زر کا زہر!

اداریہ جدوجہد:-

طالبان سے لے کر ہندوستان تک، مذاکرات بھی چل رہے ہیں اور دہشت گردی کے دھماکے بھی ہور ہے ہیں۔ ’اکانومسٹ‘ کے مطابق ’’پاکستان میں یا تو جنرل راحیل شریف ڈبل گیم کھیل رہا ہے، یا پھر فوج ہندوستان سے مصالحت کے خلاف ہے یا پھر فوج اور آئی ایس آئی اندر سے منقسم ہیں۔ ‘‘ ریاست میں کئی نوعیت کی دراڑیں ہیں۔ فوجی آپریشن جاری و ساری ہے، ساتھ ہی مذہبی جنون کے نئے روپ بھی سامنے آ رہے ہیں۔ پٹھان کوٹ میں حملہ کروانے والوں کے خلاف کاروائی بھی ہو رہی ہے اور انہیں ’’حفاظتی تحویل‘‘ میں بھی لے لیا گیا ہے۔ بلوچستان میں قومی آزادی کی جنگ جاری ہے اور مذہبی بنیاد پرستی کے بڑے ہیڈ کوارٹر بھی قائم کروا دئیے گئے ہیں۔ سعودی عرب ہمارا عزیز ترین ’محسن‘ اور ایران ہمارا قریبی برادر ملک ہے۔ سعودی حکمرانوں کی چھتری تلے قائم سنی ممالک کے اتحاد کا حصہ بھی ہیں اور اس میں فوج بھی نہیں بھیجنی۔ مرکز میں ’’بھاری مینڈیٹ والی جمہوریت‘‘ کا وزیر اعظم اپنے سپہ سالار کے سامنے بھیگی بلی بنا بیٹھا ہے۔ سیاست کو عوام سے کوئی سروکار نہیں اور عوام اس سیاست سے بیزار ہیں۔ ایک طرف لبرل ازم اور سیکولرزم کا ناٹک کرنے والے حکمران ہیں اور دوسری طرف بنیاد پرستی اور رجعت کے جغادری۔ وزیر دفاع بے محکمہ ہے اور وزیر داخلہ کچھ با اختیار ہونے کا تاثر دیتا ہے۔ سیاسی افق پر مسلط پارٹیوں کی لڑائیاں لفاظی کی حد تک شدید تر ہیں لیکن معاشی پروگرام اور لائحہ عمل سب کا ایک ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں گراس روٹ نمائندے ’’منتخب‘‘ ہوئے ہیں، لیکن ان کے پاس وسائل ہیں نہ اختیارت۔ بلدیاتی نمائندوں کو صوبائی حکومتوں سے شکوے ہیں اور صوبائی حکومتیں مرکز سے نالاں ہیں۔
معیشت کی ترقی کا بڑا شور ہے لیکن آبادی کی اکثریت کے لئے معاشی بدحالی ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ ہاوسنگ کالونیاں لہلہاتے کھیتوں کو کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل کر رہی ہیں، گاڑیوں کی بھرمار ہے، ٹریفک ہر وقت جام ہے اور پارکنگ کی جگہ ناپید۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور پاک چین کوریڈور کو ہر مسئلے کا حل بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ تمام منصوبے سرمایہ داروں اور ٹھیکیداروں کے لئے بنائے جاتے ہیں اور نعرہ عوام کی سہولت کا لگایا جاتا ہے۔ قرضوں کامسلسل بڑھتا ہوا بوجھ رہی سہی سرکاری معیشت کو چیرتا ہوا عوام پر مسلط ہو رہا ہے۔ دانش سکولوں اور شوکت خانم ہسپتالوں کے اشتہار وں سے کارپوریٹ میڈیا لبریز ہے لیکن سرکاری ہسپتال اور سکول کھنڈر بن چکے ہیں۔ کالے دھن نے سیاست، ریاست، صحافت اور ثقافت کو سیاہ کر رکھا ہے۔ ایان علی باہر ہو گئی ہے اور اب ڈاکٹر عاصم اندر ہے۔ کرپشن کے بحر میں احتساب کا شور ہے۔
محنت کش عوام سے ہر سہولت، ہر آسرا چھینا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کی دولت ان کے اپنی گنتی میں نہیں آتی۔ ایک طرف ذلت اور محرومی کی اتھاہ گہرائی ہیں اور دوسری طرف دولت اور رعونت کا عروج۔ بیچ میں مسلسل سکڑتا ہوا درمیانہ طبقہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے جائز و ناجائز کی ہر حد تک جا رہا ہے۔ ایسا ہمیشہ کے لئے نہیں چلے گا، چل نہیں سکتا! یہ حکمران، ان کا نظام اور ریاست اس سماج کی رگوں میں زر کا زہر اتارتے چلے جا رہے ہیں، اس خطے کو لیبیا، عراق اور شام بنانے پر تلے ہیں، لیکن محنت کش طبقہ ایسا ہونے نہیں دے گا۔ جس طبقے کی جدوجہد اور وجود تک کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا ہے وہ حالات اور واقعات کی بھٹی میں پک کر فولاد بن رہا ہے۔ خاموش ہے لیکن دیکھ سب کچھ رہا ہے۔ سماج کی کوکھ میں بغاوت کا لاوا سلگ رہا ہے۔ یہ جلد یا بدیر پھٹے گاتو سرمائے کی اس حاکمیت کو اس کے تمام اداروں، ڈھانچوں اور ہتھکنڈوں سمیت نیست و نابود کر دے گا۔ ان فیصلہ کن لمحات میں مارکسی پارٹی کی شکل میں انقلابی قیادت درکار ہو گی جو سوشلسٹ انقلاب کے نظریات اور لائحہ عمل سے اس تحریک کو منور کرے گی۔