مصر میں مورسی کا نام نہاد ریفرنڈم؛ عوام بمقابلہ فرعون

[تحریر: راشد خالد]
مصر میں 14دسمبر کو ہونے والے ریفرنڈم کے حتمی نتائج ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے۔ ریفرنڈم کے پہلے مرحلے کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق محمد مورسی کے صدارتی آرڈیننس کے حق میں 56.5 فیصد ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ ووٹوں کی یہ تعداد بھی اخوان المسلمون کے نمائندوں نے بتائی ہے۔ اخوان کی طرف سے اس اعلان کے بعد پورے مصر میں اخوان کے حامی جشن منا رہے ہیں مگر حقائق اس کے بالکل متضاد ہیں۔ مصر سے آنے والی رپورٹس کے مطابق ریفرنڈم کے پہلے حصہ میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم (صرف 32) فیصد رہا ہے یعنی اہل ووٹروں کی بڑی تعداد تقریباََ 68 فیصد نے اس ریفرنڈم کو سرے سے رد کرتے ہوئے اس عمل میں حصہ ہی نہیں لیا۔ حسنی مبارک کے مستعفی ہونے کے بعد صدارتی انتخابات میں جو ٹرن آؤٹ بتایا گیا تھا (51فیصد) وہ اس سے بہت زیادہ تھا۔ ٹرن آؤٹ میں یہ مسلسل کمی واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ عوام ان نام نہاد جمہوری طریقوں سے بیزار ہوتے جارہے ہیں اور جمہوریت کے نام پر مزید بیوقوف بننے کو تیار نہیں ہیں۔ دوسری طرف نام نہاد ’’میڈیا اپوزیشن‘‘ نے مورسی کے خلاف احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اور ریفرنڈم کے دوسرے مرحلے کے نتائج آنے تک کسی بھی قسم کے غیر سرکاری نتائج کو ماننے سے انکار کر دیاہے، لیکن حقیقی اپوزیشن جو مصر کے عوام ہیں انہوں نے ریفرنڈم کے عمل میں شرکت نہ کر کے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔
یہ ریفرنڈم صدارتی آرڈیننس کے خلاف مصری عوام کے شدید احتجاج کے بعد کروایا جا رہا ہے، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اخوان نے اپنے عوام کے شدید غم و غصے کے پیشِ نظر اپنے ردِ انقلابی اقدامات کو قانونی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ متنازعہ صدارتی آرڈیننس کے تحت صدر مورسی لا امتناعی اختیارات حاصل کرنا چاہتا ہے مگر عوام نے اس طرح کے کسی بھی اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے اور ایک بار پھر احتجاج کا راستہ اپنا یا۔ تحریر اسکوائر ایک بار پھر بھرنا شروع ہو گیا اور لاکھوں لوگ وہاں جمع ہو گئے۔ 27 نومبر کو ہونے والے احتجاج کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مصری تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج تھا، مبارک کے خلاف ہونے والے احتجاجوں سے بھی بڑا اور ان مظاہروں میں نعرے لگائے جا رہے تھے کے ’’اخوان المسلمون نے انقلاب کے چوری کیا ہے‘‘ اور ’’اخوان المسلمون جھوٹوں کا ٹولہ ہے‘‘۔ صدارتی آرڈیننس کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کی مانگیں اس سے بہت آگے کی ہیں اور انہوں نے اخوان المسلمون کی حکومت کو ہی ماننے سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’’ہم حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں‘‘۔
کوئی بھی انقلابی تحریک، مختلف مراحل سے گزرتی ہے اور ان مراحل میں عوام اور محنت کش طبقہ، حکمران طبقے کے اقدامات اور حرکات کا بغور تجزیہ کرتے ہیں۔ بالخصوص ایک ایسی تحریک کو ہائی جیک یا زائل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے جو اپنی طاقت کے بل پر ایک مضبوط آمر کو چند ہفتوں میں اڑا کے رکھ دے اور ریاست کو پسپا ہونے پر مجبور کر دے۔ بعض صورتوں میں ایسی کوئی بھی کوشش تحریک کو مزید مشتعل کرنے کا سبب بن سکتی ہے جو کہ ہمیں مصر میں نظر آرہا ہے۔ عوام کو اپنی تحریک کی طاقت کا اندازہ ہے، فی الوقت انہوں نے کسی بھی حکمران کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے اور نہ ہی اقتدار میں بیٹھی کسی پارٹی پر مکمل اعتماد کیا ہے۔ اخوان المسلمون کے اقتدار میں آنے کے بعد لوگ شاہراہوں اور چوراہوں سے تو وقتی طور پر ہٹ گئے تھے مگرحالات کا مسلسل باریک بینی سے مشاہدہ کر رہے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے محسوس کیا کہ مبارک کے جانے اور اخوان کے اقتدار میں آنے کے بعد کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا، اور دونوں حکومتوں میں کوئی بنیادی فرق موجود نہیں ہے تو انہوں نے دوبارہ اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے ریاست کی طاقت کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ عوامی احتجاج کا راستہ روکنے کے لئے مورسی اور اخوان نے مختلف راستے اپنائے جن میں پولیس اور فوج کے استعمال کے ساتھ ساتھ اخوان کے غنڈوں کے ذریعے مظاہرین پر تشدد بھی شامل ہے۔ اس ریاستی تشدد میں مرنے والے افراد کی صحیح تعداد ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔ تحریک کو بے قابو ہوتا دیکھ کر مورسی نے وہی راستہ اپنایا جو حکمران اور آمر عام طور پر اپناتے ہیں، یعنی تحریک کے’’جمہوری قتل‘‘ کا راستہ۔
ریفرنڈم کے پہلے مرحلے میں قاہرہ اور سکندریہ کے علاوہ 8 دیگرصوبوں میں پولنگ کروائی گئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے صوبے ہیں جن میں اخوان کے حمائیتوں کی اکثریت موجود ہے اور ان کے نتائج کو استعمال کرتے ہوئے کوشش کی جائے گی کہ ریفرنڈم کے اگلے مرحلے میں بھی اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئے جائیں۔ لیکن پہلے مرحلے میں عوام کی اتنی کم تعداد ظاہر کرتی ہے کہ ریفرنڈم کے دوسرے مرحلے میں بھی عوام دلچسپی نہیں لیں گے۔ عوام کا ریفرنڈم میں دلچسپی نہ لینا حکمرانوں کو یہ موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے اہلکاروں اور غنڈوں کے ذریعے دھاندلی کریں اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کریں۔ پہلے مرحلے کے حوالے سے آنے والی رپورٹس کے مطابق جن علاقوں میں پولنگ ہوئی ہے ان میں بہت زیادہ بے قاعدگیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ بہت سے پولنگ سٹیشنز سے پولنگ کا جائزہ لینے والی ٹیموں کو زبردستی دور رکھا گیا، کئی پولنگ سٹیشنز پر ججز بھی موجود نہیں تھے، حتیٰ کہ کئی ایک جگہوں پر تو خواتین کو ووٹ ہی نہیں ڈالنے دیا گیا۔
ریفرنڈم کے نتائج اس بات کا واضح اظہار ہیں کہ عوام اخوان کی آئینی ترامیم کو مکمل طور پر مسترد کر چکے ہیں۔ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں جبکہ اخوان نے اقتدار میں آ کر کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے عوام کی حالت زار میں کوئی بھی بہتری آ سکے۔ مصر کی معاشی حالت کی ابتری کے پیش نظر اخوان نے آتے ہی IMF سے 4.8 بلین ڈالر کے قرضے کی اپیل کی ہے تا کہ مصر کی معاشی تنگدستی پر مصنوعی طور قابو پایا جا سکے۔ پہلے سے ہی حد سے بڑھے ہوئے قرضے مصر کی ریاست کے لئے ایک وبال بنے ہوئے ہیں اور اوپر سے مزید قرضوں کا بوجھ مصری عوام کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ مزید قرضوں کے حصول کی کوششیں اس بات کی بھی غمازی کرتی ہیں کہ موجودہ حکمران بھی اپنے سے پہلے کی حکمران پرت سے کسی طور بہتر نہیں ہے، نہ ہی ان کے پاس کوئی متبادل معاشی پروگرام ایسا ہے جس سے یہ عوام کی حالت زار کو بہتر کر سکیں اور مصر میں حد سے زیادہ بڑھی ہوئی بیروزگاری کو کنٹرول کر سکیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مصر میں بیروزگاری کی شرح اس وقت 12.5فیصد ہے جو حسنی مبارک کے عہد میں 11فیصد تھی۔ جبکہ 15 سے 29 سال تک کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 77.5 فیصد ہے۔ 29 اکتوبر 2012ء کی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق مصرمیں بیروزگاروں کی کل تعداد کا 90 فیصد 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ نوجوان نسل کے لئے ابھی تک روزگار کے مواقع لگاتار سکڑ ہی رہے ہیں۔ مصر کی معیشت آنے والے دنوں میں عالمی معاشی زوال کے اثرات کے نتیجے میں مزید گراوٹ کا شکار ہو گی اور عوام کے سامنے سرمایہ داری کو مزید عیاں کر کے رکھ دے گی۔ غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملے کے دوران اسلام کے ٹھیکیداروں کی شرمناک خاموشی، اور حالیہ دنوں میں امریکہ اور مصری ریاست کے درمیان 20، F-16 طیاروں کی ڈیل نے اخوان ا لمسلمون کے اصل کردار کو مصر اور مشرقِ وسطیٰ کے عوام کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ مصری عوام انقلاب کی تلاش میں ہیں مگر ایسا کوئی حقیقی انقلابی متبادل ان کے پاس ابھی تک موجود نہیں جو مصر سے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے عوام کی حقیقی نمائندگی پر مبنی حکومت کی بنیاد رکھ سکے۔ ان حالات میں مصر کے عوام کو کٹھن تجربات سے سیکھتے ہوئے ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ آنے والے دنوں میں مصر میں بڑے پیمانے پر فسادات دیکھنے میں مل سکتے ہیں جن سے خانہ جنگی جیسی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ جلد یا بدیر اخوان المسلمون کی حکومت کو اپنی ہار تسلیم کرنے پڑے گی اور مصری انقلاب ایک نئی سمت میں گامزن ہوگا۔

متعلقہ:
مصر: انقلاب کی نئی اٹھان اور مورسی کی تذلیل کا آغاز

مصر میں مورسی کے خلاف پر تشدد مظاہرے، اخوان المسلمون کے دفاتر نذرِ آتش

اخوان المسلمون کی جیت؛ لگا ہے مصر کا بازار دیکھو

مصر میں مورسی کی ردانقلابی فتح

مصر: رد انقلاب سے کیسے لڑا جائے؟