پاکستانی معیشت؛ خطرے کے الارم بجنے لگے

تحریر:جاوید ملک:-
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں مالی سال کا دوسرا سہ ماہی جائزہ جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ زرعی اجناس کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے جبکہ کیمیائی کھاد کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جس سے موجودہ مالی سال کے دوران کاشتکاروں کی آمدن گزشتہ سال سے کم رہنے کا خدشہ ہے اسی طرح چھوٹی فصلوں کی کم کاشت کی وجہ سے غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی قلت کی وجہ سے صنعتوں میں پیداواربری طرح متاثر ہوئی ہے بیرونی ذرائع سے ہونے والی آمدن میں کمی اور تجارتی خسارہ بڑھنے کی وجہ سے جاری کھاتوں کا خسارہ بڑھا ہے اس کا دباؤ سٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور روپے کی قدر میں گرا وٹ کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔موجودہ مالی سال کے دوران روپے کی قدر 4.4 فیصد گرچکی ہے جبکہ مالی سال کی دوسری ششماہی میں معاشی استحکام کو لاحق خطرات بڑھ سکتے ہیں ،مہنگائی بارہ فیصد بڑھے گی۔ جاری حسابات کا خسارہ جی ڈی پی کا 1.5 تا2.5 فیصد رہنے کا امکان ہے آئی ایم ایف کے قرضوں کی واپسی سے زرمبادلہ میں کمی ہوسکتی ہے بیرونی شعبے کی صورتحال توقع سے زیادہ تیزی کے ساتھ بگڑی آئی ایم ایف کو رواں مالی سال میں 1.1 ارب ڈالر واپس کرنا ہوں گے جبکہ6 ماہ میں زرمبادلہ کے ذخائر میں 1.9 ارب ڈٖالر کی کمی ہوئی ۔
مرکزی بینک کے پاس ذخائر 12.9 ارب ڈالر کی سطح پر آگئے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بھی 4.4 فیصدگرگئی سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جو جائزہ رپورٹ جاری کی گئی ہے وہ چیخ چیخ کر بیان کر رہی ہے کہ حکومت نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ اس وقت زرعی شعبہ ہو یا ٹیکسٹائل کا شعبہ ان دونوں شعبہ جات کو ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا تھا دونوں بری طرح بحرانوں کی زد میں ہیں کاشتکار چیخ وپکار کر رہے ہیں اور حکومتی عدم توجہی وناقص پالیسیوں کے باعث آہو فغاں میں مصروف ہے مگر حکومتی ادارے اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے وزرا نے بے حسوں جیسی خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔سٹیٹ بینک نے واضح کیا ہے کہ مہنگائی بارہ فیصد بڑھے گی اور روپے کی قدر میں بھی 4.4 فیصد کمی ہوگی جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی آئے گی۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس سے پہلے بھی اپنی جائزہ رپورٹ میں حکومت پر واضح کر دیا تھا کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے ملک کی معیشت عدم استحکام کا شکار ہے اور جی ڈی پی گروتھ بھی متاثر ہورہی ہے لیکن حکومت نے گزشتہ سالوں کی طرح کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی اور نتیجہ میں آج ملک میں بحران اپنے بھیانک نکتہ عروج پر پہنچ چکے ہیں بیروزگاری حد سے تجاوز کر گئی ہے اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرتی چلی جارہی ہے یہ حکومتی اقدامات اور دم توڑتے ہوئے سرمایہ دارانہ سسٹم کے اندر رہ کر تشکیل دی گئی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہورہی ہے ۔
حکومت نے ایک مرتبہ بجلی 6.39 روپے مزید مہنگی کر دی ہے لیکن بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باوجو دلوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے حکومت نے ایسے اقدامات اور ناروا سلوک کی وجہ سے ملک میں بدحالی اور معاشی واقتصادی عدم استحکام بڑھتا چلا جارہا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے جب قرض حاصل کیا تو اس کی تمام شرائط کو پورا کرکے ملک کو معاشی و اقتصادی لحاظ سے مفلوج کر دیا گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی واپسی سے زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی ہونے کے شدید خطرات لاحق ہیں اور مالی سال کے دوران آئی ایم ایف کو1.1 ارب ڈالر واپس کرنا ہوں گے لگتا ہے کہ حکمرانوں نے عالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر ملک کو معاشی واقتصادی لحاظ سے اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب بحران تھمنے کا نام نہیں لے رہے اور حکومت خود بھی ان بحرانوں کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔صنعتی تجارتی زرعی اور عوامی حلقوں میں حکمرانوں کے خلاف غم وغصے کی کیفیت بڑھتی چلی جارہی ہے ۔جبکہ سوشلسٹ نظریات کی بنیادوں پر بنائی جانے والی پاکستان پیپلز پارٹی آج مکمل طور پر سرمایہ داری کی آلہ کار بن چکی ہے اور پارٹی کا ہر پروگرام اس کے بنیادی منشور کی نفی کرتا چلا جارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کا معیار زندگی روز بروز گرتا چلا جارہا ہے حکومت نے محنت کش طبقات کو بہتر معیار زندگی مہیا کرنے کی بجائے انہیں بھکاری بنانے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر جو سکیم شروع کی تھی اس کے فنڈز میں بھی پچاس فیصد کمی کر دی گئی ہے ۔سندھ میں سیلاب سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد آج بھی کھلے آسمان تلے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کے اقتصادی ماہرین کے مطابق توانائی کا بحران بدامنی اور افراط زر معیشت کے لیے مستقل خطرات بن چکے ہیں جن کی وجہ سے مہنگائی میں اضافے کی شرح روز افزوں ہے ایک سال کے دوران مہنگائی کی شرح میں تیس سے سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے ۔عام شہریوں کی قوت خرید دم توڑتی چلی جارہی ہے دنیا کے پینسٹھ فیصد بھوک میں مبتلا افراد کا تعلق بھارت چین کانگوبنگلہ دیش ایتھوپیا انڈونیشیااور پاکستان سے ہے ۔مناسب غذا کی عدم فراہمی اور ناقص غذا کھانے کی وجہ سے ان ممالک کے پچاس فیصد سے زائد بچے کم وزن رکھتے ہیں پاکستان جو گندم کی پیداوار میں ایشیا کا تیسرا بڑا، گنا پیدا کرنے والا چوتھا بڑا، کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا اور دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں بھی اس کا شمار چوتھے بڑے ملک میں ہوتاہے پھل سبزیاں گوشت اور انڈوں کی پیداوار میں بھی اس ملک کا نمایاں مقام ہے لیکن ایک برطانوی جریدے کی جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا کے 48 غذائی قلت کے بدترین ممالک میں پاکستان گیارہویں نمبر پر جا پہنچا ہے ۔دوسری طرف زرعی شعبے کی حالت یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد 2008ء میں حکومت نے گند م کی قیمت 650 روپے فی من سے بڑھا کر 950 روپے فی من کر دی تھی جس سے زرعی شعبے کو جو کل معیشت کا 44 فیصد پیدا کر تا ہے کسی حد تک سہارا ملا تھا کیونکہ اس وقت فی ایکڑ گندم کی پیداوار پر کسان کا خرچہ بائیس ہزار روپے تھا جبکہ ساڑھے نو سو روپے فی من گند م بیچنے سے اسے بیالیس ہزار روپے حاصل ہوتے تھے ۔تاہم گزشتہ چار سال کے دوران یوریا کی بوری چھ سو روپے سے بڑھ کر اٹھارہ سوروپے ہوچکی ہے ڈیزل ستاون روپے فی لیٹر سے بڑھ کر ایک سو آٹھ روپے فی لیٹر ہوچکا ہے اسی طرح بجلی زرعی ادویات کی قیمتوں میں بھی سو فیصد سے زائد اضافے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حالیہ دنوں میں کاشت کی جانے والی گندم پر کسان کا خرچہ 48 ہزار روپے فی ایکڑ اٹھ رہا ہے جبکہ مارکیٹ میں اس کی گندم کی قیمت محض بیالیس ہزار روپے ہے۔ اس پر ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ زرعی بینک نے کسانوں کو قرض دینا قریباً بند کر دیا ہے جس کے منفی نتائج مکئی کپاس گنا اور دوسری فصلوں پر بھی پڑے ہیں اور کسانوں کی بڑی اکثریت تیزی سے غربت کی لکیر سے نیچے گرتی چلی جارہی ہے ۔
زرعی ماہرین کے مطابق حکومت نے کسانوں کو کسی طرح کی کوئی سبسڈی دینے یا قیمتوں میں اضافے کے متعلق کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ آئندہ سیزن میں کسان گندم کی کاشت سے تائب ہوجائے گا اور یہ صورتحال پاکستان میں غذائی قلت کے ایک خوفناک بحران کو جنم دینے جارہی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے جاری کردہ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یکم اپریل سے لے کرسات اپریل 2012ء کے پہلے ہفتے میں اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں میں دس فیصد سے زائد تک اضافہ ہوچکا ہے اور پاکستان کے اندر باسٹھ فیصد گھرانے جو پہلے صبح کا ناشتہ اور دووقت کا کھانا کھایا کرتے تھے اب محض دو یا ایک وقت کے کھانے پر آچکے ہیں ۔یہ خوفناک صورتحال چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ موجود ہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کے مزدوروں کسانوں اور نوجوانوں کاروشن مستقبل تو دور کی بات مستقل دو وقت کی روٹی کا سلسلہ برقرار رکھنا ممکن نہیں ۔ مگر جبر کے اس نظام کو توڑنے کے لیے تمام محنت کش طبقات کو کارل مارکس کے لفظوں میں خود اپنے لیے ایک طبقہ بن کر میدان عمل میں آنا ہوگا ۔کیونکہ ایک طبقاتی انقلاب ہی اس خطے کے عوام کی تقدیر بدل سکتا ہے ۔اور اگر زمین پر غور سے کان رکھ کر سنا جائے تو ایسے انقلاب کی گونج واضح طور پر سنائی دے رہی ہے ۔