کابل میں عوامی تحریک کا ابھار

| تحریر: حسن جان |

پچھلے مہینے افغانستان میں بے نظیر واقعات رونما ہوئے۔ ہزارہ قبائل سے تعلق رکھنے والے سات افراد، جن میں نو سال کی ایک بچی اور لڑکا بھی شامل تھا، کو ذبح کرنے کے خلاف لاکھوں لوگ کابل کی سڑکوں پر احتجاج کرنے کے لیے نکل آئے۔
اس وسیع مظاہرے میں افغانستان میں بسنے والی تمام قومیتوں اور مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ یہ نا ختم ہونے والی مذہبی بنیاد پرستی اور امریکی قبضے کے خلاف ایک وسیع بے چینی کی علامت تھی۔ ’’طالبان جرم کرتے ہیں اور حکومت حمایت کرتی ہے‘‘ جیسے نعرے لوگوں کی اس خواہش کا اظہار ہیں کہ وہ نہ صرف اس طرح کی بربریت کو انجام دینے والوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ اس سیاسی قیادت سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں جو اس طرح کے واقعات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
یہ دہشت گرد حملہ، جس کے رد عمل میں تحریک کا آغاز ہوا، لوگوں کو فرقہ اور نسل کی بنیاد پر مزید تقسیم کرنے کے لیے کیا گیا لیکن اس کے برعکس اس عمل نے لوگوں کو بنیادپرستی اور فرقہ واریت کے خلاف متحد کر دیا۔ اشرف غنی کی قیادت میں بدعنوان سیاسی قیادت اور سامراجی دم چھلوں کے پاس لوگوں کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا اور اسی وجہ سے وہ تحریک کے نتیجے میں عوام سے مزید دور ہوگئے۔
یکم اکتوبر کو افغانستان کے صوبے غزنی کے قریب ضلع گیلان کے گاؤں رسانی سے سات ہزاروں کو اغوا کیا گیا۔ 7 نومبر کو افغانستان کے صوبے زابل سے ان کی سربریدہ لاشیں ملیں۔ مبینہ طور پر اس کام کو داعش کے جنگجوؤں نے کیا تھا۔ اس سال کے شروع میں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 31 افراد کو اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ ایران سے محنت مزدوری کے بعد افغانستان واپس آرہے تھے۔ حالیہ مہینوں میں ہزاروں کے اغوا کے واقعات تیزی سے پے در پے واقع ہورہے ہیں۔
بعض اندازوں کے مطابق ہزارہ افغانستان کی 31 ملین آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ لفظ ہزارہ فارسی زبان کے لفظ ہزار سے ماخوذ ہے جو ان زبانی روایات سے منسلک ہے کہ ہزارہ چنگیز خان کی وسطی ایشیا میں بھیجی گئی ہزار فوجیوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہزارہ زیادہ تر شیعہ مسلمان ہیں اور وہ فارسی زبان کے افغان لہجے دری یا ہزارگی زبان بولتے ہیں۔

Afghanistan protest against Hazara killings 1
مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں بے گناہ ہزارہ افراد کے قتل کے خلاف کابل میں ہونے والا مظاہرہ

ہزارہ زیادہ تر افغانستان کے مرکزی علاقے میں رہتے ہیں جسے تاریخی طور پر ہزارہ جات کہتے ہیں۔ اب بہت سے ہزارہ شہری علاقوں جیسے کابل، مزار شریف اور ہرات میں بھی رہتے ہیں۔ تاریخی طور پر انہیں مسلسل نسلی اور مذہبی جبر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ برطانوی سامراج نے ’’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘‘ کی پالیسی کو استعمال کرکے افغانستان میں نسلی تعصبات کو ہوا دی۔ امیر عبدالرحمان (1880-1901ء) کے دور میں ہزارہ قبائل سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا۔ ہزارہ آبادی کے بڑے حصے کو ہجرت کرنا پڑی اور ان کی زمینوں اور جائیدادوں کو ضبط کیا گیا۔ بہت بڑی تعداد میں لوگ کابل، برٹش بلوچستان اور ایران چلے گئے۔ اس کے باوجود بیسوی صدی میں ہزاروں پر جبر مسلسل جاری رہا۔
لیکن اسی دوران 27 اپریل 1978ء کو افغان ثور انقلاب برپا ہوا ۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان نے افغان آرمی میں اپنے کیڈرز کے ذریعے داؤد کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور ایک انقلابی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے افغانستان سے سرمایہ داری اور جاگیر داری کا خاتمہ کردیا ۔ صحت اور تعلیم کی سہولیات مفت کردی گئیں۔ مقامی سرداروں کی زمینوں کو ضبط کرکے بے زمین کسانوں میں تقسیم کیا گیا۔ انقلابی کونسل نے قومی اور نسلی اقلیتوں کے مسئلے کوبھی حل کیا۔ افغانستان کے تمام نسلی گروہوں کو برابر نمائندگی اور انہیں ملک کے برابر شہری کی حیثیت دی گئی۔ افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار تمام شہریوں کو برابر حیثیت دی گئی۔ پشتو اور دری کے علاوہ باقی مقامی اور اقلیتی زبانوں جیسے ترکمن، بلوچی، ازبکی، نورستانی وغیرہ کو بھی سرکاری حیثیت دی گئی اور ان کے تعلیمی نصاب کو ان کی مادری زبانوں میں ترتیب دیا گیا۔
اس انقلاب سے اسلام آباد، تہران، ریاض اور واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئی۔افغانستان میں اس انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری اور جاگیر داری کا خاتمہ کیاگیاتھا۔ اس انقلاب نے پاکستان، ایران، ہندوستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک میں محنت کش طبقے اور انقلابیوں کو حوصلہ دیا۔ پاکستان میں ضیا الحق کی فوجی آمریت کو پہلے ہی عوامی غم و غصے کا سامنا تھا۔ افغانستان میں ہونے والی تبدیلی پاکستان میں 1968-69ء کے خطوط پر ایک اور انقلاب کو جنم دے سکتی تھی۔ یہ پاکستان کے حکمران طبقات اور واشنگٹن کے لیے درد سر تھا۔ امریکی سامراج نے اسلام آباد میں اپنے گماشتوں کے ذریعے آپریشن سائیکلون کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کا مقصد رجعتی مجاہدین کو رقم دے کر مسلح کرنا تھا تاکہ پی ڈی پی اے کی قیادت میں انقلابی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ سی آئی اے کا اب تک کا سب سے طویل اور سب سے مہنگا آپریشن تھا۔ اس کا آغاز 1980ء میں 20 سے 30 ملین ڈالر کی فنڈنگ سے شروع ہوا اور 1987ء میں 630 ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔ اتنی بڑی رقم کو منشیات اور ہیروئین کی تجارت کے ذریعے پورا کیا گیا۔
امریکی سامراج اور اس کے علاقائی گماشتے ایسی عفریت کی پرورش کر رہے تھے جس کا ایک خاص مقام پر پہنچ کر ان کے قابو سے باہر ہوجانا عین ممکن تھا اور اپنے آقاؤں کے لیے ہی خطرہ بھی۔ 1992ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کے استعفے کے بعد یہی مجاہدین فرقے، نسل اور مذہب کے نام پر آپس میں پاگل کتوں کی طرح لڑنا شروع ہوگئے۔ یقیناًان کے درمیان اصل لڑائی علاقوں پر قبضہ کرنے اور ان علاقوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر تھی۔ امریکی سامراج نے ان مجاہدین اور جنگی سرداروں کو انقلاب کو شکست دینے کے لیے تخلیق کیا تھا لیکن لازمی نہیں ہے کہ یہ عفریت ہمیشہ اپنے آقاؤں کے اشارے پر ناچیں۔ اس عمل کی اپنی ہی ایک منطق ہے۔
اسی دوران انقلاب کو شکست ہوگئی۔ انقلاب کی تمام تر حاصلات کو تباہ کردیا گیا۔ خانہ جنگی کے دوران انفراسٹرکچر کو ہونے والے نقصانات کے حوالے سے افغانستان سو سال پیچھے چلا گیا۔ ماضی کے تمام تر تعصبات دوبارہ سر اٹھانے لگے۔ سامراجی مداخلت سے مذہبی اور نسلی اقلیتوں پر ہونے والا جبر مزید شدت اختیار کر گیا۔ طالبان کے گرد ابھرنے والی نئی وحشت نے ہزارہ کو کافر قرار دے کے ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ 1990ء کی دہائی میں ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ قبائل کی نسل کشی کی گئی۔ رد انقلاب کی کامیابی کی قیمت افغان عوام نے اس طرح ادا کی۔ پورا افغان سماج اس وحشت کے نرغے میں آگیا۔ لیکن ایک طبقاتی سماج جس پر پسماندہ جاگیردارانہ سوچ حاوی ہو وہاں نسلی اور مذہبی اقلیتیں سب سے زیادہ اس وحشت کا شکار بنتی ہیں۔
2001ء میں امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کی ’جمہوریت‘ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نعرے پر افغانستان پر حملے سے حالات بد سے بدتر ہوگئے۔ اس حملے سے افغانستان کی خانہ جنگی پاکستان تک پھیل گئی اور وہاں بھی تباہی کا آغاز ہوگیا۔ لیکن اس حملے کے بعد مزید کھلاڑی بھی میدان میں اتر آئے۔ مختلف ممالک افغانستان کے بے پناہ قدرتی وسائل پر نظر یں جمائے ہوئے تھے۔ چین ان میں سب سے آگے تھا۔ چونکہ افغانستان میں کوئی مضبوط اور مستحکم مرکزی حکومت نہیں ہے جو پورے ملک پر حکمرانی کرسکے، اس لیے مختلف سامراجی طاقتوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے مختلف طالبان گروہوں سے مراسم قائم کیے۔ پاکستان، ہندوستان، سعودی عرب اور حتیٰ کہ ایران اپنے مفادات کے لیے اپنی اپنی طالبان پراکسی کی حمایت کرتے ہیں۔
پچھلی تین دہائیوں میں افغان عوام سامراجیت اور بنیادپرستی کے ہاتھوں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسلامی بنیادپرستوں کی منافقت اور شریعت کے نام پر عورتوں اور اقلیتوں پر ظلم کو بھی دیکھا ہے۔ درحقیقت طالبان جرائم پیشہ افراد کا ایک ٹولہ ہے۔ کوئی منظم گروہ نہیں ہے۔ یہ مختلف سامراجی ممالک سے منسلک غنڈوں اور مجرموں کے مختلف گروہوں کا نام ہے۔ داعش کا ابھار اور مختلف طالبان گروہوں کی آپس کی لڑائی ہالی ووڈ کے کسی فلم میں گینگ وار کی مانند ہے جس میں ہر گروہ کسی علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس علاقے میں منشیات اور بھتہ خوری سے ہونے والی آمدنی پر قبضہ کرسکے ۔ یہ سب افغان عوام کے سامنے ننگے ہوچکے ہیں۔ درحقیقت 2001ء میں وہ امریکی حملے سے پہلے بھی ننگے ہوگئے تھے۔ 2001ء میں طالبا ن کی سماجی حیثیت ایسی تھی کہ اگر امریکہ حملہ نہ کرتا تو بہت جلد افغان عوام خود طالبان کی جابر حکومت کا خاتمہ کردیتے۔

kabul
قتل ہونے والوں میں نو سال کی بچی میں شامل تھی

ہزارہ آبادی کے سات بے گناہ افراد کے قتل کے خلاف ابھرنے والی یہ تحریک نسلی اور مذہبی تعصب کے خلاف غم و غصے کی علامت ہے۔ لیکن اس بار معاملہ کچھ مختلف تھا۔ کابل اور قریبی شہروں سے ہزاروں لوگ دارالحکومت کی سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین کے نعرے بلند شعوری سطح اور سیاسی بیداری کی عکاسی کررہے تھے۔ ایسے نعرے لگائے جارہے تھے تاکہ ہزارہ کے ساتھ ساتھ دوسری قومیتوں کے لوگوں کو بھی مظاہرے میں شامل کیا جاسکے اور تحریک کو پورے ملک میں پھیلایا جاسکے ۔ اور وہ اس کام میں کامیاب ہوگئے۔ عام پشتونوں، تاجکوں اور ازبکوں کی بڑی تعداد نے مظاہرے میں شرکت کی۔ لاکھوں لوگ صدارتی محل کے بارے جمع ہوگئے اور قتل ہونے والے ہزاروں کے لیے انصاف کا تقاضا کیا۔
جب مظاہرین کے نمائندوں اور حکومت کے درمیان صدارتی محل میں مذاکرات ہورہے تھے تو ایک سابقہ جہادی خود ساختہ ہزارہ رہنما محمد محقق نے مظاہرین کو گلی کے غنڈوں سے تشبیہ دی۔ اس تضحیک سے مظاہرین مزید بڑھک گئے اور اس خود ساختہ رہنما کے خلاف شدید نعرے بازی شروع ہوگئی۔ مظاہرین حکومت اور طالبان کی گٹھ جوڑ کے خلاف بھی نعرے لگا رہے تھے ۔’’طالبان جرم کرتے ہیں، حکومت حمایت کرتی ہے‘‘، ’’پشتون اور ہزارہ بھائی بھائی ہیں‘‘، ’’میں ایک ہزارہ پشتون ہوں‘‘، ’’صدارتی محل مردہ باد‘‘ جیسے نعرے لگائے جارہے تھے۔
درحقیقت موجودہ حکومت سابقہ جہادیوں، جنگی سرداروں اور جرائم پیشہ افراد کی حکومت ہے۔ ان کا افغان عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہیں سامراج نے عوام پر مسلط کیا ہوا ہے۔ ان جہادی غنڈوں کے خلاف عوام میں گہرا غم و غصہ ہے۔ اس غم و غصے کا اظہار چند سال پہلے اس وقت ہوا جب 2012ء میں کابل ایجوکیشن یونیورسٹی کے نام کو سابقہ جہادی برہان الدین ربانی کے نام پر رکھا گیا۔ یونیورسٹی کے طلبا، جن میں پشتون، ہزارہ، ازبک، تاجک اور دوسری قومیتوں کے لوگ شامل تھے، نے یونیورسٹی کے نام کو ایک جہادی مجرم کے نام پر رکھنے کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا۔
حالیہ احتجاج صرف ہزارہ کے قتل عام کے خلاف نہیں تھا۔ افغان عوام میں موجودہ ناقابل برداشت حالات کے خلاف شدید غم و غصہ موجود ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے۔ملک میں منشیات کے کاروبار کے علاوہ کوئی خاص معاشی سرگرمی نہیں ہے۔ افغانستان کو سامراج نے برباد کرکے پسماندگی میں دھکیل دیا ہے۔ افغان عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ہزاروں افغان بہتر زندگی کے لیے ملک چھوڑ رہے ہیں۔ زیادہ تر یورپ جارہے ہیں لیکن یورپ خود سرمایہ داری کے زوال کی وجہ سے مشکلات میں ڈوبا ہوا ہے۔ حالیہ دنوں میں افغان اور جرمن حکومت نے جرمنی سے افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ یورپ کی سب سے طاقتور معیشت کی حالت ہے ۔ باقی چھوٹی اور کمزور یورپی معیشتو ں کی کیا حالت ہوگی۔ مغربی سرمایہ داروں کا افغانستان میں اپنے کیے ہوئے گند کو صاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
سرمایہ داری کے حدود کے اندر رہتے ہوئے افغانستان کا مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوسکتا ۔ امریکی پشت پناہی میں ’جمہوریت‘ کا منصوبہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ یہ مظاہرے مغربی ممالک میں موجود اس تاثر کی بھی نفی کرتے ہیں کہ افغانستان کے لوگ بنیاد پرست ہیں اور مختلف نسلی گروہوں کے درمیان لڑائیاں افغانوں کا معمول ہیں۔ یہ مظاہرے افغانستان کی مختلف اور اصلی تصویر پیش کرتے ہیں جو یکجہتی، اتحاد، بھائی چارے اور محبت کی تصویر ہے۔ افغانوں کے درمیان اس یکجہتی اور بھائی چارے کو صرف سرمایہ داری کو اکھاڑ کر ہی قائم رکھا جا سکتا ہے۔ افغانستان کے مسئلے کا حل صرف اور صرف اعلیٰ پیمانے پر ایک نیا ثور انقلاب ہے۔