تحریر: عمران کامیانہ:-
سال 2012-13کا ’’جمہوری‘‘ بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔بڑے بڑے محل نما ائر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھے پینٹ کوٹ اور ٹائی میں ملبوس انسان نما ’’معیشت دانوں‘‘ نے جھوٹ، فریب اور بے شرمی کے اس پلندے کی تیاری میں کافی محنت کی ہوگی۔لیکن یہ تمام تر محنت کارگر ثابت ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی کیونکہ اعداد و شمار سے زیادہ عوام کی حالت زار بولتی ہیں اور پاکستان کے محنت کش عوام کی حالت چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ یہ نظام اور ریاست سیاسی، معاشی و سماجی طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کی بوسیدگی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب اعداد و شمار کی ہیر پھیر بھی آسان نہیں رہی۔جھوٹ بولنے کی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے اور عام آدمی کسی بھی قسم کے حکومتی وعدے پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ وہ اس نظام کی اصلیت کو جان چکا ہے۔
ایک ایسی ریاست جہاں بجلی، تیل اور گیس سمیت روز مرہ استعمال کی ہر چیز کی قیمت میں تقریباً ہر ہفتے اضافہ ہوتا ہو اور جس کی دو تہائی معیشت کالے دھن پر مبنی ہو، وہاں اس دھوم دھڑکے سے بجٹ پیش کرنا بذاتِ خود ایک مذاق سے کم نہیں ہے۔ ویسے اس بجٹ کے ہونے نہ ہونے سے عام آدمی کی زندگی میں کیا فرق پڑنے والا ہے؟اور اسمبلی میں ہونے والے ’’اپوزیشن ‘‘ کے احتجاج نے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا ’’جمہوری‘‘ فریضہ سر انجام دیا ہے۔مسلم لیگ (ن)کی سربراہی میں اپوزیشن کی دوسری جماعتیں احتجاج کے نام پر ہلڑ بازی تو یوں کر رہی تھیں جیسے اپنے دور حکومت میں انہوں دودھ اور شہد کی جو نہریں جاری کی تھیں وہ موجودہ حکومت کی نا اہلی کے باعث خشک ہورہی ہیں۔کیا پاکستان میں موجود کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس عام آدمی کی زندگی میں بہتری کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اور معاشی پالیسی موجود ہے؟نہیں! تما م تر مسلم لیگوں سے لے کر تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم سے لے کر ملاؤں تک، سب کی سب سیاسی جماعتیں منڈی کی معیشت اور نیو لبرل سرمایہ داری پر یقین رکھتی ہے اور اسی سامراجی نظام کی دلال ہیں۔
چند دہائیاں پہلے سالانہ بجٹ کے روز پورا ملک رک سا جاتا تھا۔ہر شخص کی کچھ نہ کچھ امیدیں یا خوف ہوتے تھے۔عوام بجٹ کی رسم کو کسی حد تک سنجیدہ لیتے تھے۔ اس وقت کسی نہ کسی شکل میں معیشت میں کچھ تھوڑا بہت استحکام بھی ہوتا تھا اور بجٹ میں کیے گئے اعلانات میں تھوڑی سی سچائی بھی ہوتی تھی۔ لیکن اب وہ سنجیدگی اور توجہ ختم ہو چکی ہے اور جب تک یہ سماجی معاشی نظام موجود ہے معیشت ہر دم مزید کھوکھلی ہوتی جائے گی۔
گزشتہ عرصے میں بجٹ صرف جھوٹ اور مکاری کا ایک پلندہ بن کر رہ گیا ہے۔ تقریباً ہر دوسرے دن قیمتوں میں اضافے اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے اعلانات ہوتے رہتے ہیں۔ ایک ہفتہ بھی نہیں گزرپاتا کہ عوام پرمہنگائی کا حملہ کر دیا جا تا ہے اوریہ کہہ کر ان کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے کہ اس اضافے سے عوام کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اب بجٹ میں سوائے دھوکے، فریب اور جعلسازی کے کچھ نہیں ہوتا۔ حکومت اپنی لوٹ مار کو عوام کی فلاح کے طور پر پیش کرتی ہے اور اعداد و شمار کو بھی مسخ کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے نام پر عوام کو مزید دھوکہ دینے کے لیے شور تو مچاتی ہے لیکن اس کا کوئی حل پیش نہیں کرتی۔ درحقیقت آج کی تمام سیاسی جماعتیں اس سماجی معاشی نظام کو حتمی سمجھ کر اس سے مصالحت کر چکی ہیں اور مذہبی جماعتوں سے لے کر قوم پرستوں تک تمام کا معاشی ایجنڈا ایک ہی ہے۔ اس لیے کوئی حقیقی اپوزیشن کی سیاسی جماعت بھی نہیں۔اپنے اس خصی پن کو چھپانے کے لیے وہ شورزیادہ مچاتے ہیں اور جھگڑے اور ہاتھا پائی سے اپنے ناٹک میں مصالحہ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور سرکاری اعداد و شمار‘‘۔اعداد و شمار کو اس طرح مسخ کیا جاتا ہے کہ سماج کی حقیقی تصویر چھپ جاتی ہے اور لوگوں کو مزیدکنفیوز کر دیا جاتا ہے۔
ٹی وی اور اخبارات میں جاری بجٹ پر مباحثوں میں بھی تمام شرکاء یہ بات پہلے سے تسلیم کر چکے ہوتے ہیں کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام حتمی اور آخری ہے اور اسی کے اندر حل تلاش کرنا ہو گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ بربادی کاحل اس سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے اور یہاں موجود سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی دولت ضبط کرنے سے ہی ہو گا۔اگر یہاں موجود معاشی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو ان پالیسیوں کا مقصد سرمایہ داراور جاگیر دارحکمران طبقات کا تحفظ ہے اور اس میں موجودہ حکومت سمیت گزشتہ تمام حکومتیں کامیاب رہی ہیں۔
بجٹ میں پیش کئے گئے اعدادو شمار بذاتِ خود پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔رہی سہی کسر میڈیا میں آنے والے بورژوا معیشت دانوں اور اینکرز نے پوری کر دی۔لیکن یہ تمام تر تنقید سرمایہ داری کی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے کی جاتی ہے۔کیونکہ میڈیا بذاتِ خود اسی سرمایہ دارانہ ریاست کا ایک ستون ہے اور آزادی اظہار کے نام پر اس نظام کو تحفظ فراہم کرنا اس کا اولین فریضہ ہے۔
بجٹ میں سب سے زیادہ سرمایہ جن دو شعبوں کے لئے مختص کیا گیا ان پر کسی قسم کی بحث یا تنقید شاذو نادر ہی دیکھنے کو ملے گی۔چونکہ ان شعبوں سے سامراجی اداروں اور ’’پاک فوج‘‘ کے مفادات وابستہ ہیں، لہٰذایہاں پر آکر ’’میڈیا کی آزادی‘‘ اور ’’اپوزیشن کا احتجاج ‘‘ دونوں دم توڑ جاتے ہیں۔یہ شعبے ہیں ملکی و غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی (Debt Servicing)اور دفاع۔
سب سے پہلے قرضوں کا کچھ تجزیہ ہو جائے۔بجٹ میں قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 960ارب یعنی تقریباً ایک ٹریلن روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔جوکہ کل ٹیکس ریوینیو (2.45ٹریلن روپے)کا 40%فیصد بنتا ہے۔اس طرح محنت کش عوام کی ہڈیوں سے کشید کئے گئے ٹیکس کا 40فیصد ملکی و غیر ملکی بنکوں کے قرضے اتارنے میں صرف ہو گا۔پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے گزشتہ چار سالوں میں جو قرض لیا ہے وہ پچھلے ساٹھ سال میں لئے گئے کل قرض کے تقریباً برابر ہے۔جون 2008ء کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کا کل قومی قرضہ 6ٹریلین روپے تھا اور اس طرح ہر پاکستانی 34500روپے کا مقروض تھا۔ستمبر 2010ء میں یہ قرضہ 10ٹریلین روپے، جبکہ دسمبر 2011ء میں 11.7ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔یوں اس وقت ہرپاکستانی تقریباً70000روپے کا مقروض ہے۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھربوں روپے کے یہ قرضے جو پاکستانی ریاست لیتی ہے آخر جاتے کہاں ہیں؟تو اس کا جواب بالکل سادہ ہے۔یہ قرضے جہاں سے آتے ہیں وہاں ہی واپس چلے جاتے ہیں۔فرق صرف یہ پڑتا ہے عام شہری پر قرضوں اور ٹیکس کا بوجھ بڑھ جاتا ہے جس سے اس کی حالت پہلے سے ابتر ہو جاتی ہے۔سب سے پہلے تو قرضے سامراجی اداروں مثلاًIMFاورWorld Bankکی سخت شرائط اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ان شرائط میں نجکاری، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے ’ساز گار‘ ماحول(یعنی لوٹ مار کی کھلی اجازت) De-Regulationsاور ٹیکسوں میں اضافہ شامل ہوتا ہے۔اس طرح ہر ایک ڈالر جو قرض کی شکل میں دیا جاتا ہے اپنے ساتھ کئی ڈالر واپس لے جاتے ہوئے ریاست کو مزید قرضے لینے پر مجبور کرتا ہے۔مئی 1999ء میں ایک اینٹی گلوبلازیشن تنظیم کے مستند اندازے کے مطابق تیسری دنیا کے ممالک کو قرضوں یا امداد کی مد میں ملنے والا ہر ایک ڈالر اپنے ساتھ 25ڈالر واپس لے کر جاتا ہے۔قرضوں کی مد میں ملنے والی رقم کا بڑا حصہ دراصل کرپٹ حکمرانوں کی لوٹ مار اور کرپشن کی بھینٹ چڑھ کر واپس انہی بینکوں میں واپس چلا جاتا ہے جہاں سے قرضے لئے جاتے ہیں۔باقی بچنے والی رقم ریاستی مشینری کی شاہ خرچیوں اور عیاشی کی نظر ہو جاتی ہے۔اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر اگر کچھ سرمایہ ترقیاتی کاموں کے لئے مختص بھی ہوتا ہے تو ٹھیکیداری نظام اور بیوروکریسی کی نچلی پرتوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ قرضوں سے عیاشی حکمران کرتے ہیں لیکن ادائیگی غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی پر لگائے جانے والے بھاری ٹیکسوں سے ہوتی ہے۔یوں قرضوں کا یہ لین دین ایک بھیانک دھوکہ ہے جو پاکستان کے غریب محنت کشوں کے ساتھ سامراج کے دلال حکمران گزشتہ چھ دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں۔
حکومت نے اس بجٹ میں ٹیکسوں کی مد میں 2.38کھرب روپے اکٹھے کرنے کا ٹارگٹ رکھا ہے جو کسی بھی صورت پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ پچھلے بجٹ میں FBRکے لئے ٹیکس کا ٹارگٹ 1667ارب روپے رکھا گیا تھا جس میں سے 1558ارب روپے ہی اکٹھے ہو پائے تھے۔لہٰذا اس بار اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لئے بجلی اور پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا جس سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ موجودہ بجٹ میں مالیاتی خسارہ 4 %یعنی 1.1ٹریلین روپے ظاہر کیا گیا ہے لیکن اس میں بہت سی حکومتی ادائیگیاں شامل نہیں ہیں۔اصل خسارہ% 7سے 9%کے درمیان ہے یعنی جو اعداد ظاہر کئے گئے ہیں ان سے دوگنا، جو 2ٹریلین روپے بنتا ہے۔اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے عوام پر مزید ٹیکس لگانے اور نوٹ چھاپنے کے ساتھ ساتھ مزید قرضے لئے جائیں گے۔یوں Debt Servicingکی مد میں 1ٹریلین سے کہیں زیادہ ادائیگیاں کرنی پڑیں گی جس سے آنے والے سالوں میں بجٹ خسارہ مزید بڑھے گا جسے پورا کرنے کے لئے مزید قرضے لئے جائیں گے!
بجٹ میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ رقم(545ارب روپے ) ’’دفاع‘‘ کے لئے مختص کی گئی ہے۔پچھلے بجٹ کی نسبت اس باردفاعی بجٹ میں 35ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔بجٹ 2010-11ء میں دفاع کے لئے 495ارب روپے مختص کئے گئے تھے جنہیں بعد میں بڑھاکے 510ارب کر دیا گیا تھا۔اسی طرح کی صورتحال اس بار بھی پیش آسکتی ہے۔لیکن قرضوں کی طرح دفاعی بجٹ کے معاملے میں بھی حکومت غلط اعدادو شمار ظاہر کرتی ہے۔افواج پر ہونے والے بہت سے اخراجات سویلین خرچوں میں چھپائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر فوجیوں کو دی جانے والی پنشن دفاعی بجٹ میں شامل نہیں۔اسی طرح دوسرے بہت سے اخراجات سویلین بجٹ میں شامل ہوتے ہیں۔
’’پاک افواج‘‘(یا پھر یہاں ’’پاک جرنیل‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہو گا ) پر خرچ ہونے والی اصل رقم، بجٹ میں ظاہر کردہ رقم سے دوگنی ہے۔Arms Control Associationکے اندازے کے مطابق 2010-11ء میں فوج اور دفاع پر خرچ ہونے والی رقم 720ارب سے زیادہ تھی جس میں سے 360ارب ایٹمی اساسوں کی ترویج پر خرچ کئے گئے۔عین ممکن ہے کہ دفاعی اخراجات اس اندازے سے بھی زیادہ ہوں۔یوں دفاع اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 1505ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
دفاع کے لیے رکھی گئی رقم پھر اسلحے کی خریداری کے سلسلے میں سامراجی ممالک میں واقع اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مالکان کی جیب میں جاتی ہے جبکہ یہاں کے حکمران بڑی بڑی کمیشنیں اور کک بیکس کھاتے ہیں۔ انتہائی کم بجٹ دیگر تمام معاملات کے لیے مختص ہوتا ہے جس سے سماجی ترقی کا کوئی امکان بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ ریاست کی اس لوٹ مار کے باعث سماجی انفرا اسٹرکچر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور دیگر سامراجی اداروں کے رحم و کرم پر ہے۔ یعنی مزید غیر ملکی قرضہ جسے سود سمیت واپس کرنا ہو گا۔ یہ خونی چکر ہر روز مزید زہریلا ہوتا جا رہا ہے۔
عالمی معاشی بحران کے باعث پاکستان سے غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہو رہی ہے، منڈی سکڑ رہی ہے اور کساد بازاری گہری ہو رہی ہے۔برآمدات میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے جس کے باعث تجارتی خسارہ کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ،مالیاتی اور بجٹ خسارہ بھی بڑھا ہے۔ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائرجو 16ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں، برآمدات میں کمی اور درآمدات میں تیز ترین اضافے کے باعث تیزی سے کم ہو رہے ہیں جو یکدم ختم بھی ہو سکتے ہیں۔اگلے مالی سال کے دوران حکومت کو غیر ملکی قرضوں کی مد میں چار ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جس سے روپے کی قدر میں مزید کمی ہو گی۔
امیروں پر ٹیکس عائد کرنے کے بیان جھوٹ پر مبنی ہیں۔نجکاری، لبرلائزیشن اور ری اسٹرکچرنگ کی پالیسیوں کا مطلب صرف ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرمایہ داروں کے منافعوں میں مزید اضافہ ہے۔ عوام کی حالت زار ان سے مزید ابتر ہو گی۔ لبر لائزیشن کا مطلب ہے کہ سرمایہ دار منافع حاصل کر کے اسے کہیں بھی منتقل کرنے میں آزاد ہو۔ری اسٹرکچرنگ کا مطلب ہے کہ مستقل ملازمت کی جگہ ٹھیکے پر ملازمت دی جائے اور مزدوروں کے صحت،تعلیم اور یونین کے حقوق غصب کر لیے جائیں۔ FDIیا غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کی نعرے بازی ہر سیاستدان کر رہا ہے جبکہ اس کا مطلب روزگار میں اضافہ قطعاً نہیں ہے بلکہ محنت کشوں کے استحصال میں اضافہ ہے۔ آج کے عہد کی سرمایہ کاری لیبر intensiveکی بجائے کیپیٹلintensiveہے۔ یعنی کم سے کم مزدوروں سے زیادہ سے زیادہ منافع نچوڑا جائے۔ان کے کام کے اوقات کارمیں اضافہ اور سہولیات میں کمی سے ان کا استحصال مزید شدید کیا جائے۔
یعنی اس نظام میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اگر بجٹ پیش کرے گی تو وہ عوام کے لیے مزید بربادی کا ہی باعث بنے گا کیونکہ موجودہ نظام اور اس پر براجمان عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کی منشا کے بغیر اس نظام کو نہیں چلایا جا سکتا۔ اور ان اداروں کی مجوزہ پالیسیاں وہی ہیں جس کی سزا عوام آج بھی بھگت رہے ہیں۔لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی براہ راست نجکاری کی ہی دین ہے۔ جب سے IPPکو بجلی پیدا کرنے کی اجازت دی گئی اس وقت اسے ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں میں تو اربوں ڈالر کا اضافہ ہوا لیکن عوام کی ذلت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ان ہاتھیوں پر ٹیکس لگانے کی جرات اس نحیف ریاست میں نہیں۔ یہ تو ملکی کمپنیوں پر ٹیکس نہیں لگا سکتی۔ پاکستان کی سب سے بڑی نجی کمپنی فوجی فاؤنڈیشن ہے جو فوج کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ کوئی حکومت اس ادارے پر ٹیکسوں میں اضافہ نہیں کر سکتی۔
اس لیے ٹیکسوں کا سارا بوجھ بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں عوام پر ہی نازل ہو گا۔ مہنگائی، بیروزگاری میں اضافہ ہو گا۔تنخواہوں میں ہونے والے اضافے کوافراط زر کھا جائے گا۔ہر گزرتا دن عوام کے معیار زندگی کو مزید گرائے گا اور اس جہنم کی مزید گہرائی میں لے جائے گا۔
موجودہ بجٹ میں بجلی کے بھیانک بحران سے نمٹنے کے لئے واپڈا اور پیپکو کے لئے محض 134ارب کی سبسڈی کا اعلان یوں کیا گیا جیسے شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ سے نڈھال غریب پاکستانیوں پر کوئی بہت بڑا احسان کیا جا رہا ہو۔اسی طرح ایک بار پھر انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعلیم اور صحت کے لئے صرف 40ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔یعنی ہر پاکستانی کے لئے 222روپے! اگر یہاں حکومت کی یہ دلیل مان بھی لی جائے کہہ شعبے مکمل طور پر صوبوں کو منتقل کیے جا چکے ہیں، تو پھر صوبائی بجٹوں میں ان شعبوں میں ہونے والے اخراجات کا اندازہ آئندہ چند روزمیں ہوجائے گا۔
صرف 1968-69ء میں ایک انقلاب کے بعد قائم ہونے والی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اس قابل تھی کہ اپنا وزیر خزانہ ورلڈ بینک کی مرضی کے بغیر رکھ سکتی۔ یہی وہ واحد حکومت تھی جس نے صحت اور تعلیم کے لیے 42.3فیصد بجٹ رکھا۔اس کے علاوہ تمام حکومتوں میں اس شعبے کے لیے بجٹ 5فیصد سے کم ہی رہا۔1972-73ء میں جب ڈاکٹر مبشر حسن نے بجٹ پیش کیا تو صحت اور تعلیم کے شعبوں کو نیشنلائز بھی کرلیا گیا تھا۔لیکن اس وقت بھی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ نہیں ہو سکا اور ان معاشی پالیسیوں کو جاری نہیں رکھا جا سکا۔
اس تما م تر بحث سے پاکستانی ریاست و معیشت کی خوفناک اصلیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کل ملکی سرمائے کا لگ بھگ 80%دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پرصرف ہو جاتا ہے۔باقی بچنے والے سرمائے کا بڑا حصہ ’’ریاستی امور‘‘ چلانے پر لگتا ہے۔رہی سہی کسرسیاستدانوں اور بیوروکریٹوں کی کرپشن اور لوٹ مارپوری کر دیتی ہے۔یوں بھرے ہوئے جام میں سے مشروب کے چند قطرے نسلوں سے پیاس کے ستائے ہوئے غریب عوام کو نصیب ہو پاتے ہیں جس کے بدلے میں ان سے خون کی ندیاں نچوڑی جاتی ہیں۔خود حکومتی عہدیدار کئی بار اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں۔فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے چیئر مین سلمان صدیقی نے 23اکتوبر 2011ء کو ایک بیان میں بتا یا کہ FBRکی جانب سے اکٹھے کئے گئے 1558ارب روپوں میں سے 1200ارب دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوئے۔
موجودہ بجٹ میں جی ڈی پی میں شرح اضافہ کا ٹارگٹ 4.2%رکھا گیا ہے۔معیشت سے تھوڑی سی بھی واقفیت رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ یہ ایک دھوکہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی سالوں سے رکی ہوئی (Stagnant)ہے بلکہ بعض ماہرین کے مطابق گراوٹ کا شکار ہے۔جس کی بڑی وجہ توانائی کا بحران اور بگڑتے ہوئے سیاسی و سماجی حالات ہیں۔2010-11ء کے اقتصادی سروے میں خود حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے صنعتی شعبے میں بجلی کی طلب میں 8سے 10فیصد کی کمی ہوئی ہے۔جس کی بڑی وجہ صنعتوں کا بند ہونا یا صنعتی سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی ہے۔صرف پنجاب میں 30ہزار صنعتی یونٹ بند ہوئے جن سے لاکھوں افراد بیروزگار ہوئے۔
دوسری طرف امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے کوئی غیر ملکی سرمایہ دار اس ملک کا رخ کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔افراطِ زر اور مہنگائی نے عام آدمی کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ان حالات میں کل پیداوار میں کسی قسم کا اضافہ نا ممکن ہو گیا ہے۔یہ صرف الفاظ اور اعداد کا ہیر پھیر ہے جس کے ذریعے سے حکومت لوگو ں کو بیوقوف بنانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔
چلتے چلتے گورنر سٹیٹ بنک یٰسین انور کے ایک امریکی اخبار کو دئے گئے حالیہ انٹرویو کا بھی تذکرہ ہو جائے جس میں انہوں نے کچھ خوفناک انکشافات کئے۔مثلاً
1) 2012-13ء میں IMFکو 4 ارب ڈالر کی قسط دینے میں حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
2)اگلے مالی سال میں زرِ مبادلہ کے ذخائر آدھے ہو کر 8ارب ڈالر رہ جائیں گے جن سے صرف دو ماہ کی درآمدات ممکن ہو سکیں گی (اس کا سیدھا سا مطلب یہ نکلتا ہے کہ مہنگائی اور افراطِ زر دو گنا ہو جائے گا)۔
3)جاری مالی سال میں حکومت اب تک 442ارب روپے کا قرضہ سٹیٹ بنک سے لے چکی ہے۔
4)پاکستان کی ٹیکس اور جی ڈی پی کی شرح 9%سے بھی کم ہے جو کہ دنیا میں کم ترین ہے۔
5)حکومت اس قدر بھاری قرضے لے رہی ہے کہ نجی شعبے کو قرض دینے کے لئے کچھ نہیں بچ رہا۔
بجٹ 2012-13میں افراطِ زر کی شرح 11%رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔لیکن حکومت جس رفتار سے نوٹ چھاپ رہی اور بھاری شرح سود پر مقامی بنکوں سے قرضے لے رہی ہے، اسے مد نظر رکھتے ہوئے افراط زر کی شرح کا اندازہ کم از کم 14%لگایا گیا ہے۔یعنی آنے والی دنوں میں روپے کی قدر مزید تیزی سے گرے گی۔ ’’ترقی‘‘ کا یہ عمل اگر اسی رفتار سے جاری و ساری رہا تو چند مہینوں میں روپیہ اپنی ’سنچری‘ مکمل کر لے گا، یعنی ایک ڈالر سو روپے سے تجاوز کر جائے گا۔جس کی وجہ سے درآمدات مہنگی پڑیں گیں اور مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو گا۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پیپلز پارٹی کے موجودہ دورِ حکومت میں افراطِ زر کی شرح ایک بار بھی Single Digitمیں نہیں آئی ہے۔
موجودہ حکومت کی گزشتہ چار سالوں کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو اس بجٹ کا کھوکھلا پن مزیدواضح ہوتا ہے۔گزشتہ سال کے بجٹ میں حکومت کی جانب سے رکھے گئے اہداف حاصل کرنے میں مکمل ناکامی ان کی اپنی نا اہلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔گو کہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار جھوٹ پر مبنی ہے لیکن ان کے مطابق بھی مہنگائی کی شرح 10.8فیصد رہی جبکہ شرح نمو 3.7فیصد تک کم ہوئی۔مالی خسارہ 5فیصد رہا۔سرمایہ کاری میں 10.9فیصد کمی آئی اور ملک سے سرمائے کے فرار کا عمل تیز تر ہوتا چلا گیا۔سرکاری قرضوں میں 1315ارب کا اضافہ ہوا۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 3.4فیصد کم ہو گئی۔براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 1292.9ملین ڈالر سے کم ہو کر اس سال 666.8ملین ڈالر رہ گئی۔
اسی طرح اس سال رکھے گئے اہداف بھی مکمل ہوتے نظر نہیں آتے۔لیکن حکمرانوں کے ذاتی دولت اکٹھی کرنے کے اہداف یقیناًپورے ہوں گے۔ اس کے لیے ہر قسم کی مفاہمت اور مصالحت کی جائے گی۔اپوزیشن بھی اس لوٹ مار میں اپنی مرضی کی ہڈی وصول کرنے کی تگ و دو کرے گی۔حکومت میں شامل مختلف جماعتیں بھی ریٹ بڑھانے کے لیے بجٹ سے فی الحال ناراضگی کا اظہار کر رہی ہیں لیکن وہ بھی ہمیشہ کی طرح ذاتی مفادات کے حصول کے بعد اس کی حمایت پر کمر بستہ نظر آئیں گی۔
پاکستانی معیشت پر سرسری سی نظر ڈالنے سے بھی یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ ملک اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کا نہیں بلکہ مٹھی بھر سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور جرنیلوں کی ملکیت ہے۔جن کا دین اور ایمان محنت کشوں کا خون چوس کر دولت کے انبار لگانا اور اس لوٹ مار میں اپنے ان سامراجی آقاؤں کے مفادات کا خیال رکھنا ہے جن سے یہ ملک انہوں نے بھاڑے پر لے رکھا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے آنے والا ہر دن محنت کشوں کے لئے نیاعذاب لے کر آئے گا۔لیکن پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی برداشت اب جواب دیتی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوام اس حکمران اقلیت کے ظلم اور ناٹک کو کب تک برداشت کریں گے؟ پاکستان کے محنت کشوں کی انقلابات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ایک نئی بغاوت سطح کے نیچے آتش فشاں کے لاوے کی طرح پک رہی ہے۔ایک دفعہ عوام اس انقلاب میں ابھر آئے تو وہ اپنا مقدر اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ محنت کش اور نوجوان ایک بالشویک پارٹی کی قیادت میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر تے ہوئے ایک ایک زخم، ایک ایک اذیت کا بدلہ ان حکمرانوں اوراس نظام کے دلالوں سے لیں گے۔ہر گلی ہر چوراہے میں انقلابی ٹربیونلز کے کٹہروں میں انسانیت کے ان مجرموں کو کھڑا کیا جائے گا، وہیں فیصلہ ہوگا اور وہیں سزا۔یقینااس ظلم سے نجات صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔