نظام کی غربت

| تحریر: لال خان |

دلکش برفانی چوٹیوں کے وسط میں سوئٹزلینڈ کا چھوٹا سا شہر ڈیووس آباد ہے۔ یہاں ہر سال جنوری کے مہینے میں ’ورلڈ اکنامک فورم‘ کا اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے سرمایہ دارانہ نظام کے معیشت دان، ریاستی پالیسی ساز اور سیاست دان شریک ہوتے ہیں۔ اس اجلاس کا مقصد عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ معیشت کے تحفظ اور طوالت کی پالیسیاں مرتب کرنا اور آئندہ کے لائحہ عمل کی تیاری ہوتا ہے۔
world economic forum cartoonیہ اس استحصالی نظام کے رکھوالوں کا شاید سب سے بڑا غیر رسمی اجلاس ہوتا ہے جس میں پاکستان سے بھی عمران خان اور یوسف رضا گیلانی جیسے سیاستدان شریک ہوتے رہے ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے دنیا میں دولت کی تقسیم پر گہری نظر رکھنے والا برطانوی خیراتی ادارہ ’آکسفیم‘ بھی اس اجلاس میں اپنی رپورٹیں پیش کر رہا ہے۔ پچھلے چند سالوں کی طرح اس بار بھی آکسفیم کی رپورٹ چونکا دینی والی تھی جس کے مطابق دنیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد کی مجموعی دولت باقی کی 99 فیصد آبادی کی کل جمع پونجی کے برابر ہو چکی ہے۔ صرف 62 افراد دنیا کی آدھی آبادی (تقریباً 3.5 ارب افراد) سے زیادہ امیر ہو چکے ہیں۔ 2010ء کے بعد امرا کی دولت میں 44 فیصد اور غربت میں 41 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
آکسفیم کی اس سالانہ رپورٹ کو زیادہ کوریج اس لئے مل جاتی ہے کیونکہ یہ بڑے سرمایہ داروں کے اجلاس میں پیش کی جاتی ہے اور کارپوریٹ میڈیا اس کو زیادہ نمایاں کرتا ہے۔ لیکن سرمایہ داروں یا ان کے نمائندگان کے سامنے اتنی تلخ رپورٹ انتباہ کے طور پر پیش کی جاتی ہے کہ غربت اور امارت کے تضاد کو اتنا مت بڑھاؤ وگرنہ بغاوت پورے نظام کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ دولت کے چند ہاتھوں میں ایک حد سے زیادہ ارتکاز کے نہ صرف سیاسی اور سماجی مضمرات ہوتے ہیں بلکہ یہ عمل خود سرمایہ دارانہ معیشت کے لئے بھی مضر ہے۔ لیکن یہی ارتکاز پھر سرمایہ دارانہ نظام کی ناگزیر پیداوار بھی ہے جس کی وضاحت کارل مارکس نے ڈیڑھ صدی قبل کر دی تھی۔
دولت کی اس حد تک ناہموار تقسیم اور غربت وغیرہ کی ایسی رپورٹوں پر اس نظام کے کئی دانشور اور سیاستدان وغیرہ واویلا تو خوب کرتے ہیں لیکن پھر انہی تضادات کو شدید تر کرنے کی پالیسیاں ’’حل‘‘ کے طور پر نافذ کی جاتی ہیں۔ خوفناک استحصال پر ’’چیریٹی‘‘ یا خیرات کا میک اپ بھی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں پاکستان اور دنیا بھر میں خیرات امرا کے فیشن کا لازمی جزو بن چکی ہے۔ کھیل سے لے کر فلم تک، ہر بڑے سپر سٹار کی ایک عدد ’چیریٹی‘ بھی ہے جس کے چرچے ہر انٹرویو اور پروگرام میں کئے جاتے ہیں۔ کوئی مذہب کی بنیاد پر خیرات کرتا ہے تو کوئی ’’انسانیت کے درد‘‘سے دلبرداشتہ ہو کر۔ اس ملک میں بھی کچھ بڑ ے پراپرٹی ٹائیکون اور سرمایہ دار جتنی رقم خیرات میں دیتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اس کی تشہر پر خرچ کرتے ہیں۔
لیکن یہ خیراتی مہمات جوں جوں بڑھی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ اضافہ غربت اور ذلت میں ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں وسیع آبادی کی مسلسل بڑھتی محرومی کا پتا دینے والے کچھ نئے اعشارئیے سامنے آئے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان دنیا کے 9 ان پڑھ ترین ممالک میں شامل ہے، چائلڈ لیبر کے حوالے سے ماریطانیہ اور ہیٹی کے بعد پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جبکہ مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح 186 ممالک میں سے سب سے زیادہ پاکستان میں ہے۔ خوراک، پینے کے پانی ، نکاس، صحت اور رہائش سمیت کم و بیش ہر سماجی اعشارئیے کی کیفیت یہی ہے۔
یہ حقائق بہت کچھ واضح کرتے ہیں۔ خیرات دینے والے استحصال کے بغیر دولت جمع نہیں کر سکتے۔ استحصال کے معنی انسانی محنت یا محنت کشوں کا استحصال ہے۔ اجرت میں مسلسل کمی، محنت کشوں کے حقوق کی صلبی اور بیروزگاری میں مسلسل اضافے سے ہی شرح منافع بلند کی جا سکتی ہے ۔ غربت اور بیروزگاری جب وبا بن کر معاشرے میں پھیل جاتے ہیں اور ایسے میں کوئی انقلابی تحریک نہ اٹھے تو پسپائی اور شکست کی نفسیات عوام پر حاوی ہو جاتی ہے۔ خیرات بھیک کا دوسرا نام ہے جو استحصالی طبقہ اپنی اور اپنے نظام کی نیک نامی اور استحصال سہنے والوں کے شعور کو مسلسل کند رکھنے کے لئے دیتا ہے۔
پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں سرمایہ دار طبقہ جب ’’جائز‘‘ طریقوں سے شرح منافع بڑھانے سے قاصر ہو جاتا ہے تو ریاست کو لوٹنے لگتا ہے۔ ریاستی مشینری بھی اس لوٹ مار میں کمیشن ایجنٹ بن کے رہ جاتی ہے۔آج جس کرپشن کا اتنا شور مچایا جاتا ہے وہ اسی نظام کی پیداوار، معمول اور ناگزیر ضرورت ہے جس سے پاکستان کا حکمران طبقہ مستفید بھی ہو رہا ہے اور احتساب کا واویلا بھی کر رہا ہے۔ دولت کے ان انباروں میں چند سکے خیرات میں اچھال دئیے جاتے ہیں جبکہ بڑی رقوم سیاست، ریاست، ملائیت اور صحافت کو خریدنے میں استعمال کی جاتی ہیں۔
2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد معاشی بحران کے اس عہد میں ’’فلاحی ریاست‘‘ قائم رکھنے کی گنجائش سرمایہ داری میں ختم ہو چکی ہے۔ یہ فلاحی ریاستیں مخصوص حالات کی پیداوار تھیں جن میں دوسری عالمی جنگ کے بعد 1974ء تک کے معاشی عروج(پوسٹ وار بوم) ، یورپی محنت کشوں کی طویل جدوجہد، سوویت یونین کی موجودگی جیسے عوامل کا کردار کلیدی تھا۔ آج امریکہ اور یورپ میں بھی کئی نسلوں کے بعد معیار زندگی بڑھنے کی بجائے مسلسل زوال کا شکار ہے اور غربت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان جیسے سابقہ نو آبادیاتی ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام صحت مند بنیادوں پر پروان چڑھ سکا نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ ہندوستان میں پہلے جواہر لال نہرو اور پھر اندرا گاندھی کے دور میں ’’نہرووین سوشلزم‘‘ اور ’’غریبی ہٹاؤ‘‘ جیسی ریاستی سرمایہ داری کی پالیسیاں چلائی گئیں۔ پاکستان میں ایوب خان کے دور میں کسی حد تک ایسی کوششیں کی گئیں لیکن مغرب کی طرز پر وسیع سماجی ترقی دینے والی سرمایہ داری کبھی پروان نہیں چڑھ سکی۔ الٹا طبقاتی اور سماجی تضادات شدید تر ہی ہو ئے۔ ایسے میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک پھٹی لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے جب سرمایہ دارانہ ریاست کی حدود میں ہی اقتدار قبول کیا تو جے اے رحیم نے احتجاجاً پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ تحریک کا دباؤ بھی کسی حد تک اس وقت موجود تھا، ایسے میں بھٹو نے زیادہ ریڈیکل اصلاحات کرنے کی کوشش کی جس پر پاکستان کے اہم ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق نے اس وقت لکھا تھا: ’’سرمایہ دارانہ نظام میں محض اصلاحات اب کوئی قابل عمل حل نہیں۔ 1969ء کے عوامی ابھار نے سرمایہ دارانہ ڈھانچے کو مسترد کیا تھا۔ ایسا اصلاح شدہ نظام جس کی خواہش کی جا رہی ہے، جس میں سبھی محنت کشوں کو مناسب اجرت دی جائے، منافعوں میں محنت کشوں کی شراکت ہو، سرمایہ داروں کی سماجی ذمہ داری ہو، وغیرہ وغیرہ…یہ سب سویڈن یا پھر یوگوسلاویہ میں تو ہو سکتا ہے مگر پاکستان جیسے ملک میں یہ عمل ارتقائی مراحل کے ذریعے ممکن نہیں۔‘‘
Infographic-Billionaires-WEalthادھورا انقلاب اور اصلاحات کی ناکامی ہی بھٹو کی معزولی اور ضیاالحق کی وحشی آمریت کا موجب بنی جس میں ڈی نیشنلائزیشن، پرائیویٹائزیشن اور سرمایہ داری کا ننگا جبر استوار کرنے کا آغاز کیا گیا۔ یہ تاریخ کے اسباق ہیں۔ اب اگر ’ورلڈ اکنامک فورم‘ میں کوئی سرمایہ داروں کو ’’اچھا‘‘ ہونے، اجرتوں میں اضافے یا ٹیکس دینے جیسے مشورے دیتا ہے تو یہ گھوڑے کی گھاس سے دوستی کرانے والی بات ہے۔ آکسفیم کی اس رپورٹ کا اہم پہلو یہ ہے کہ مستقبل میں کہیں غربت کے خاتمے کی کوئی نوید نہیں، الٹا اضافے کی ہی پیش گوئی ہے۔ یہی اس نظام کی اصلیت اور آج کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ یہ تاریخی طور پر متروک نظام ہے جو کوئی ترقی پسند کردار ادا کرنے سے قاصر ہے اور جس میں دولت چند ہاتھوں میں ہی مجتمع ہو گی۔ انسانیت کی وسیع اکثریت کی محرومی میں اضافہ ہی ہوگا۔اس نظام کی امارت ہی دنیا کی غربت ہے۔لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ عمل لا متناہی طور پر جاری رہ سکتا ہے؟ انسان کب تلک بھوک، ننگ اور افلاس برداشت کر سکتا ہے؟ بغاوت ناگزیر ہے اور آنے والا عہد اس سے بھرپور!

متعلقہ:

محرومی کب تلک مفلوج رکھے گی؟

ملینیم ڈویلپمنٹ گول مول

کارپوریٹ گدھ

مرتے ہوئے نظام کی وحشت

سلگتا بھڑکتا سیارہ