فلسطین کے رستے ہوئے زخم

[تحریر: لال خان]
گزشتہ ہفتے ایک دفعہ پھرغزہ جل رہا تھا۔ اسرائیل کی رجعتی ریاست کی بے رحم جارحیت نے سینکڑوں بشمول عورتوں اور بچوں کو ہلاک اور اپاہج بنا دیا ہے۔ یہ ایک دفعہ پھر صیہونی اشرافیہ اور مشرق وسطیٰ میں سامراج کی بیرونی چوکی کی خونخواری کو عیاں کر رہا ہے۔ غز ہ پر قاتلانہ ’’آپریشن سیسہ پلانا‘‘ (Operation Cast Lead) کے چار برس بعد، 14نومبر 2012ء کو اسرائیلی فوج نے ایک اور تباہ کن حملہ کیا جس کا نام ’’دفاع کا مینار‘‘ (Pillar of Defence) رکھا گیا۔ ’’سیسہ پلانے‘‘ کے آپریشن کی طرح یہ بھی جنوری 2013ء میں ہونے والے اسرائیلی انتخابات سے چند ہفتے پہلے کیا گیا۔ ملک کو درپیش سماجی اور معاشی مسائل سے ووٹروں کی توجہ ہٹانے کے لیے فوجی آپریشن شروع کر دینا اسرائیلی حکومتوں کی پرانی سیاسی روایت ہے۔ غز ہ کے محصور عوام پر اس تازہ ترین حملے کی ایک وجہ یہ شیطانی حکمت عملی ہے۔
امریکی سامراجیوں کی خواہش ہے کہ اسرائیل خطے میں مزید عدم استحکام نہ پھیلائے لیکن در حقیقت وہ اسرائیلی طاقت ور فوج کی اس جارحیت اور غزہ پر جاری استبداد کی خاموش حمایت کر رہے ہیں کیونکہ مغربی ممالک اسرائیل کی فوج کو پیسہ اور جدید ترین ہتھیار اور سازوسامان فراہم کر رہے ہیں۔ اپنی کھوکھلی لفاظی کے باوجود اوباما نے عملی طور پر اس بے رحمانہ وحشت میں اسرائیلی پوزیشن کی تائید کی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے اسرائیل کے لئے امریکہ کی اقتصادی، فوجی اور سیاسی امداد ہی اس نہ ختم ہونے والے تنازعے کو جاری و ساری رکھنے کا مرکزی موجب بنی ہوئی ہے۔ جو بم اسرائیل غزہ پر پھینکتا ہے، جن جنگی ہوائی جہازوں سے یہ پھینکے جاتے ہیں، جن ہتھیاروں کے بلبوتے پر اسرائیل نے مغربی کنارے پر اپنا تسلط قائم رکھا ہوا ہے، ان سب کے ایک بڑے حصے کہ قیمت امریکہ ادا کرتاہے۔
عالمی سامراجی میڈیا جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا کی بھرمار کر رہا ہے اور نام نہاد ’’غیر جانب داری‘‘  کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالفین کو ’’برابر‘‘ بنا کے پیش کیا جارہاہے، جبکہ درحقیقت یہ تنازعہ انتہائی غیر مساوی قوتوں کے درمیان ہے اور اسرائیل کے پاس دنیا کے سب سے جدید اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ غزہ کی جنگ اپنے اپنے ملک کے جھنڈوں کے زیرِ سایہ لڑنے والی دو برابر فوجوں کے درمیان نہیں ہے بلکہ یہ ایک بڑی فوجی طاقت اور ان لوگوں کے درمیان کی جنگ ہے جس پر اس نے قبضہ کر رکھا ہے۔
سامراج کے وظیفہ خوار ٹٹواسرائیلی حملوں کے لئے ’’سرجیکل حملوں‘‘ جیسی لفاظی استعمال کررہے ہیں لیکن ہمیں اسرائیل کے ’’سرجیکل حملوں کو نہیں بھولنا چاہئے جن میں 1982ء میں لبنان میں 17000 معصوم لوگ، 2006ء میں 1200 افرادجن میں زیادہ تر لبنان کے عام شہری تھے، اور 2008-9ء میں غزہ میں 1300 افراد جن میں زیادہ تر عام فلیسطینی شہری تھے، مارے گئے تھے۔ اس خوفناک تشدد سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے اور تباہ حال محصور خطے غزہ میں قید لوگ کس قدر پر خطر حالات میں رہ رہے ہیں، اور انسانیت پر ظلم کی اس خوفناک تصویر سے مغربی سامراجی صرف نظر کئے ہوئے ہیں۔
پوری بیسویں صدی میں، اور خاص طور پر 1948ء میں اسرائیل کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے یہ پورا خطہ عدم استحکام، جنگوں، دہشت گردی، کشت و خون، غربت اور بیماری کا شکار رہا ہے۔ تیل کی دولت اور دوسرے وسائل خوشحالی کا پیغام لانے کی بجائے مظلوم عوام کے لئے عذاب بن چکے ہیں۔
سامراجی جنگوں اور لوٹ مار نے عام لوگوں کی زندگیاں برباد کر کے رکھ دی ہیں۔ 1948ء میں اسرائیل کی طرف سے بے دخل کرنے کے نتیجے میں موجودہ اسرائیل کے زیرِ تسلط علاقے سے 700000 سے زائد لوگوں کو مجبوراً اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا، اور غزہ کی آبادی چار گنا ہو کر 270000 ہوگئی تھی، جو کہ اس وقت 17 لاکھ ہو چکی ہے۔ قبضے کے اس جرم کا ازالہ کرنے کی بجائے اسرائیل نے غزہ کی چھوٹی سی پٹی کے بے رحمانہ محاصرے سے اپنے ظلم میں اضافہ کیا ہے۔ اسرائیلی حکمران معمولاتِ زندگی کا گلا کھوٹ کر، اس کی معیشت اور انفراسٹرکچر کو تبا ہ کر کے اور اسکے باسیوں کی نقلِ و حرکت کی آزادی چھین کے غزہ کے لوگوں کی زندگیوں کو ناقابل برداشت کرتے چلے جارہے ہیں۔

سامراج اور اسرائیلی ریاست
مشرقِ وسطیٰ میں ایک یہودی ریاست کی کھلم کھلاحمایت برطانوی سامراج نے ’بیلفور ڈیکلیریشن‘ کے ذریعے کی تھی۔ بیلفور ڈیکلیریشن دراصل نومبر1917ء میں برطانوی سیکرٹری خارجہ آرتھر جیمز بیلفور کی طرف سے برطانوی یہودی کمیونٹی کے سربراہ برن راتھ چائلڈ کو لکھا گیا ایک خط تھا۔ دوسری طرف ایک اور خفیہ معاہدہ تھا جسے ’سائیکس پیکوٹ معاہدہ‘ کہا جاتاہے۔ یہ معاہدے سلطنتِ عثمانیہ کے گرنے کے بعد فرانسیسی سفارتکار فرانکس جورجیش پیکوٹ اور برطانوی عہدہ دار سر مارک سائیکس کے درمیان مئی 1916ء میں طے پایا۔ اس معاہدے میں ایک صیہونی ریاست کا قیام بھی شامل تھا۔ اکتوبر انقلاب کے بعد بالشویک تمام تر خفیہ سفارتی دستاویزات کے ساتھ ساتھ اس سازشی معاہدے کو بھی منظرِ عام پر لے کر آئے جس سے سامراجیوں کو بڑی ہزیمت اٹھانی پڑی اور عربوں کا ان پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ یہ سازشی سمجھوتے خالصتاً سامراجی لوٹ مار اور خطے کے وسائل، خاص کر تیل پر، جنگ کے بعد کے عرصے میں قبضہ کرنے کے لئے کئے گئے تھے۔
1948ء میں مشرقِ وسطیٰ کی پہلی جنگ میں لاکھوں عربوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا اور یہ علاقے اقوامِ متحدہ کی قرار داد کے ذریعے اسرائیل کی مذہبی ریاست میں شامل کر دئیے گئے۔ وہ فلسطینی پناہ گزین اور ان کی آنے والی نسلیں آج تک بے گھر ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کے مختلف حصوں میں پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں یا پھر دنیا کے دوسرے ممالک میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اب تک ہونے والی تین جنگوں میں بے حساب کشت و خون اور ظلم ہو چکا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمت کئی نسلوں سے جاری ہے۔ 1964ء میں ’’تنظیم برائے آزادی فلسطین‘‘ (Palestinian Liberation Organization/PLO) فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے مختلف گروپوں کو ایک پرچم تلے متحد کرنے کے لئے بنائی گئی۔ PLOمیں شامل سب سے نمایاں گروپ الفتح تھا جس کی قیادت یاسر عرفات کے پاس تھی، لیکن ’’پاپولر فرنٹ برائے آزادی فلسطین ‘‘ (PFLP) جیسے بائیں بازو کے سوشلسٹ اور کمیونسٹ گروپس بھی تحریک میں گہری بنیادیں رکھتے تھے۔ تاہم طریقہ کار کے حوالے سے یہ اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد(جس میں غاصبانہ فوجوں پر الگ تھلگ حملے شامل تھے)، عرب حکومتوں کواسرائیل پر حملے کے لئے راضی کرنا یا اقوامِ متحدہ سے شناخت یا امداد کی کوششوں کے درمیان جھولتے رہتے تھے۔
بد قسمتی سے اس حکمت عملی کا تمام تر زور تنگ نظر قوم پرستی پر تھا اور اس طرح یہ فلسطین کی قومی آزادی کی جدوجہد کو عرب اور اسرائیل کے محنت کشوں اور عوام کے ساتھ جوڑ تے ہوئے سامراجیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے والے حکمران طبقات کو اکھاڑپھینکنے میں ناکام رہی۔ PLO کی جانب سے قومی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے میں ناکامی کا فائدہ اسرائیلی اور عرب حکمران طبقات اور ان کے سامراجی پشت پناہوں نے اٹھایا۔ عرب حکمرانوں، بادشاہوں اور آمروں نے فلسطین کے مسئلے کو بیرونی خطرے کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنے ممالک میں محکوم اور استحصال زدہ عوام اور نوجوانوں کی بغاوتوں کو کچلنے کے لئے استعمال کیا۔ ایک طرف یہ بادشاہ، شیوخ اور رجعتی حکمران فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم پر دھاڑیں مار مار کر روتے رہے اور اسی دوران خاص طور پر سعودی بادشاہ، مصری آمرین اور خلیجی ریاستوں کے رجعتی شیخ اسرائیل کے سب سے بڑے پشت پناہ امریکہ کے دلال بنے رہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ 1967ء اور 1973ء میں عرب ممالک کو اسرائیل کے ہاتھوں شکست اٹھانا پڑی کیونکہ عام سپاہی اور چھوٹے افسران اپنے رجعتی حکمرانوں کے مفادات کی حفاظت کرنے کو راضی نہیں تھے۔ اس سے بڑھ کر عرب فوج کی قیادت کی نااہلی، غداری اور دھوکہ دہی کے بھی ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں۔ ’’مسلح جدوجہد‘‘ کی حکمتِ عملی جو کہ زیادہ تر فلسطینیوں کے زیرِ کنٹرول علاقے کے باہرسے کی جاتی تھی 1980ء تک جاری رہی اور بے کار ثابت ہوئی۔
تاہم اسی دوران، PLO کی قیادت کی طرف سے عوامی جدوجہد کوآگے بڑھانے میں مکمل ناکامی کے باوجود، اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی مزاحمت کا سب سے بڑا اور قابلِ تحسین مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ 1987ء میں پہلی انتفادہ کے انقلابی ابھار نے نہ صرف اسرائیلی ریاست کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا بلکہ اس کے جھٹکے واشنگٹن، پیرس اور لندن میں بھی محسوس کئے گئے۔
فلسطینی عوام کی جدوجہد اور دباؤ کو ہی PLOکی قیادت نے 1993ء کے اوسلومعاہدے میں استعمال کیا جہاں سامراجیوں نے ’’دوریاستی حل‘‘ (Two State Solution) پیش کرتے ہوئے فلسطینیوں کو کئی بڑی رعایتیں دینے کا وعدہ کیا جس کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی کی بنیاد پڑی۔
لیکن مسلح جدوجہد سے فلسطین کی آزادی قریب نہیں ہوئی اور رجعتی صیہونی حکمرانوں سے سامراجیوں کی نگرانی میں مذاکرات نے آزادی کے خواب کو مزیدطویل کردیا، اور اس خواب کی تعبیرآج پہلے سے زیادہ دور ہوچکی ہے۔ دوریاستی فارمولا تقریباً مر چکا ہے۔ غزہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل ہے جس میں 17 لاکھ افراد رہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ لولی لنگڑی باقاعدہ آزادی کے باوجود فلسطینیوں پر صیہونی ریاست کا فوجی اور اقتصادی جبر آج بھی جاری ہے۔
اس عرصے میں اسرائیل کے عام لوگوں کی حالتِ زار میں ذرا سی بھی بہتری نہیں آئی ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ بحران کے بعد سے اسرائیلی محنت کشوں اور نوجوانوں پر حکمران طبقات کے معاشی حملے اور کٹوتیاں اور بھی بڑھ گئی ہیں۔ ٹراٹسکی نے اسرائیل کے معرضِ وجود میں آنے سے بھی ایک عشرہ پہلے لکھا تھا ’’صیہونیت یہودی سوال (Jewish Question) کو حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، اس سے فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کا تنازعہ مزید خطرناک اور درد ناک ہوتا جاتا ہے‘‘۔
حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے ایک اسرائیلی ٹی وی چینل پر آکر اعتراف کیا کہ وہ ’’عالمی طور پر تسلیم شدہ‘‘ اسرائیل کی حدود میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس بیان کے بعد فلسطینیوں میں اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو گئی ہے اور اسے غدار قرار دیا جارہا ہے۔ مغربی کنارہ، جس پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے، اسرائیلی آباد کاریوں اور چیک پوسٹوں سے بھرا پڑاہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو اقوامِ متحدہ تسلیم کرتی ہے لیکن اس کے اسرائیل پر اقتصادی و علاقائی انحصار کو دیکھا جائے تو فلسطینی اتھارٹی کی اہمیت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کرپشن اور بد انتظامی کے ہاتھوں تباہ حال ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اسے اسرائیل مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کو دبانے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس کی اقتصادی حالت قابلِ رحم ہے اور سکیورٹی فورسز کا خرچہ بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ اکانومسٹ کے تازہ ترین شمارے میں لکھا ہے ’’۔ ۔ ۔ تاہم اس غیر یقینی صورتحال سے اسرائیلی کمانڈرز بہت پریشان تھے جس میں فلسطینی اتھارٹی کے 50000 فوجیوں کے لئے خوراک مہیا کرنا بھی شائد مشکل ہو جاتا۔ در حقیقت فلسطینی اتھارٹی کے بجٹ بحران سے اسرائیلی اتنے پریشان تھے کہ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کو 20کروڑ ڈالر ایڈوانس اور کئی ہزار فلسطینیوں کو اسرائیل میں کام کے لائسنس جاری کر دئیے۔ ’فلسطینی اتھارٹی کو بچانا اسرائیل کے مفاد میں ہے‘، ایک اسرائیلی افسر نے کہا‘‘۔ فلسطینی محنت کشوں اور نوجوانوں پر فلسطینی اتھارٹی کا جبر یہودی ریاست سے کم نہیں ہے۔

اسلامی بنیاد پرستی کا کردار
PLO میں شامل بائیں بازوکی تنظیموں کے انہدام اور الفتح کی قیادت کی طرف سے سامراج کی اطاعت، اسلامی بنیاد پرستی کے ابھار کا باعث بنی ہے جس سے معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوگیاہے۔ 1980ء کے آخر تک فلسطینی جدوجہد کی اصل طاقت PLOتھی جسے فلسطینی عوام کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل تھی۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے PLO کو نقصان پہنچانے اور تباہ کرنے کے لئے کئی حربے استعمال کئے۔ ان میں PLO کے اندر شر انگیزی پھیلانا، تحریک کے اندر تنازعات پیدا کرنا اور مخالف قوتوں کے درمیان اختلافات کو طول دینے جیسے طریقے شامل تھے۔ ان میں سب سے زیادہ فیصلہ کن حکمتِ عملی فلسطینی آزادی کی تحریک میں پھوٹ ڈالنے کے لئے اسلامی بنیاد پرستی کا استعمال تھا۔ بالکل یہی طریقہ کار نام نہاد مسلمان ممالک میں بائیں بازو کی تحریکوں، ٹریڈ یونین، اور مارکسسٹوں کو نقصان پہنچانے کے لئے امریکی سامراج 1950ء کی دہائی سے استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ ہم نے CIA کی ایماء پر مصر، شام، افغانستان، پاکستان، انڈونیشیااور دوسرے کئی ممالک میں کی جانے والی ایسی تخریب کاری دیکھی ہے۔ کئی دہائیوں تک اسرائیلی ریاست نے حماس اور اس جیسی دوسری اسلامی تنظیموں کی مالی کفالت کی اور انہیں پروان چڑھایا۔ ان خفیہ تعلقات سے متعلقہ بہت سا قابلِ بھروسہ مواد موجود ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ وال سٹریٹ جنرل میں چھپنے والا ایک مضمون ’’اسرائیل نے کیسے حماس کو جنم دیا‘‘ اس تعلق کو اور بھی واضح کرتا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے ’’اسرائیلی حکومت نے سرکاری طور پر حماس کے پیش رو گروپ ’مجمع الاسلامیہ‘ کو ایک خیراتی تنظیم (Charity) کے طور پر تسلیم اور رجسٹر کیاتھا۔ اسرائیل نے مجمہ کے ارکان کو ایک اسلامی یونیورسٹی، نئی مساجد، کلب اور سکول بنانے کی اجازت بھی دی۔ ۔ ۔ محمود مسلیح جو کہ فلسطینی مجلسِ قانون ساز کا ممبر اور حماس کا حمایتی ہے بتاتا ہے کہ کس طرح عام طور پر جارحیت پسند اسرائیلی فوجی حالات خراب ہونے تک خاموش کھڑے رہتے تھے۔ ۔ ۔ ’انہیں امیدتھی کہ ہم PLO کا متبادل بن جائیں گے‘۔ ۔ ۔ محمود ظاہر اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ دفاع یٹزک رابن سے ملتا رہا ہے، یہ ملاقاتیں اسرائیلی حکام اور PLO کے علاوہ فلیسطینی تنظیموں کے درمیان باقاعدہ مشاورت کا حصہ تھیں۔ مسٹر ظاہر جو کہ حماس کے بانیوں میں زندہ بچنے والے واحد آدمی ہیں اس وقت غزہ میں گروپ کے سینئرلیڈر ہیں‘‘۔
جس طرح سامراجیوں نے افغانستان اور پاکستان میں مجاہدین کی بنیاد ڈالی اور ان کی سپورٹ کی جو بعد میں طالبان اور القاعدہ میں تبدیل ہو گئے، اسی طرح اسرائیلی سامراج کے لئے حماس ایک بے قابو دیو بن گئی۔ تاہم مذہبی بنیاد پرستوں کی امریکی مخالفت اور انقلابی عوام کی سامراج مخالفت ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں۔ حماس نے 2006ء کے الیکشن اس لئے جیتے کیونکہ عوام PLO کے رہنماؤں کی کرپشن اور اسرائیل کے ساتھ ان کے دوستانہ رویے سے تنگ آچکے تھے۔ لیکن قومی بنیادوں پر فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ اسرائیل کے شہروں اور دیہاتوں پر راکٹ داغ کر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اسرائیل کے بچوں اور عام شہریوں کے قتل کے نتیجے میں صیہونی ریاست مزید مضبوط ہوتی ہے اور اسے فلسطینی عوام پر جبر کا جواز ملتاہے۔ حماس جو طریقہ کار استعمال کر رہی ہے وہ نیا نہیں ہے۔ PLO کی قیادت یہ تمام طریقے ماضی میں آزما چکی ہے جو ایک کے بعد دوسری شکست کا باعث بنے ہیں۔ فلسطینی عوام کے لئے ہمدردی اپنی جگہ لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

جنگ بندی کا کیا مطلب ہے؟
موجودہ تنازعے نے عرب حکمرانوں، خاص طور پر مصر اور نام نہاد اقوامِ متحدہ کاخصی پن ایک بار پھر واضح کر دیاہے۔ غزہ پر حملہ مغربی کنارے میں مزید عدم استحکام اور اردن میں مقیم فلسطینیوں کے مشتعل ہونے کا باعث بن سکتاہے۔ غزہ سے پہلے بھی اردن میں ایک عوامی بغاوت جاری ہے جس نے ہاشمی بادشاہت کو ہلا کے رکھ دیاہے۔
براہِ راست متاثر ہونے والا ملک تو مصر ہے۔ مصری حکومت غزہ پر حملے کے اثرات سے خوفزدہ ہوکر انتہائی اضطراب کے عالم میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کروانے کی کوششوں میں مصروف تھی اور اس سلسلے میں اسے ہیلری کلنٹن کی پوری حمایت حاصل تھی جو اسرائیل، رملّہ اور قاہرہ کے درمیان بھاگ دوڑ کر رہی تھی۔ معاہدے کے اعلان کے وقت ہیلری کلنٹن کی موجودگی ثابت کرتی ہے کہ اصل آقا کون ہے۔ بان کی مون بھی خطے میں سامراج کے خبر رساں بچے کی طرح بھاگ دوڑ کر رہا تھا جس سے تنازعات کو حل کرنے میں اقوامِ متحدہ کے اصل کردار کا پتا چلتاہے۔
جنگ بندی کے معاہدے میں فلسطین کی طرف سے مصر نے ضمانت فراہم کی ہے۔ اسرائیل غزہ میں ٹارگٹ کلنگ سمیت فضائی، سمندری اور زمین سے حملے بند کرنے پر راضی ہو گیا ہے۔ غزہ پر زمینی حملے کے مصر میں دھماکہ خیز نتائج برآمد ہوتے کیونکہ اخوان المسلمون لفاظی کی حد تک حماس کی حمایت کرتی ہے اور اپنے آپ کو فلسطینیوں کی خیر خواہ اور ٹھیکیدار دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے لوگوں کے لئے اس کی حمایت منافقانہ تقاریر سے بڑھ کے نہیں ہے۔ مورسی نے یقیناًاسرائیل کو یقین دہانی کروائی ہو گی کہ وہ غزہ میں ہتھیاروں کی سمگلنگ روکنے کے لئے اپنی تمام تر طاقت استعمال کرے گا اور اس طرح عوام کے سامنے اور بھی ننگا ہو گا۔
مغربی سامراجی بھی غزہ پر زمینی حملے کے نقصان دہ نتائج سے خوفزدہ تھے۔ اسرائیلی ریاست تنہائی اور یورپ اور امریکہ میں اپنے آقاؤں کی طرف سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ مصر، ترکی اور تیونس میں اسلامی حکومتوں کی وجہ سے حماس کی ہمت بڑھی ہوئی نظر آرہی ہے۔ لیکن یہ اسلامی حکومتیں سامراج کی بالواسطہ حمایت کے ذریعے ہی اقتدار میں آئی ہیں۔ 2011ء کی بہار میں شروع ہونے والے انقلاب کی نئی لہر سے خوفزدہ ہوکر CIA کے سابقہ مکار عہدے دار بروس ریڈل اور دوسرے کئی اہلکاروں نے اپنے سابقہ حلیف اخوان المسلمون کو سمجھوتے کے تحت اقتدار سونپا ہے۔ تیونس کی نئی حکومت کے اسلامی رہنما رشید غنوچی کو لندن سے لا کر برطانیہ کی خفیہ ایجنسی نے منصبِ اقتدار پر فائزکیا تھا۔ امیرِ قطر، بحرین کے شہزادوں (جو خود بحرین کے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں) اور مصر کے دائیں بازو کے وزیروں کی جانب سے غزہ کے دورے حماس کے اصل کردار کو واضح کرتے ہیں۔
لیکن یہ خستہ حال معاہدہ زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چل پائے گا۔ غزہ میں اور بھی بہت سے گروپ موجود ہیں جو حماس کے کنٹرول میں نہیں ہیں اور ان کی طرف سے اشتعال انگیزی مزید نقصانات کا باعث بن سکتی ہے۔ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ میں موجود خونی درندے بھی معاہدے سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ وہ ایک اور حملے کے لئے زور ڈال سکتے ہیں۔ یقیناًنیتن یاہو جب ٹی وی پر فتح کا اعلان کر رہا تھا تو اس کے الفاظ اور Body Language میں کوئی مطابقت نہیں تھی۔
امریکی سامراج کو خطرہ ہے کہ یہ تنازعہ خطے میں جنگ کے شعلے بھڑکانے کا باعث بن سکتا ہے جس میں ایران پر حملہ بھی شامل ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پورا خطہ پہلے کبھی نہ دیکھی گئی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو جائے گا۔ خلیج میں کسی جنگ سے تیل کی قیمتیں اس حد تک بڑھ جائیں گی کہ عالمی معیشت ایک اور تباہی کا شکارہو سکتی ہے۔
غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی جبر سے پاک آزادانہ زندگی گزارنے کی جدوجہد بالکل جائز اور حقیقی ہے۔ یہ قبضے، جبر، استعمار اور سامراج کے خلاف جنگ ہے۔ ہر انقلابی مزدور اور کسان کا بنیادی فرض ہے کہ سامراج کی معاونت سے جاری اسرائیلی ظلم و استبداد کے خلاف فلسطینیوں کے دفاع میں ان کی مدد کرے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے پچھلے ساٹھ سال کی فلسطینی جدوجہد سے اسباق سیکھتے ہوئے درست نتائج اخذ کئے جائیں۔ ’’مسلح جدوجہد‘‘، انفرادی دہشت گردی اور سامراج کی حمایت میں مزاکرات جیسے تمام تر طریقہ کار اس تنازعے کو حل کرنے میں بالکل ناکام رہے ہیں جو کہ اب ایک رستا ہوا زخم بن چکا ہے۔
فلسطینیوں کا مقابلہ ایک انتہائی طاقتور دشمن سے ہے۔ غزہ میں وقوع پذیر ہونے والے حالیہ واقعات نے ثابت کیا ہے کہ اس خونی درندے کو محض عسکری طریقہ کار سے شکست نہیں دی جاسکتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایسی قوت بھی ہے جو اسرائیل، عالمی سطح پر اس کے سامراجی آقاؤں اور خطے میں اس کے حلیفوں سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہو؟
ہم اس کا جواب پر زور انداز میں ہاں کی صورت میں دیتے ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کے زیرِ اثر عوام کی طاقت!اس کا واضح اظہار عرب انقلاب میں ہوا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر دونوں انتفادہ تحریکوں نے کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت کیا ہے کہ فلسطین کے عوام منظم ہو کر جرات مندانہ طریقے سے لڑ سکتے ہیں۔ فلسطینی عوام کی ہمت اور بہادری پر کوئی سوال نہیں ہے لیکن فتح کے حصول کے لئے یہ اکیلے ناکافی ہیں۔
بحر اوقیانوس سے بحر ہند تک ابھرنے والے عرب انقلاب نے 2011ء میں اسرائیل کے اندر بھی ایک عوامی تحریک کو جنم دیا تھا۔ 7اگست کے دن تین لاکھ اسرائیلی شہری تل ابیب کی سڑکوں پر نکل آئے تھے جس کی کل آبادی پانچ لاکھ سے کم ہے۔ لاکھوں لوگ یروشلم، حائفہ، اشدود اور اسرائیل کے دوسرے شہروں میں بھی حکومت کے خلاف مظاہروں میں شریک تھے۔ اپنے معیارِ زندگی کو بچانے اور حکومت کی کٹوتیوں کے خلاف 77لاکھ کی کل آبادی میں سے پانچ لاکھ سے زائد لوگ باہر نکلے۔ کچھ نے چے گویرا کے پوسٹر اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر ’’سماجی انصاف کے لئے‘‘، ’’استعفیٰ دو، ورنہ اب یہاں مصر بنے گا‘‘ جیسے نعرے درج تھے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ استعفے کا لفظ عربی میں لکھا ہوا تھا (ارحل)۔
اسرائیل کی 63سالہ تحریک میں ایسی تحریک پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی، اور یقینایہ آخری بھی نہیں ہوگی۔ اس تحریک نے فلسطین کی آزادی اور مشرقِ وسطیٰ میں انقلاب کو نئی جہت اور سمت دی ہے۔ اس نے سب سے بڑھ کر اسرائیلی نوجوانوں اور محنت کشوں پر طبقاتی جدوجہد کے اثرات اور امکانات کو واضح کر دیا ہے جو کہ پورے خطے کا منظر نامہ بدل سکتے ہیں۔
صرف اور صرف طبقاتی جڑت اور جدوجہد کے ذریعے منظم ہو کر ایک انقلابی تحریک کے ذریعے سے صیہونی ریاست اور رجعتی عرب حکومتوں کو اکھاڑ کر اس خطے کے عوام آزاد ہوسکتے ہیں اور سیاسی، سماجی، معاشی اور قومی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن قائم کر کے ہی یہ جدوجہد مکمل اور کامیاب ہو سکتی ہے۔
مارکسسٹ ڈاٹ کام، 23 نومبر 2012ء

متعلقہ:
غزہ پر اسرائیلی جارحیت؛ مقاصد کیا ہیں؟

قومی اور عالمی ضمیر