بجلی کا مصنوعی بحران اور اس کا حل

تحریر: عمران کامیانہ:-

پاکستانی ریاست اور معیشت کے بحران کا اندازہ حکمرانوں کے بیانات اور ’باڈی لینگویج‘ سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ایک عرصہ سے سیاستدانوں اور ریاست کے نمائندوں نے عوامی مسائل حل کرنے کے وعدے اور دعوے دونوں چھوڑ دیئے ہیں۔تاہم موجودہ حکومت کے کچھ وزرا ایسے ہیں جن کی’ ڈینگیں ‘مارنے کی عادت ابھی تک نہیں گئی۔مثلاً سابق وزیر برائے پانی و توانائی راجہ پر ویز اشرف نے ایک سال کے اندر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے حوالے سے اپنے کئی بیانات میں ڈینگیں ماریں ، لیکن ان کے ہر بیان کے بعد بجلی کا بحران گہرا اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا ہی گیا۔ایسی ہی ایک حالیہ ڈینگ(یا اسے ٹامک ٹوئی کہنا زیادہ مناسب رہے گا) موجودہ وزیر برائے پانی و بجلی نوید قمر نے 6فروری کو قومی اسمبلی میں مارتے ہوئے کہا کہ سرکلر ڈیٹ کے مسئلے پر قابو پا لیاگیا ہے اورآنے والے سوموار سے ملک میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی۔تاہم سوموار (13فروری) سے لوڈ شیڈنگ کے ایک نئے سلسلے نے عوام کی رہی سہی امیدوں کو بھی چکنا چور کر دیا۔بعد میں نوید قمر نے قومی اسمبلی میں دئے گئے اپنے بیان کی ’وضاحت‘ کرتے ہوئے متزلزل لہجے میں کہا کہ میرے بیان کو غلط رنگ دیا گیا اور میرا مطلب غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تھا ۔ اگر ان کی اس وضاحت کو سچ مان بھی لیا جائے تو بھی وہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے کیونکہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ بھی پورے ملک میں تا حال جاری و ساری ہے اور بعض علاقوں میں تو لوڈ شڈنگ کا دورانیہ 16گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔تاہم ان تمام تر واقعات سے عوام کی بڑی اکثریت نے ایک منطقی نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ حکومت کا کوئی بھی نمائندہ جب کوئی بیان دے تو اس کا مطلب بالکل الٹا لیا جائے!
پاکستان میں بجلی کا بحران آخر ہے کیا ؟ کیا اس سے چھٹکارہ ممکن ہے یا بعض ’علماء‘ کے بقول سیلاب اور ڈینگی کی طرح یہ بھی کوئی آسمانی آفت ہے؟ذیل میں کچھ حقائق کی مدد سے لوڈشیڈنگ کے مسئلے اور اس کے ممکنہ حل کا ایک مختصر تجزیہ کیا گیا ہے۔
پاکستان میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب 15000 میگا واٹ کے لگ بھگ ہے جبکہ پیداواری صلاحیت 19500 میگا واٹ ہے۔تاہم ڈیموں اور ہائیڈل پاور پلانٹس کی باقاعدہ مرمت و توسیع اور نئے ڈیم تعمیر نہ ہونے او ر توانائی سے وابستہ نجی شعبے کی ریاستی مشینری کے ساتھ ملی بھگت سے کی جانے والی لوٹ مار (جس کا مختصر جائزہ نیچے لیا گیا ہے) بجلی کی پیداوار پورا سال طلب سے کم رہتی ہے ۔بجلی کی طلب میں 7سے 8.5فیصد سالانہ کے تناسب سے اضافہ ہورہا ہے ۔ حکومتِ پاکستان کے اپنے اندازوں کے مطابق 2020ء تک پاکستان میں بجلی کی طلب تین گنا سے بھی زیادہ ہو کر 54000میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ پچھلی ایک دہائی میں پاکستان کے نیشنل گرڈ میں ’0‘میگاواٹ بجلی کانیٹ اضافہ ہواہے۔ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے کئے جانے والے ’حکومتی اقدامات‘ کا اگر یہی حال رہا تو مستقبل قریب میں ہی ملک کو 20000میگا واٹ بجلی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حکومت فی الوقت اس مسئلے کو ٹالنے کے لئے جو شارٹ کٹ اختیار کر رہی ہے وہ نجی شعبے کے تحت چلائے جانے والے رینٹل پاور پلانٹس کا استعمال ہے۔حکومتی پالیسیوں کا ایک سرسری سا جائزہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں با لکل بھی سنجیدہ نہیں اور ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح عارضی اقدامات کر کے 5سال پو رے ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدو د و قیو د کے اندر رہتے ہوئے توانائی کے بحران کا کوئی مستقل حل ممکن ہی نہیں ۔
ایک رینٹل پاور پلانٹ کو نصب کرنے میں تین سے چار ماہ کا عرصہ لگتا ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ تین سے پانچ سال تک اوسطً150میگا واٹ کے لگ بھگ بجلی پیدا کرتا ہے۔ اور اس لحاظ سے یہ بجلی پیدا کرنے کا مہنگا ترین اور انتہائی غیر بھروسہ مند طریقہ کار ہے۔جون 2011ء میں ختم ہونے والے مالی سال کی ایک سرکاری رپوٹ کے مطابق حکومت نے 16.6ارب روپے مختلف رینٹل پاور پلانٹس کو پیشگی ادائیگی کے طور پر ادا کئے اور ان سے کئے جانے والے معاہدات کے مطابق مزید 1.7ارب ڈالر حکومت کے ذمّے واجب الادا ہیں۔جبکہ اسی رپوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی بیشتر نجی کمپنیوں کی کار کردگی اور پیش رفت انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ان کمپینوں نے پرانی اور غیر استعمال شدہ مشینری نصب کی ہے جو کسی بھی وقت جواب دے سکتی ہے اور جس کی وجہ سے بجلی کی پیداوارمقررہ اہداف سے انتہائی کم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان نجی کمپنیوں کو اربوں روپے کی ادائیگی کے باوجود ان کی طرف سے پیدا کردہ بجلی کی مقدار قومی گرڈ میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ان نجی کمپنیوں کو انتہائی سبسڈائز ریٹ پر جو تیل فراہم کیا جاتا ہے اس سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے یہ مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کر رہی ہیں ۔کے ای ایس سی کے اندر حال میں ایسی کرپشن منظرعام پر آئی ہے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ دوسری طرف جو ایڈوانس رقم ان کمپنیوں کو ادا کی جاتی ہے اس سے کسی قسم کی مشینری نصب کرنے کی بجائے بینک میں رکھ کر سود کمایا جا رہا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا دھوکا ہے جو پہلے سے غربت کی چکی میں پسے ہوئے محنت کش عوام کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ ان نجی کمپنیوں کے ساتھ اربوں روپے کے معاہدے کر کے کمیشنوں کی مد میں سیاستدان اور بیوروکریٹ کروڑوں روپوں سے اپنی جیبیں گرما رہے ہیں۔لہٰذا بجلی کے اس بحران کا جاری رہنا ہی ریاستی و حکومتی عہدیہ داروں اور توانائی کے شعبے سے وابستہ مقامی سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے ’سود مند‘ ہے۔یہ تمام تر سرمایہ جس پر رینٹل پاور پلانٹس کے مالکان اور حکومتی و ریاستی عہدے دار عیاشی کرتے ہیں آسمان سے نہیں برستا بلکہ پاکستان کے محنت کشوں کی ہڈیوں سے کشید کیا جاتا ہے اور اسی غریب محنت کش عوام کو لوڈشیڈنگ کی اذیت برداشت کرنی پڑتی ہے، یہی غریب لوگ بجلی کے بحران کی وجہ سے بیروزگاری کا شکار ہیں، اسی غریب اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ضعیف افراد جون جولائی کی گرمی میں پنکھے کی ہوا کو ترستے ہوئے ہسپتالوں میں دم توڑدیتے ہیں۔
تو کیا بجلی کے اس ’بحران‘کا کوئی حل موجود نہیں ہے؟کیا لوڈشیڈنگ کی اذیت پاکستان کے عوام کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے؟نہیں!ایسا نہیں ہے،اگر منافع کی ہوس راہ میں حائل نہ ہو تو چند سال میں ایسے منصوبے شروع کئے جاسکتے ہیں جن سے نا صرف بجلی کی توانائی کا خاتمہ ممکن ہے بلکہ آنے والی کئی دہائیوں تک ہر شہری کو مفت بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں دریاؤں اور نہروں کا وسیع تر جال ہونے کے باوجود ہائیڈل پاور (بہتے یا بلندی سے گرتے ہوئے پانی کی قوت سے بجلی کی پیداوار) کے منصوبوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔کل پیداواری صلاحیت کا 37 فیصدہائیڈل پاور پر مبنی ہے جس میں سال کے مختلف حصوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ نئے ڈیم تعمیر کر کے نا صرف بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ زراعت کو بھی ترقی دی جا سکتی ہے۔بجلی کی پیداوار بڑھانے کا ایک فوری طریقہ دریاؤں یا بڑی نہروں کے بہتے پانی پر پاور پلانٹس کی تعمیر ہے۔ اس طریقے کو Run of the river hydroelectricityکہا جاتا ہے۔۔اس طریقے کو استعمال کرتے ہوئے صرف دریائے سندھ سے 41766میگا واٹ بجلی کی پیداوار ممکن ہے۔ فی الحال صرف 2500میگا واٹ بجلی(غازی بروتھا اورنیلم جہلم پاور پلانٹس سے) اس طریقے سے پیدا کی جا رہی ہے۔
دنیا میں اس وقت کوئلے کے ذخائر کا اندازہ 929بلین ٹن ہے اور پاکستان کوئلے کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں کوئلے کے ذخائر 185بلین ٹن ہیں جن کی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت 400بلین بیرل تیل کے مساوی ہیں ، دوسرے الفاظ میں پاکستان کے کوئلے کے ذخائر ایران اور سعودی عرب کے مشترکہ تیل کے ذخائر کے برابر ہیں۔اگر ایک بیرل تیل کی قیمت 50ڈالر فرض کی جائے تو ان ذخائر کی کل مالیت 20ٹریلین ڈالرسے زائد بنتی ہے۔اگر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو نسبتاًبہت کم عرصے میں پاکستان کوئلے سے 10000میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ کوئلے کے یہ ذخائر اگلے 200سال تک پاکستان کی توانائی کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔دنیا میں پیدا کی جانے والی بجلی کا 38 فیصدکوئلے سے پیدا ہوتا ہے ، اس کے مقابلے میں پاکستان میں صرف 0.2فیصد بجلی ہی کوئلے سے بنائی جا رہی ہے۔ایک اور اندازے کے مطابق تھر میں پائے جانے والے ذخائر کے صرف2 فیصداستعمال سے اگلے 40سال تک 20000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
توانائی پیدا کرنے کا ایک متبادل طریقہ’ ہوا ‘ ہے ۔ 13کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہوئی ہوا بجلی پیدا کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔اس وقت صرف سندھ میں ہوا سے 50000میگا واٹ بجلی با آسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔ایک امریکی سروے کے مطابق سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کیلئے موزوں ترین ہیں۔کشمیر اور شمالی علاقوں کے دوسرے بہت سے مقامات اس کے علاوہ ہیں۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے حال ہی میں بجلی پیدا کرنے والے نجی شعبے کو 548بلین روپے ادا کئے۔ ماہرین کی رائے کے مطابق اگر یہی سرمایہ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پرخرچ کیا جاتا تو صرف 6ماہ میں 6300میگا واٹ بجلی کی پیداوار مستقل بنیادوں پر شروع ہو سکتی تھی۔ایسے منصوبے سے فرنس آئل کی درآمد 60فیصدکم ہوجاتی اور اس مد میں 5.3بلین ڈالر کی بچت ہوسکتی تھی۔یاد رہے کہ 6300میگا واٹ بجلی کی پیداوار میں 25475ملین مکعب فٹ گیس صرف ہوتی ہے۔
بجلی پیدا کرنے کا ایک اور سستا اور محفوظ ترین طریقہ شمسی توانائی کا استعمال ہے۔اس وقت جرمنی اور سپین بالترتیب 8اور 3گیگا واٹ (1گیگاواٹ= ،1000 میگاواٹ) بجلی اس طریقہ سے پیدا کر رہے ہیں۔پاکستان کے اکثریتی علاقوں میں سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہے۔پاکستان کا ہر ایک مربع فٹ سورج سے ایک سال میں 19میگا جول توانائی حاصل کرتا ہے اور اس توانائی کو استعمال کرتے ہوئے 90 فیصددیہی علاقوں کو تقریباًمفت بجلی فراہم کر کے نہ صرف لوڈشیڈنگ سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے بلکہ ضرورت سے زائد بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
دنیا بھر میں پیدا کی جانے والی کل بجلی کا 16 فیصدایٹمی توانائی سے پیدا کیا جاتا ہے۔ پاکستان دنیا کی واحد ’ایٹمی طاقت‘ ہے جہاں بجلی کی شدید قلت نے لوگوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ حکمرانوں اور مڈل کلاس کو جس ’ایٹمی ٹیکنالوجی‘ پر بہت فخر ہے، ایک عام پاکستانی کی زندگی کو سہل بنانے میں اس کا کوئی کردار نہیں۔الٹایہ ایٹمی پروگرام پاکستان کی معیشت پر ایک بھاری بوجھ ہے جس کی ’حفاظت‘اور توسیع پر ہر سال کروڑوں اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔اس وقت ملک کی صرف 2 فیصدبجلی ایٹمی توانائی سے پیدا کی جارہی ہے۔ غریب عوام کے خون سے نچوڑا گیا جو سرمایہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر صرف ہو رہا ہے اس کا ایک معمولی حصہ بھی بجلی کی پیداوار کیلئے استعمال کیا جائے تو بہت کم عرصے میں مستقل بنیادوں پر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
اس تمام تر بحث سے بنیادی طور پرتین نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں:
پہلا یہ کہ عالمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی موت نے توانائی کے مسئلے کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں انتہائی سنجیدہ بنا دیا ہے۔منافع کی خاطرپچھلی ایک صدی میں معدنی تیل اور گیس کے سرمایہ دارانہ بنیادوں پربے دریغ استعمال کی وجہ سے یہ ایندھن اب کرہ ارض پر سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان اور عراق کی جنگوں کے پیچھے بے شمار دوسرے سامراجی عزائم کے ساتھ ساتھ معدنی وسائل پر قبضے کا عنصر بھی شامل تھا۔بلوچستان میں جاری بڑی سامراجی قوتوں کی بلواسطہ جنگ بھی دراصل اس خطے میں تیل ، گیس اور دوسری معدنیات کے وسیع تر ذخائر کی لوٹ مار کیلئے ہے۔ توانائی کے بے شمار سستے اور با کفایت متبادل ذرائع موجود ہیں لیکن مسئلہ صرف یہ ہے کہ وہ ’منافع بخش‘ نہیں ہیں اور اسی وجہ سے دنیا کی سیاست اور معیشت کو کنٹرول کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں ان میں دلچسپی نہیں لے رہیں۔
دوسرا یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانا نا ممکن ہے۔ایک ایسی معیشت سے جس کا دو تہائی حصہ کالے دھن پر مبنی ہو ، کسی بھی قسم کی بہتری کی امید کرنا بذات خود ایک بیوقوفی ہے۔ایسی ڈانواڈول معیشت میں کسی بھی طور دور س پلاننگ ممکن نہیں ۔پیپلز پارٹی کی موجودہ کرپٹ اور ناا ہل حکومت چلی بھی جائے تو آنے والی کوئی بھی حکومت توانائی کے اس بحران پر مستقل بنیادوں پر قابو نہیں پا سکتی۔چئیرمین پیپکو نے 28فروری کو ایک بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ عوام آنے والی گرمیوں میں لوڈ شڈنگ کے لئے تیار رہیں۔آنے والے سالوں میں یہ بحران گہرا سے گہرا ہی ہوتا جائے گا اور بے شمار چھوٹی اور بڑی عوامی بغاوتوں کو جنم دے گا۔
تیسرا اور سب سے اہم نتیجہ یہ کہ کرہ ارض پر موجود تمام تر معدنی و قدرتی وسائل کو اگر منافع اور سرمائے کی غلاظتوں سے پاک ایک عالمی سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے تحت بروئے کار لایا جائے تو چند سالوں میں وہ ترقی حاصل کی جاسکتی ہے جو سرمایہ داری پچھلی کئی صدیوں میں نہیں دے سکی۔روس سے لیکر مشرق وسطیٰ اور امریکہ تک نوجوانوں اور محنت کشوں کی بغاوتیں دراصل عالمی طور پر سرمایہ داری کی متروکیت کا اظہار ہیں۔ ضرورت صرف ایک بالشویک پارٹی کی ہے جوکسی ایک ملک میں سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ کرعالمی سوشلسٹ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو۔

متعلقہ:سوشلسٹ انقلاب کے بعد پاکستان؟