کے بقول عدالتیں معاشرے میں انصاف قائم کرنے کے لیے تشکیل دی جاتی ہیں۔ یہ دعویٰ حقائق کے برعکس ہے۔ اگر معاشرے میں انصاف قائم ہوجائے تو پر عدالتوں کے وجود کا جواز ہی ختم ہوجا تا ہے۔ اسی طرح پولیس کے ادارے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یہ جرائم کے خاتمے اور امن وامان قائم کرنے کیلئے ہے۔ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سماج سے جرائم کا خاتمہ ہوجائے تو پھرپولیس کے ادارے کے وجود کا جواز کیا رہ جاتا ہے ؟ لہٰذہ حقیقت یہی ہے کہ عدلیہ اور پولیس جرائم کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ اس کے استحصالی نظام کے تحفظ کے لئے قائم کی جاتی ہیں۔
کارل مارکس نے عدلیہ کے بارے میں کہا تھا کہ ’’عدلیہ استحصالی نظام کو قائم رکھنے کے لیے فصیل کا کردار ادا کرتی ہے۔‘‘ دراصل حکمران طبقہ، بورژوا دانشور اور استحصالی نظام کی دلالی کرنے والے صحافی جرائم کے ارتکاب کی وجوہات تلاش کرنے یا سماجی بیماریوں کی حقیقی وجوہات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ عناصر استحصالی اور ظالمانہ نظام قائم رکھ کر جرائم کا خاتمہ کرنے کا ناٹک رچاتے ہیں۔ حکمران فہم و دانش عدالتوں کو مقدس ادارہ بنا کر پیش کرتی ہے۔ ان کا کوڑ ھ زدہ دعویٰ ہے کہ یہ عدالتیں جرائم کا خاتمہ کریں گی۔ بوارژوا ریاست اور اس کی عدالتیں سینکڑوں سالوں سے قائم ہیں اور اس عرصے میں جرائم اور بدامنی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ پاکستا ن کا ہرشہری اس حقیقت سے واقف ہے کہ اس ریاست کا عدالتی نظام کرپشن اور ناانصافیوں میں لتھڑا ہوا ایک ناسور ہے۔ رنگ برنگی عدالتوں کے قیام، سنگین سزاؤں کے اجراء اور سخت قوانین کے باوجود جرائم کی شرح میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔ عدالتی قہر اور سزاؤں کی زد میں صرف بے گناہ، کمزور اور مجبور لوگ ہی آتے ہیں جبکہ معاشی ومالیاتی غلبہ رکھنے والے سماج دشمن عناصر ریاستی قوانین، پولیس اور عدالتوں کے شکنجے سے بچ نکلتے ہیں۔
سقراط کی پھانسی سے قبل قدیم یونان کے ایک ذہین دانشور ’’سلون آف ایتھنز‘‘(633-588 قبل از مسیح) نے عدالتی قانونی کی تعریف کچھ یوں کی تھی کہ ’’عدالتی قانون مکڑی کے جالے کی مانند ہوتا ہے جس میں چھوٹی چیزیں پھنس جاتی ہیں جبکہ بڑی چیزیں اسے چیر کر نکل جاتی ہیں۔‘‘
جو ریاست اور معاشی نظام عوام کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم نہ کرسکے تو ایسے معاشرے میں چاہے عدالتوں کا جمعہ بازار ہی کیوں نہ لگا دیا جائے، قوانین اور ضابطوں کے کوہ ہمالیہ کھڑے کردیئے جائیں، سزاؤں کے جال بچھا دیئے جائیں، قلعہ نما جیلیں تعمیر کردی جائیں۔ ۔ مگر جرائم کبھی ختم نیں ہونگے۔ ان میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ نئے جرائم کے ساتھ ساتھ پرانے جرائم کے نئے طریقے متعارف کروائے جائیں گے۔
نظامِ سرمایہ داری کبھی جرائم کاخاتمہ نہیں کرسکتا کیونکہ جرائم اس استحصالی نظام کی پیداوار ہیں۔ خاص طور پر معاشی زوال کے عہد میں معاشرتی افراتفری اور انارکی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لینن نے کہا تھا کہ ’’جب غربت انقلاب برپا نہیں کرتی تو جرائم پیدا کرتی ہے۔‘‘ مقدے بازی اور جرائم اس استحصالی نظام کا ہی تحفہ ہیں۔ اس نظام کو تبدیل کر کے ایک متبادل سوشلسٹ معاشرہ قائم کیے بغیر نہ تو جرائم ومقدے بازی ختم ہوگی اور نہ ہی دیگر سماجی مسائل سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔ جرائم ومسائل کے خاتمے کے لئے اس نظام کاخاتمہ ضروری ہے جس کی کوکھ سے ہر سماجی برائی جنم لیتی ہے۔ تاہم سرمایہ دارانہ نظام کو ایک شعوری جدوجہد کے بغیر منہدم نہیں کیا جاسکتا۔ 1917ء میں لینن اور لیون ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا کیا جانے والا بالشویک انقلاب دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے ایک درخشاں مثال ہے جس کے ذریعے روس میں سرمایہ داری اور جاگیرداری کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کی کاوش کی گئی۔ چے گویرا نے کہا تھاکہ’’جب ناانصافی قانون بن جائے تو بغاوت فرض بن جاتی ہے۔ ‘‘ آج ایسی ہی ایک بغاوت کی ضرورت ہے!

متعلقہ: بکاؤ انصاف