کہیں کوئی آ نہ جائے!

[تحریر: لال خان]
ملک میں بڑھتے ہوئی دہشت گردی کے ساتھ ریاست کے مختلف ادارے اپنی ناکامی اور بے بسی کو چھپانے کے لئے ’’سخت گیری‘‘ کا ناٹک بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔ پولیس کے بڑھتے ہوئے ناکوں سے لے کر اہم شخصیات کے سیکیورٹی پروٹوکول میں سختی تک، عوام پر ’’دہشت گردی کے خلاف اقدامات‘‘ کا جبر بڑھتا جارہا ہے۔ ’’تحفظ پاکستان آرڈیننس‘‘ بھی اسے سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا مقصد دہشت گردی کو جواز بنا کر معاشی بدحالی اور نجکاری کے خلاف محنت کشوں کی کسی متوقع بغاوت کو کچلنے کی پیشگی تیاری کرنا ہے۔ پاکستان کا ہر شہری بخوبی واقف ہے کہ ان نمائشی اقدامات سے نہ تو دہشت گردی کم ہورہی ہے اور نہ ہی ہوسکتی ہے۔ الٹا ریاستی اداروں کی ’’سختی‘‘ نے دہشت گردی سے بدحال اور خوفزدہ عوام کی زندگی اور بھی اجیرن کر دی ہے۔ ہر طرف عام آدمی کو ہی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ غریب عوام اور محنت کش چکی کے دو پاٹوں کے درمیان کچلے جارہے ہیں۔ پولیس سے لے کر مسلح افواج تک، مذہبی بنیاد پرستوں کی بربریت کا نشانہ بننے والوں کی اکثریت غریب سپاہیوں اور نچلے درجے کے اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ اکا دکا اعلیٰ افسران یا جرنیل اگر دہشت گردوں کا نشانہ بنیں تو اسے قومی سانحہ قرار دے دیا جاتا ہے لیکن حکمرانوں کی اس جنگ میں لقمہ اجل بننے والے ہزاروں گمنام سپاہی محض ’اعداد‘ بن کے رہ گئے ہیں۔ ان باوردی محنت کشوں کی شہادت کے بعد ان کے خاندان اور لواحقین کی محرومی اور معاشی بدحالی میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ حکومت ورثا کے لئے جن قلیل ’’معاوضوں ‘‘ کااعلان کرتی ہے وہ یا تو ملتے ہی نہیں ہیں یا پھر کئی کئی مہینوں اور سالوں تک التوا کا شکار رہتے ہیں۔
ریاست کے ہر ادارہ اس طبقاتی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے اور حکومتی افسر شاہی کے ہر اقدام سے محروم طبقات کی جانب تضحیک اور تحقیر کی بو آتی ہے۔ ملک سے باہر بھی عام شہریوں کے ساتھ حقارت آمیز رویہ وزارت خارجہ کی پالیسیوں اور پاکستان کے سفارت خانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ پردیس کے تلخ حالات میں کام کرکے پاکستان کو زرمبادلہ فراہم کرنے والے محنت کشوں کا جو حشر ان کے اپنے ملک کے سفارتکار اور افسران کرتے ہیں اسے دیکھ کر گوری چمڑی والے آقا بھی شرما جاتے ہوں گے۔ سفارتخانوں میں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے انہیں کئی کئی مہینے ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔ بیرون ملک دوروں میں تارکین وطن سے بھاری چندے لینے والے سیاستدانوں کے پاس اقتدار میں آنے کے بعد ان کی معمولی سفارتی اور انتظامی ضروریات پر توجہ دینے کا وقت بھی نہیں ہوتا ہے۔
صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ یہاں آنے والے ترقی یافتہ ممالک کے ’’گورے‘‘ محنت کشوں کو بھی طبقاتی تعصبات کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ مغربی امراء، سیاستدانوں اور عربی شیخوں کی طرف پاکستانی سفارتکاروں کا رویہ شرمناک حد تک غلامانہ ہوتا ہے جبکہ محنت کشوں کو ملک سے باہر بھی بالکل اسی طرح دھتکارہ جاتا ہے جیسے ملک کے اندر۔ ویزوں کے معاملے میں تفریق بالکل واضح ہے۔ پروسیجر کو اس قدر پیچیدہ اور اذیت نام بنا دیا گیا ہے کہ غریب آدمی پاکستان جانے کا ارادہ ہی ترک کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ مثلاً برطانیہ کا کوئی عام شہری اگر پاکستان آنا چاہے تو اسے پاکستانی ہائی کمیشن شرائط اور قوائد و ضوابط کی ایسی بھول بھلیوں میں ڈالتا ہے کہ بندہ پیشگی ’’نہ‘‘ سمجھ لیتا ہے۔ پاکستانی ویزے کے خواہشمند برطانوی شہریوں کو فارم پر 46 سوالوں کے جواب دینے پڑتے ہیں۔ امتحانی پرچے سے بھی زیادہ مشکل اس پاکستانی ویزہ فارم میں ایسے نازک اور ذاتی نوعیت کے سوال بھی پوچھے جاتے ہیں جنہیں ترقی یافتہ ممالک میں گھٹیا اورمایوب تصور کیا جاتا ہے۔ فارم پر کرنے والے پر ایک خوف طاری ہوجاتا ہے کہ اس ملک میں جانے واے پہلے سوالات کا یہ عالم ہے تو وہاں جاکر یہ لوگ کیا حشر کریں گے۔ پاکستان کے محکمہ داخلہ اور محکمہ خارجہ کی طرف سے مرتب کئے گئے اس خوفناک امتحانی پرچے سے اس ملک کے حکمرانوں اور بیوروکریسی کی جو تنگ نظر، دقیا نوسی اور رجعتی نفسیات عیاں ہوتی ہے وہ ان مذہبی جنونیوں سے کسی طور مختلف نہیں ہے جن کی ’’دہشت گردی کے خلاف‘‘ یہ خواتین و حضرات جنگ کرنے کے دعوے دار ہیں۔ حکمرانوں کی اس قسم کی بیہودہ حرکات سے پاکستان کے عوام بھی عالمی سطح پر بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے ساتھ نتھی ہوگئے ہیں۔
پاکستان کے عوام تنگ نظر ہیں نہ ہی قدامت پرست۔ ملک میں بسنے والی مختلف قومیتوں کی ثقافتوں میں مہمان نوازی، گرمجوشی اور رواداری کے احساس پر مبنی انسانی رشتوں کی روایات اور اقدار ملتی ہیں۔ دوسری طرف ریاست کی منافقت کی انتہا یہ ہے کہ ایک طرف سیاحت کو فروغ دینے کے چرچے کئے جاتے ہیں تو دوسری طرف بیرون ملک کا کوئی عام شہری پاکستان آنابھی چاہے تو اسے اتنا ذلیل کیا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے ایسی کسی ’’حرکت‘‘ سے توبہ کر لیتا ہے۔ حکمرانوں نے اس ملک کا جو حال کردیا ہے، یہاں کا انفراسٹرکچر جس قدر بوسیدہ ہے، امن و امان کی جو صورتحال ہے اس کے پیش نظر یہاں آنا ہی کون چاہے گا؟لیکن آہنی عزم والا کوئی سرپھرا اگر پاکستانی افسر شاہی کی رکاوٹوں کو عبور کر کے، کئی مہینے انتظار کرنے کے بعد ویزہ لینے میں کامیاب بھی ہوجائے تو امیگریشن اور کسٹم کے حکام ایک اور ’’طبقاتی امتحان‘‘ لینے کے لئے تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ سرمایہ داروں، سامراجی ممالک کے سفارتکاروں اور سیاستدانوں کے تو تلوے تک چاٹے جاتے ہیں، انہیں تو اپنے پاسپورٹ پر خود مہر لگوانے کی زحمت بھی نہیں دی جاتی ہے لیکن عام غیر ملکی شہری کسٹم کے شکاریوں کے لئے لذیز شکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’’گرین چینل‘‘ کی جعل سازی پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے۔ انسان کے کپڑے، اس کی باڈی لینگویج اور عادات و اطوار دیکھ کر ’’موٹی سامی‘‘اور عام آدمی کا فرق معلوم کر لیا جاتا ہے۔ اس مرحلے پر ’’بوتلیں‘‘ قابو کرنا کسٹم اہلکاروں کی اولین ترجیح ہوتی ہے اور یہ اب ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ عام کپڑوں میں پھرنے والے ’’ایجنٹ‘‘ مسافروں کو ’’سونگھ‘‘ کر اشاروں سے کسٹم والوں کو پیشگی مطلع کر دیتے ہیں۔ لین دین ہوتا ہے اور معاملات طے پاجاتے ہیں۔ بصورت دیگر ایسے ملک کے کسٹم حکام ’’بوتلیں‘‘ ضبط کر لیتے ہیں جہاں سرکاری طور پر پابندی کے باوجود شراب کی پیداوار اور استعمال میں دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت تیز ترین اضافہ ہورہا ہے۔ سماج کی جڑوں میں سرائیت کردہ ضیاالحقی منافقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے کیا کیا روپ ہیں!دہشت گردی میں قتل ہونے والے بھی غریب ہیں اور اس کی ’’روک تھام‘‘ کے چکر میں بھی غریب ہی ذلیل ہورہے ہیں۔ ریاست دہشت گردی کی روک تھام میں جہاں مکمل طور پر ناکام ہے وہاں اس کے ادارے اور اعلیٰ عہدہ داراس عفریت کو اپنی لوٹ مار، کرپشن اور سیاسی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک انگریزی رونامے میں اے ایف پی کے توسط سے ایک اسکینڈل سامنے آیا ہے جس میں اعلیٰ افسران کی جانب سے ’’کاؤنٹر ٹیرر ازم فنڈ‘‘ میں سے پرتعیش قالین، قیمتی زیورات اور تحفوں کی خریداری کی قلعی کھولی گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ ایک بیمار سماج کی علامات ہیں جہاں ذلت، وسیع معاشی خلیج، طبقاتی تفریق اور اونچ نیچ نہ صرف کرپشن کا زہر پھیلا رہی ہے بلکہ بدعنوانی ایک سماجی معمول بن چکی ہے۔ اس بیماری کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کے گل سڑ جانے سے اٹھنے والا تعفن ہے جو سماج کو بدبو دار کرتا چلا جارہا ہے۔