سرمایہ دارانہ نظام میں تعلیم کا کاروبار

| تحریر: لاجونتی |

سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ کے ساتھ معیشت کو جس تیزی کے ساتھ ترقی حاصل ہوئی اتنی شاید ہی کسی اور نظام میں ہوئی ہو۔ اس ترقی نے وسیع تر سائنسی علم کی ضرورت کو لازمی قرار دے دیا۔ سماج کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ سماجی پیداوار میں بہت بڑے پیمانے پر ترقی ہوئی، پیداوار کے حصول کے لئے صنعتیں قائم کی گئیں اور صنعتی پیداوار کی تنظیم کے لئے ضروری ہوتا گیا کہ خام مال اور دیگر مادوں کے خواص کا مطالعہ کیا جائے، زیادہ کامیاب کاشتکاری کے لئے زراعت کا علم لازمی تھا۔ تجارت اور جہاز رانی کے فروغ کے لئے جہازوں کی پوزیشن کا بالکل صحیح اندازہ بھی ضروری تھا، وغیرہ۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ پیدوار کی ضرورت نے سائنسی علم میں اضافے کی راہ ہموار کی اور اسکے لئے لازم ہوتا چلا گیا کہ پہلے سے موجود تعلیمی اداروں کو مزید فروغ دیا جائے تاکہ اس صنعتی نظام کو ترقی دینے اور پروان چڑھانے کے لئے ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنس دان وغیرہ پیدا کئے جاسکیں۔ آج سے کچھ دہائیاں قبل تک بورژوا سماج میں فرد کا تعلیم یافتہ ہونا بڑے اعزاز کی بات سمجھی جاتی تھی اور اسے اپنا مستقبل روشن دکھائی دیا کرتا تھا۔ تعلیمی معیار بھی آج کی نسبت کہیں زیادہ بہتر تھا، کوئی فرد اگر تھوڑا پڑھ لکھ جاتا تو کہیں اچھی ملازمت کی امید کی جاسکتی تھی، دوسری عالمی جنگ کے بعد کے طویل سرمایہ دارانہ پھیلاؤ کی وجہ سے جدید صنعتی معیشتوں میں روزگار کی کوئی قلت نہ تھی، معیار زندگی اور اصلاحات میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا، فلاحی ریاستیں بن رہی تھیں، ایسے میں کچھ لوگوں کا خیال تو یہاں تک آن پہنچا تھا کہ طبقاتی کشمکش ماضی ہی کی کوئی چیزہے۔
کارل مارکس نے بہت پہلے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی لامحالہ طور پر سرمائے کے ارتکاز کا باعث بنے گی۔ ایک طرف دولت کے بے تحاشا اجتماع تو دوسری طرف یہ سماج میں غربت، محرومی کے ارتکاز کا بھی وسیلہ بنے گی۔ آج سماج کی حالت مارکس کے تناظر کے مطابق ہمارے سامنے ہے، دولت کے انبار نے سماج کو آگے بڑھانے کے بجائے دنیا میں غربت اور امارت کی ایک ایسی خلیج پیدا کر دی ہے جسے پار کرتے کرتے محنت کش گھرانوں کی نسلیں دم توڑ دیتی ہیں۔ ماضی میں جن مقاصد کے لئے تعلیم کو اتنی اہمیت حاصل تھی آج کے موجودہ عہد میں تعلیم کی افادیت اور وہ مقاصد اب نظر نہیں آتے۔ پڑھ لکھ کر، اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بھی بہتر روزگار نوجوانوں کی اکثریت کا خواب ہی بن گیا ہے۔
بورژوا ماہرین سماجیات جو اکثر انسانی سماج میں ہونے والی مسلسل تبدیلیوں سے انکار کرتے ہیں اور جن کا ماضی میں کہنا تھا کہ سرمایہ داری ہی واحد وہ نظام ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بہتر مستقبل کی ضمانت دے سکتا ہے، اب خود سرمایہ داری کے بحرانات کو دیکھ کر ششدر رہ گئے ہیں۔ بورژو ازی کے سنجیدہ نظریہ دانوں کے تمام تر دعوے جھوٹے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سرمائے کے جبر نے سماج کو اتنی تیزی سے متاثر کیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں معیار زندگی تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوا ہے۔ ترقی یافتہ مغرب کی منطق کہ ’’ہر کوئی ترقی کرسکتا ہے‘‘ اور ’’ہم سب مڈل کلاس ہیں‘‘ واقعات و حالات کے ہاتھوں مسترد ہوچکی ہے۔ نئے اداروں کی تعمیر تو درکنار اب پرانے اداروں کو تیزی سے یا تو بند کیا جارہا ہے یا نجکاری کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ سرکاری ادارے غیر سرکاری ہوتے جا رہے ہیں، یہ ساری باتیں صرف ترقی پذیر ممالک کی نہیں بلکہ دنیا کے جدید اور ترقی یافتہ ممالک آج اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔
جہاں ایک طرف امریکہ اور یورپ سمیت پوری دنیا اس معاشی گراوٹ کی صورتحال سے دوچار ہے، وہاں پاکستان جیسے ملک میں یہ گراوٹ اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ 2007ء میں ہونے والے انتخابات میں عوام نے اس امید سے اپنی سیاسی روایت، پیپلزپارٹی کو ووٹ دیکر کامیاب بنایا کہ وہ ان کے پھٹے کپڑوں پر کم از کم کوئی پیوند ہی لگا دے گی لیکن روٹی، کپڑا اور مکان کو عوام کی پہنچ سے کوسوں دور کر دیا گیا۔ تعلیم، علاج اور ہر قسم کی بنیادی سہولیات کو اس طرح چھینا گیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہی حشر تعلیم کا کیا گیا۔ تعلیم کا سرکاری بجٹ مسلسل گراوٹ کا ہی شکار رہا۔ نوکریاں فروخت کرنے کی دکانیں چمکائی گئیں اوروفاقی اقتدار سے لے کر سندھ کی صوبائی حکومت تک،بڑی تعداد میں جعلی بھرتیاں کرنے کا عمل جاری و ساری ہے۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود، اب رشوت دے کر بھی نوکری نہیں ملتی۔ جن لوگوں نے روزگار حاصل کربھی لیا انہیں کچھ عرصے بعد ہی جعلی بھرتیوں کے الزام میں خارج کردیا جاتا ہے اور رشوت کا یہ چکر پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔ کئی حکمران مال بنا کر ملک سے باہر جا چکے ہیں اور اب ان کی جگہ نئے لٹیروں نے لے لی ہے۔ سندھ کے کئی تعلیمی اداروں کو این جی اوز کو دینے اور ان کی نجکاری کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں جس سے تعلیم تک غریب عوام کی بچھی کھچی رسائی بھی ختم ہو جائے گی۔
pakistan education budget cartoonپچھلے دنوں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 54 فیصد ہے اور اس میں دو فیصد کمی ہو چکی ہے۔ یونیسکو کی 2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق نائجیریا کے بعد پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق 27 ملین ایسے بچے جن کی عمر اسکول جانے کی ہے، وہ اسکول نہیں جاتے۔ ان بچوں میں 50 فیصد کا تعلق پنجاب، 78 فیصد کا تعلق بلوچستان، 61 فیصد سندھ جبکہ 65 فیصد کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔
اس وقت پاکستان میں ایک لاکھ 63 ہزار پرائمری اسکول موجود ہیں جس میں 40 ہزار لڑکیوں کے اسکول ہیں، ان اسکولز میں 15 ہزار پنجاب، 13 ہزار سندھ، 8 ہزار خیبرپختونخوا اور 4ہزار بلوچستان میں ہیں جبکہ 250 گرلز کالجز ہیں۔ یہ تمام تر اسکول اتنی بڑی آبادی میں آٹے میں نمک کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے اسکول بھی پوری طرح فنکشنل نہیں ہیں۔ خواتین کی حالت خاص طور پر ابتر ہے۔ اس وقت ملک بھر میں7 ملین لڑکیاں دس سال سے کم عمر تک کی صرف پرائمری تعلیم حاصل کرتی ہیں، 5.4 ملین لوئر سیکنڈری میں زیر تعلیم ہیں، 3 ملین ہائر سکنڈری میں تعلیم حاصل کرتی ہیں، 1.5 ملین کالج میں اور صرف 0.5ملین یونیورسٹی کی سیڑھیاں چڑھنے کے قابل بنتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہاں خواندگی کا تعین کچھ اس طرح سے ہے کہ جو لوگ صرف اپنا نام بھی لکھ سکتے ہیں انہیں خواندہ شمار کیا جاتا ہے!
سرکاری شعبہ تیزی سے روبہ زوال ہے۔ 31 فیصد تعلیمی شعبہ، نجی اداروں کے قبضے میں ہے اور یہ شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نجی اداروں میں تعلیم کو اس قدر مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے کہ عوام کی اکثریت اس بارے سوچ بھی نہیں سکتی۔ دوسری جانب سرکاری سکول نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ کھنڈرات میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ پسماندہ علاقوں میں یہ سکول صرف سرکاری کاغذوں میں ہی موجود ہیں اور ان کی عمارات وڈیروں یا جاگیر داروں کی ملکیت میں شامل ہوچکی ہیں۔
بہت سارے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ شاید یہ تمام تر برائیاں ’’گڈ گورننس‘‘ سے ختم کیا جاسکتی ہیں، این جی اوز سے لیکر کئی ایک نام نہاد ’’پڑھے لکھے حلقوں‘‘ کا بھی یہی ماننا ہے کہ اگر ان اداروں کو پرائیویٹ کردیا جائے تو حالات بہتر ہوجائیں گے۔ جو لوگ اس بات کی دلیلیں پیش کرتے ہیں وہ دراصل اس نظام کی متروکیت کو جان بوجھ کر ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جی ڈی پی کا ایک یا دو فیصد جب تعلیم پر خرچ کیا جائے گا تو اس سے شعبے کے بنیادی انتظامی اخراجات بھی پورے نہیں ہوں گے۔ ایسے میں ’’گڈ گورننس‘‘ کیا کرسکتی ہے؟ اور پھر آبادی کا کتنے فیصد حصہ پہلے سے موجود نجی تعلیمی اداروں سے تعلیم خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یہ شرح شاید پانچ یا دس فیصد سے زیادہ نہیں ہو گی۔
آج یورپی ممالک میں، جہاں تعلیم بالکل مفت ہوا کرتی تھی، اب نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے بینکوں سے قرضے لینے پڑرہے ہیں۔ وہاں بھی نجکاری کی وجہ سے تعلیم عام انسان کی پہنچ سے دور ہی جا رہی ہے۔ ایک طرف نجکاری کے بڑھتے ہوئے حملے تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی بیروزگاری تمام انسانی سماج کو بربریت کے دلدل میں دھکیل رہی ہے۔ نوجوانوں کی ایک پوری نسل کو منافعوں کی کالی دیوی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ یہ کیفیت اس وقت اور بھی ناقابل برداشت ہوجاتی ہے جب بیروزگاروں کی بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اس سے انتہائی دھماکہ خیز حالات تیار ہوتے ہیں۔
یہ نظام انسانی معاشرے کو تیزی سے بربریت کی جانب دھکیل رہا ہے ، یہ ایک ناسور بن چکاہے جس کو ایک انقلابی جراحی سے ہی چیر کر باہر پھینکا جاسکتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے علاوہ کوئی ایسا راستہ نہیں ہے جس سے تمام سماجی دولت اور اثاثوں کو ضبط کر کے محنت کش عوام کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔ ملکیت کے رشتوں کی نجی اور انفرادی حیثیت ختم کر کے ہی اجتماعی ترقی ممکن ہے۔
نوجوانوں کی بیروزگاری ہی عرب بہار کی ایک بڑی وجہ تھی۔ یونان میں طلبہ کی بڑی تعداد اس نظام کے معاشی حملوں سے برسرپیکار ہے، امریکہ کی آکوپائی تحریک میں نوجوانوں نے ہراول کردار ادا کیا۔ پچھلے دنوں برطانیہ میں بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے ہوئے جس میں نوجوان پیش پیش تھے۔ لینن کے بقول ’’جس کے پاس نوجوان ہیں مستقبل اسی کا ہے۔ ‘‘ نوجوان نسل آج تمام تر مایوسی اور بیگانگی کے باوجود متبادل کی تلاش میں ہے۔ نا انصافی اور ظلم سے لڑائی نوجوانوں کی جبلت میں شامل ہوتی ہے، اس توانائی کو شعوری اور منظم راستہ دینے کے لئے ہمیں ہر قیمت پر نوجوان نسل تک پہنچنا ہو گا اور انہیں مارکسزم کے نظریات پر جیتتے ہوئے انقلابی پارٹی کی تعمیر کا عمل آگے بڑھانا ہوگا۔

متعلقہ:

جو موسم شب ٹھہر گیا ہے…

ڈگریاں، محض تعلیمی اخراجات کی رسیدیں

ننھے چراغوں میں لَو کی لگن

تعلیم کی مارکیٹ ویلیو

بکاؤ تعلیم