مصر میں مورسی کے خلاف پر تشدد مظاہرے، اخوان المسلمون کے دفاتر نذرِ آتش

[تحریر: عمران کامیانہ]

قاہرہ کی گلیاں گزشتہ دو دنوں سے ایک بار پھر میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ حسنی مبارک کے جانے کے بعد پہلی بارمظاہرین کی اتنی بڑی تعداد سڑکوں پر سیکھنے کو ملی ہے۔

مظاہرے اخوان المسلون سے تعلق رکھنے والے صدر محمد مورسی کی طرف سے جاری کئے جانے والے ایک صدارتی آرڈیننس کے بعد جمعرات کو شروع ہوئے۔ اس آرڈنینس کی رو سے محمد مورسی کی اتھارٹی کئی گنا بڑھ جائے گی اور وہ جمہوری صدر سے مطلق العنان آمر میں تبدیل ہو جائے گا۔ آرڈیننس کے مطابق:
* عدلیہ سمیت کوئی بھی قوت صدارتی احکامات کو رد نہیں کر سکتی۔
*ملک کے پراسیکیوٹر جنرل عبدل میگد کو معزول کر کے اپنے منظورِ نظرطلعت ابرہیم کو چار سال کے لئے اس عہدے پر فائز کر دیا گیا ہے۔
*آئین ساز اسمبلی کو کسی صورت تحلیل نہیں کیا سکتا۔
*شوریٰ کونسل (مصری پارلیمنٹ کاایوانِ بالا) کو تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔
ان اقدامات کو مصری عوام جمہوریت کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ قرار دے رہے ہیں اور مورسی کو ’’نیافرعون‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ مظاہرین کے مطابق مورسی کے یہ اقدامات مصری انقلاب کے خلاف Coup سے کم نہیں ہیں اور ان غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے اخوان المسلمون مذہبی انتہا پسندی پر مبنی قوانین کا نفاذ اور آزادی اظہار کا خاتمہ چاہتی ہے۔ اخوان المسلمون کے خلاف غم و غصے کی ایک اور وجہ غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت ہے جس پر مصری حکومت تماشائی بنی رہی اور ماضی میں کئے گئے تمام تر وعدے اور دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔ اسرائیلی جارحیت پر مورسی نے جذباتی لفاظی کرکے اخوان المسلون کے سامراج اور اسرائیل مخالف ہونے کا تاثر برقرار رکھنے کی ناکام کوشش کی لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ مصر کی مذہبی بنیاد پرست حکومت کی اصلیت لوگوں کے سامنے عریاں ہوتی جارہی ہے۔ ایک طرف یہ حکومت غربت، بیروزگاری، مہنگائی، ملکی قرضے (مصر کا قومی قرضہ GDP کے 83فیصد سے تجاوز کر چکا ہے)سمیت عوام کا ایک بھی مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی تو دوسری طرف جس جموریت کا نعرہ لگاتے ہوئے یہ اقتدار میں آئی ہے سب سے پہلے اسی پر وار کررہی ہے۔
مورسی کے خلاف مظاہرے اگرچہ جمعرات کو شروع ہوئے تھے لیکن آج نمازِ جمعہ کے بعد ان میں شدت آگئی۔ ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین تحریر سکوائر (جو کہ پہلے دن سے مصری انقلاب کا گڑھ رہا ہے) میں جمع ہوگئے اور شدید نعرہ بازی کی۔ تحریر سکوائر سے اخوان کے حامیوں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں اور پولیس کی طرف سے آنسو گیس کے استعمال کی خبریں بھی ملی ہیں۔ اسی طرح اسکندریہ میں بھی جمعے کی نماز کے بعد مخالف گروپوں میں جھڑپیں ہوئیں جن میں ایک دوسرے پر پتھراؤکیا گیا۔ AFP کے مطابق اسکندریہ میں اخوان المسلون کے دفتر پر حملہ بھی کیا گیا۔ جب کہ اسماعیلیہ اور پورٹ سعید کے علاقوں میں مظاہرین نے اخوان کے دفاتر کو آگ لگا کر مکمل طور پر تباہ کردیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 15 سے زائد افراد صرف قاہرہ میں زخمی ہو چکے ہیں۔ قاہرہ میں مظاہرین میں شامل ایک نوجوان خالد علی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے ایک کو ہٹا کے دوسرا آمر اپنے سر مسلط کرنے کے لئے انقلاب نہیں کیا تھا، مورسی صرف فرعون ہی نہیں اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے‘‘۔ اسی طرح ایک اور نوجوان علازغلول نے کہا ’’انصاف تبھی ہو سکتا ہے جب مورسی ہماری جان چھوڑے‘‘۔ آج قاہرہ میں مظاہرین چے گویرا کے پوسٹرز کے ساتھ ساتھ بینر بھی اٹھائے ہوئے تھے جن پر ’’محمد مورسی مبارک‘‘ درج تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی مارکسسٹ لینن اسٹ معروضی عنصر کی عدم موجودگی میں 2011ء میں شروع ہونے والی مصر کی انقلابی تحریک نہ صرف وقتی طور پر ٹھہراؤ کا شکار ہوئی ہے بلکہ اسے کسی حد تک پسپا بھی ہونا پڑا ہے۔ کسی انقلابی قوت کی عدم موجودگی سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا میں اخوان المسلمون کے اقتدار میں آنے کے بعد طبقاتی جدوجہد اور انقلاب کے خلاف فتوے جاری کرنے والا دایاں بازو فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے نظر آیا۔ ان حالات میں انقلاب کے نام سے خوفزدہ نام نہاد بایاں بازو، جو پہلی مصر میں اٹھنے والی محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریک کو انقلاب ماننے سے ہی انکاری تھا، یہ آہ و فریاد کررہا ہے کہ ملاؤں کے اقتدار پر براجماں ہونے کے بعد مصر کا انقلاب ختم ہو گیا ہے۔ ان نام نہاد انقلابیوں کے بارے میں لینن نے 1915ء میں لکھا تھا کہ ’’جو حضرات ’خالص‘سماجی انقلاب دیکھنا چاہتے ہیں وہ تمام عمر اس کی خواہش میں ہی گزار دیں گے، یہ لوگ انقلاب کی حقیقت جانے بغیر محظ انقلابی لفاظی کر سکتے ہیں‘‘۔

تاہم کچھ دن پہلے اردن اور اب مصر میں ہونے والے واقعات نے مارکسسٹوں کے اس تناظر کو ایک بار پھر سچ ثابت کیا ہے کہ عرب انقلاب نے اپنا پہلا مرحلہ مکمل کیا ہے اورخاص طور پر مصر کا انقلاب کسی بھی صورت شکست سے دوچار نہیں ہوا ہے۔ کوئی بھی انقلابی تحریک سیدھی لکیر میں چلتے ہوئے فتح سے ہمکنار نہیں ہوا کرتی بلکہ اتارچڑھاؤ کے مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ مصر کے عوام واقعات اور تجربے کے سخت امتحان سے گزر کر وسیع تر اسباق سیکھتے ہوئے دوررس نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ مصری نوجوانوں میں خاص کر یہ سوچ تقویت پکڑ رہی ہے کہ حسنی مبارک کے جانے کے بعد کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا اور ان کے حالاتِ زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے کسی بھی خطے میں عوام کو درپیش مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ عالمی سرمایہ داری کا بڑھتا ہوا بحران آنے والے دنوں میں مشرقِ وسطیٰ میں نئی تحریکوں کو جنم دے گا۔ گرتا ہوا معیارِ زندگی اورابتر ہوتے ہوئے معاشی حالات مصری محنت کشوں اور نوجوانوں کو ناگزیر طور پر ایسی جدوجہد میں دھکیل دیں گے جس میں وہ سرمایہ دارانہ ریاست اور نظام کو چیلنج کرتے ہوئے انقلاب کے نئے مرحلے کا آغاز کریں گے۔