پاکستانی معیشت؛ تباہی کا سفر جاری ہے

[تحریر: آدم پال]

پاکستان کی سرمایہ دارانہ معیشت جس رستے پر گامزن ہے وہاں بہتری کا کوئی امکان دور تک نظر نہیں آرہا۔گزشتہ عرصے میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے کے جو ریکارڈ بنائے گئے ہیں آنے والے دنوں میں وہ بہت چھوٹے نظر آئیں گے۔حکمران طبقہ اپنی مکار سیاست اور بیہودہ دانش سے جیسے اس بنیادی مسئلے کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے اتنی ہی یہ عوام کے سامنے عیاں ہو تی جا رہی ہے۔معاشی پالیسیوں پر کوئی گفتگو نہیں کی جارہی اور نہ رائج الوقت سیاسی جماعتوں کا موجودہ معاشی پالیسیوں پر کوئی نظریاتی اختلاف ہے۔
چند دنوں میں پٹرول کی قیمت میں مزید 1.75روپے اضافے کا امکان ہے جس کے بعد پٹرول کا سرکاری نرخ 108روپے سے تجاوز کر جائے گا جبکہ پٹرول پمپ مالکان کی اضافی لوٹ مار کے باعث اکثر صارفین کوفی لٹر 110روپے سے زائد ادا کرنے پڑیں گے۔اس طرح سو روپے کا ہدف حاصل کرنے کے بعد اب پٹرول دوسو روپے فی لٹر کی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ پاکستان کے ظالم ترین حکمران طبقات اور پیپلز پارٹی کی عوام دشمن موجودہ قیادت سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔
موجودہ مالی سال کے پہلے دو ماہ میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 1.5فیصد کمی آئی ہے جس کے باعث ملک کی مجموعی برآمدات میں 3.27فیصد مزید کمی آئی ہے۔کسی بھی ملک میں غیر ملکی زر مبادلہ کی آمد کا سب سے بڑا ذریعہ برآمدات ہوتا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے باعث 50ہزار سے زائد صنعتی یونٹ بند ہو چکے ہیں جس کے باعث بیروزگاری میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔عالمی معاشی بحران کے باعث امریکہ اور یورپ میں مانگ میں کمی آئی ہے جس کے باعث بھی برآمدات تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔اسی باعث نوٹ چھاپنے اورقرضوں پر انحصارمیں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان موجودہ مالی سال میں 70کروڑ ڈالر غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں دے چکا ہے جبکہ ابھی مالی سال کے اختتام سے پہلے 5.6ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق اس وقت غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر14.8ارب ڈالر ہیں جن میں کمی متوقع ہے۔ وزیر خزانہ کے اندازوں کے مطابق غیر ممالک میں رہائش پذیر تارکین وطن کی بھیجی گئی رقوم اور دوسرے ذرائع غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو کم نہیں ہونے دیں گے لیکن بورژوا معیشت کے سنجیدہ تجزیہ نگار اسے خام خیالی قرار دے رہے ہیں۔ان کے مطابق گزشتہ سال 4.5ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا جس میں اس سال کمی کے امکانات نہیں۔موجودہ مالی سال کے پہلے دو ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 29کروڑ 70لاکھ ڈالر ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے پہلے دو ماہ میں یہ 8کروڑ 20لاکھ ڈالر تھا۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کتنی تیزی سے کم ہو سکتے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کو 114ارب روپے کولیشن سپورٹ فنڈ میں دیے ہیں اس کے باوجود مالی سال کے پہلے دو ماہ میں بجٹ خسارہ 191ارب روپے یا جی ڈی پی کا 0.8فیصد ہو چکا ہے۔ سالانہ بجٹ میں اس سال بجٹ خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کے 4.7فیصد تک لگایا گیا تھا لیکن آئی ایم ایف کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ خسارہ جی ڈی پی کے 11فیصد کی ریکارڈ سطح تک بھی پہنچ سکتا ہے۔اس کے علاوہ عالمی سطح پر تیل اور اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ زیادہ بڑی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا حالیہ اضافہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں استحکام ہے۔ اگر تیل کی قیمتیں عالمی سطح پر بڑھتی ہیں تو پاکستان میں معاشی وسماجی زوال پذیری میں تیز ترین اضافہ ہو گا۔
ملکی معیشت کو موجودہ حالت نزع میں چلانے کے لیے حکومت کے پاس مزید قرضے لینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔آئی ایم ایف سے 26ستمبر کو ہونے والے مذاکرات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔اس کے علاوہ ملکی بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرضے لینے کا سلسلہ جاری ہے۔موجودہ مالی سال میں30جولائی سے 7 ستمبرتک ملکی بینکوں سے 324ارب روپے کے قرضے لیے جا چکے ہیں جو گزشتہ سال کے اسی دورانیے سے 123فیصد زیادہ ہے۔اپنے بینکوں سے قرضے لینے کا ملکی تاریخ میں یہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔حکومت اسٹیٹ بینک سے 139ارب روپے قرضہ لے چکی ہے جبکہ گزشتہ سال اس وقت یہ قرضہ 78ارب روپے تھا۔
پاکستان کی کمزور ریاست کے لیے ہمیشہ سے ایک اور بڑا مسئلہ غیر سرکاری معیشت ہے۔پاکستان کی دو تہائی معیشت غیر سرکاری یا کالے دھن پر مبنی ہے جس پر نہ تو کوئی ٹیکس ادا کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس پر کسی قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ ہی حکومت کی آمدن کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے جس میں پٹرول، بجلی اور دوسری بنیادی ضروریات کی اشیا پر ٹیکس لگا کر عام شخص کی خون پسینے کی تھوڑی سی کمائی بھی حکمران لوٹ لیتے ہیں جبکہ بڑے مگر مچھوں کی دولت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔پاکستان کی ریاست جس نحیف صورتحال تک پہنچ گئی ہے اور ریاستی اداروں کی حیثیت جس طرح تقریباً ختم ہو چکی ہے اس میں اس غیر سرکاری معیشت کوقابل ٹیکس بنانا دیوانے کا خواب ہے۔لیکن جھوٹی کارگزاریاں دکھانے کے لیے بے بنیاد پالیسیاں بنتی رہتی ہیں۔ اگلے ماہ ایسی ہی ایک پالیسی کے تحت ٹیکسوں میں چھوٹ کی نئی اسکیم متعارف کرائی جارہی ہے جس میں 38لاکھ ٹیکس چوروں کو پھانسنے کا ارادہ ہے۔ اس پالیسی کے مطابق کوئی بھی شخص اگر اپنے پوشیدہ کاروبار کو ظاہر کرے گا تو اس سے صرف ایک فیصد ٹیکس لے کر اس کے کاروبار کو قانونی حیثیت دی جائے گی۔لیکن پہلے کی تمام ایسی اسکیموں کی طرح یہ اسکیم بھی بری طرح ناکام ہو گی۔ سالانہ بجٹ میں 2.38کھرب روپے کے ٹیکس اکٹھے کرنے کا ٹارگٹ بھی پہلے جیسا بری طرح ناکام ہو گا۔پہلی سہ ماہی میں ہی 437ارب روپے اکٹھے کرنے کا ٹارگٹ مکمل نہیں ہو پا رہا۔
اس سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے سرمایہ دار طبقے سے حکومت مزید کچھ وصول نہیں کر سکتی۔اس کی وجہ اول تو یہ ہے کہ اس وقت حکمرانی بھی سرمایہ دار طبقے کی ہی ہے اور کوئی بھی اپنے آپ پر ٹیکس نہیں لگاتا۔ جرنیل، جج، بیوروکریٹ اور دوسرے تمام ریاستی اہلکار سرمایہ دار طبقے کی لوٹ مار میں برابر کے حصہ دار ہیں اس لیے ان سے بھلائی کی توقع رکھنے والے بھی ناقص العقل ہیں۔سامراجی اداروں سے بہتری کی امید لگانے والے دراصل خود ان کی کاسہ لیسی کرنے اور اپنا حصہ وصول کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔درحقیقت پاکستانی معیشت کی موجودہ دگرگوں حالت کی ذمہ داری عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ریاست اور اس کے ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور بد عنوانی ان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے۔ جس کے باعث ٹیکس ادا کرنا انتہائی مشکل اور کرپشن کے ذریعے چھٹکارا حاصل کرنا انتہائی آسان ہے۔ درمیانے طبقے کے خیالی دنیا میں رہنے والے چندنادان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اس نظام میں رہتے ہوئے ٹیکسوں کے نظام کو بہتر کیا جا سکتا ہے اور اس کے ذریعے حکومتی آمدن میں اضافہ ہو گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ پہلے دن سے ہی سامراج کا کاسہ لیس تھا جس کے باعث کبھی بھی یہاں ریاستی ادارے اور سماجی ڈھانچہ استوار نہیں کیا جا سکا۔ آج ریاستی بحران کہیں زیادہ شدت اختیار کر چکا ہے اور سامراجی قرضوں کی جکڑ بندی اتنی زیادہ ہے کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ان زنجیروں کو توڑ انہیں جا سکتا اور نہ ہی سرمایہ دار طبقے کی دولت کے وسیع تر حجم کا درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آنے والے انتخابات کی تیاریاں تو زور و شور سے جاری ہیں لیکن اس وقت کوئی پارٹی بھی ٹھوس معاشی پالیسیوں پر پروگرام نہیں دے رہی۔کرپشن کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے لیکن سماج میں موجودکرپشن کی وجوہات پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔کرپشن اس مالیاتی نظام کی جڑوں میں موجود ہے اوریہاں موجود ہوس زر اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اس کو جلا بخشتے ہیں۔جب تک اس نظام کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جاتا کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔
اگر کوئی سیاسی جماعت بھولے سے کوئی معاشی پروگرام دیتی بھی ہے تو وہ بھی اسی نظام زرمیں اصلاحا ت کے ذریعے بہتری کی گردان کرتا ہے۔سب سے پہلے تو یہ پروگرام دینے والے معیشت دان خود سب سے بڑے جاگیر دار اور سرمایہ دار ہیں یا پھر ان کے ایجنٹ جو ایک لمبے عرصے سے یہاں کے عوام کااستحصال کر رہے ہیں۔ان کی بے تحاشادولت کی بنیاد ہی محنت کش طبقے کے استحصال اور لوٹ مار پر ہے اس لیے ان سے عوام کی بھلائی کی توقع کرنا بیوقوفی ہے۔ دوسرے اس نظام میں اصلاحا ت کی بات کرنا ایسے ہی ہے جیسے کینسر کے علاج کے لیے سر درد کی دوا دے دی جائے۔ موجودہ معاشی صورتحال میں اصلاحات تو درکنار خستہ حال سڑکوں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، بجلی، پانی اور دیگر سماجی ڈھانچے کو موجودہ حالت میں برقرار بھی نہیں رکھا جا سکتا۔اس کو موجودہ ٹوٹی پھوٹی حالت میں برقرار رکھنے کے لیے بھی بہت بڑے پیمانے پر رقم کی ضرورت ہے جبکہ ترقیاتی اخراجات پہلے ہی تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ ایسے میں کراچی کی فیکٹری میں آگ لگنے جیسے مزیدحادثات کا رونما ہونا حیران کن نہیں ہو گا۔ بعض اطلاعات کے مطابق اس حادثے میں 1200 سے زائد محنت کش قتل ہوئے۔اسی طرح حالیہ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے بھی سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں لاکھوں افراد پھر متاثر ہوئے ہیں۔سماجی ڈھانچے کی جو مخدوش حالت ہے اس میں زیادہ بڑے حادثات رونما ہوں گے اور موسم کی تھوڑی بہت تبدیلی بھی محنت کشوں پر بڑی قیامتیں ڈھائے گی۔ صحت کے شعبے کی حالت یہ ہے کہ ادویات کی صنعت یہاں سب سے زیادہ منافع بخش بن چکی ہے۔انتہائی ضروری ادویات بھی دستیاب نہیں اور بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں۔50پیسے کی دوائی پانچ روپے کی بلیک میں مل رہی ہے جبکہ 476روپے کا انجکشن بھی تین گنا قیمت پر بک رہا ہے۔ پنجاب کارڈیالوجی میں جعلی ادویات کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کے ذمہ داروں کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا اور اب بھی بڑے پیمانے پر جعلی ادویات دوکانوں پر دستیاب ہیں جن سے مریض شفا حاصل کرنے کی بجائے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
حکمرانوں کی جانب سے انتخابات کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے جن منصوبوں کے تحت اخراجات کیے جا رہے ہیں وہ منصوبے بھی صرف دکھانے کے لیے ہیں۔ درحقیقت ان میں سے بھی بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی جائے گی کہ جاتے جاتے لنگوٹی بھی نہ چھوڑیں۔ صرف لاہور میں ایک سڑک پر 31ارب روپے کا بجٹ صرف کیا گیا ہے۔ چونکہ ریاست کی حالت یہ ہے کہ سوچے سمجھے بنا اورمنصوبہ بندی کے بغیر ہی اتنا بڑا منصوبہ شروع کر لیا گیا اس لیے حاکم وقت کی لوٹ مار کے لیے پہلے جان بوجھ کر غلط تعمیر کی گئی اور اب اسے گر اکر ’’درست‘‘ تعمیر کی جائے گی۔اس اکھاڑ پچھاڑ میں سرکاری اعلان کے مطابق ایک ارب روپے لاگت آئے گی جبکہ حقیقت میں یہ یقیناًکہیں زیادہ ہو گی۔ان پیسوں سے عوا م کے لیے کتنے ہسپتال بن سکتے تھے اور کتنے تعلیمی ادارے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ لیکن حکمران طبقات کی ہوس اور لالچ جس انتہا تک پہنچ گئی ہے وہ محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔
معیشت کی زوال پذیری جس سمت جا رہی ہے اس میں خود بوررژوا معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ امکانات بھی موجود ہیں کہ 2013ء میں پاکستانی معیشت دیوالیہ پن کی حالت تک پہنچ جائے اور افراط زر کا جن بے قابو ہو جائے جس کے نتیجے میں چند روپوں کی قیمت کی اشیاء لاکھوں روپوں تک جا پہنچیں۔ایسے میں تمام بوجھ پھر محنت کش طبقے پر ہی پڑے گا اور حکمران طبقات کے بیرونی ممالک میں محفوظ لوٹ مار کا پیسہ ان کی آئندہ نسلوں کے لیے کافی ہو گا۔
اس کے سیاسی اور سماجی اثرات کو یقینانظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ صورتحال لازمی طور پر حکمران طبقے کی باہمی لڑائی اور طبقاتی کشمکش کے ابھرنے سے حاملہ ہو گی۔ایسی صورتحال میں اس وقت میں مختلف پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں جن میں فوج کی براہ راست حکمرانی پر بھی بحث کی جارہی ہے۔ چہروں کی تبدیلی سے معاشی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی۔ اب طرز حکمرانی خواہ آمریت ہو، جمہوریت ہو یا کوئی بھی جب تک سرمائے کی زنجیروں کو توڑا نہیں جاتا اس وقت تک معاشی دیوالیہ پن سے زیادہ لمبا عرصہ بچنا ممکن نظر نہیں آتا۔لیکن اس حالت نزع کے طوالت اختیار کرنے سے بھی سماج میں بے چینی بڑھتی جائے گی اور سماجی انتشار کی مختلف کیفیتیں ابھر سکتی ہیں۔اس بے چینی کی کیفیت کے باوجود بنیاد پرستی کو ابھارنے کی سامراج اور مقامی حکمرانوں کی کوششیں مسلسل ناکام ہو رہی ہیں۔جتنا زیادہ بنیاد پرستوں قوتوں کی تشہیر کی جاتی ہے اور ان کی قتل و غارت میں اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی محنت کش طبقے میں ان کے لیے نفرت بڑھ جاتی ہے۔امریکی سامراج نے مختلف بنیاد پرستوں کو بلیک لسٹ کر کے اور ان کے سروں کی قیمتیں لگا کر انہیں مشہور کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کے خوف اور دہشت میں اضافہ ہو سکے لیکن اس میں بھی انہیں خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی۔اس تمام تشہیر اور قتل و غارت کے بعد بھی آئندہ انتخابات میں اگر بنیاد پرست حصہ لیتے ہیں تو انہیں پہلے کی طرح ضمانتیں ضبط ہونے کی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس صورتحال میں محنت کش طبقے کی تحریک تمام صورتحال کو یکسر تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس سے بنیاد پرستی، عدلیہ اور میڈیا کے ناٹک، رائج الوقت سیاسی جماعتوں کی بیہودہ تکرار سمیت تمام نان ایشوز ردی کی ٹوکری میں چلے جائیں گے اور معاشی مسائل سر فہرست ہوں گے جس سے نظام کی تبدیلی بھی ایجنڈے پر آ جائے گی۔جہاں یہ تحریک موجودہ نظام اور اس کے حکمرانوں کو چیلنج کرے گی وہاں نئے نظام کی جدوجہد کا بھی آغاز ہو گا۔ ایسے میں مارکسی بنیادوں پر استوار ایک انقلابی تنظیم درست حکمت عملی سے اس تحریک کی قیادت کی ذمہ داری ادا کر سکتی ہے۔جس کے بعد محنت کشوں کے خون سے لتھڑے ہوئے اس طبقاتی نظام کا خاتمہ کر کے غیر طبقاتی سوشلسٹ نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔اس انقلاب کے بعد غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل کی جائے گی، سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی دولت کو ضبط کیا جائے گا اور تمام ریاست کا کنٹرول جمہوری طریقے سے محنت کش طبقے کے قبضے میں ہو گا۔آج کے عہد میں بہتر زندگی کے حصول کا یہی واحد راستہ ہے۔