پاکستان: ڈالر اور روپے کی نورا کشتی میں عوام برباد

[تحریر: آدم پال]
اس ملک کے باسیوں کی زندگیوں میں ہر گھڑی درد کے پیوند بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ انسان کہلانے والی مخلوق کی ایک بہت بڑی اکثریت کیڑے مکوڑوں سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وہ انسانیت جس نے زمین کی کوکھ اور خلا کی وسعتوں کو چیر کر رکھ دیا ہے اس کی اکثریت غربت، محرومی اور ذلت کی گہرائیوں میں غرق ہونے پر مجبور ہے۔ انسان اس کرۂ ارض کی ایسی مخلوق بن چکا ہیجوخود اپنے ہاتھوں سے اپنی قیمتی ترین شے۔ ۔ ۔ اپنی زندگی کو ختم کر رہیہے اور المیہ یہ ہے کہ کوئی نوحہ خواں نہیں، کوئی غم گسار نہیں۔ یہ سب مظالم ڈھانے والے کوئی اور نہیں بلکہانہی انسانوں میں سے ہی ہیں جنہوں نے درندگی اور سفاکی کی نئی داستانیں رقم کر دی ہیں۔

اس نظام کی وحشت اور بربریت کی منہ بولتی تصویر ارضِ پاکستان ہے جہاں انسانی خون پانی سے زیادہ ارزاں ہو چکاہے۔ صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ یہاں کے حکمران ایسے درندے بن گئے ہیں جن کے منہ کو انسان کا خون لگ گیا ہو۔ ہر روز عوام کا خون پینا ، ان کا گوشت نوچنا اور ان کی ہڈیوں کو چبانا ان حکمرانوں کے لیے اپنی دولت اور سرمائے میں اضافے کا واحد ذریعہ رہ گیا ہے۔ یہ خونی بلائیں جب تک موجود رہیں گی عوام کی فلک شگاف چیخیں بلند ہوتی رہیں گی اور لوگ مرتے رہیں گے۔ یہاں بسنے والے اٹھارہ کروڑ انسانوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ان بلاؤں اور ان کے پروردہ نظام کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا پڑے گا۔
عوام پر مظالم برپا کرنے میں میڈیا ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہر روز جھوٹ کے انبار لگا دئیے جاتے ہیں تاکہ سچائی کو چھپا دیا جائے اور اگر کوئی سچ ڈھونڈنا بھی چاہے تو اس تلاش میں اس کی عمر بیت جائے۔ اپنی درندگی پر پردے ڈالنا اور جھوٹ، مکاری اور عیاری سے عوام کو مسلسل کنفیوز رکھنے کی کوشش کرنا حکمرانوں کی مجبوری ہے۔ لیکن یہ نادان لوگ سچ کی طاقت سے بے بہرہ ہیں۔ جھوٹ کے پہاڑ بھی انسانوں پر لاد دئیے جائیں تو سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا کیونکہ سچ انسان کے زخموں کو اس کے اندر سے کریدتا رہتا ہے۔ جب انسان کی روح اور احساس ہی زخمی ہوجائیں تو جھوٹ ان زخموں کے لئے مرہم کی بجائے نمک بن جاتا ہے۔ زندگی کی تلخ حقیقتیں اس کو ہر صورت سچائی کی جانب لے کر جاتی ہیں۔
عوام پر مسلط لٹیروں کے حالیہ سربراہ نواز شریف نے اپنے بیان میں ڈھٹائی کے ساتھ کہا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں ملکی معیشت کے جی ڈی پی میں 5.1 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے یہ معیشت اگر اس رفتار سے دوگنا بھی ترقی کرے تو بھی محنت کشوں کے معیار زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی شرح نمو کا مطلب عوام کے معیار زندگی میں بہتری کی بجائے سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن خوفناک حقیقت یہ ہے کہ معیشت کی شرح نمو ان اعداد و شمار سے بھی کم ہی جو حکومتی عہدہ دار بتا رہے ہیں۔ پچھلی حکومت نے بھی موجودہ حکومت کے لیے کوئی اتنا بڑا معیار مقرر نہیں کیا تھا کہ اسے عبور نہ کیا جا سکتالیکن اس کے باوجود ملکی معیشت کے سب سے کلیدی اعداد و شمار کے متعلق اتنا بڑا جھوٹ بول دینا معیشت کے کھوکھلے پن اور اس کو لگی دیمک کی غمازی کرتا ہے۔ 5.1 فیصد کے اعداد و شمار کو ثابت کرنے کے لیے نہ تو اسٹیٹ بینک اور نہ ہی وفاقی بیورو برائے شماریات کی کوئی دستاویزات موجود ہیں۔ اتنی بڑی مبالغہ آرائی کے پیچھے درحقیقت معیشت کے مستقبل کے متعلق اتنی ہی بڑی مایوسی موجود ہے۔
دوسری جانب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وہ ڈالر کو 110 روپے سے واپس 98 روپے تک لے آئیں گے۔ یہ لوگ شاید معیشت کو سرکس سمجھتے ہیں جس میں چند الٹی سیدھی قلابازیاں لگا کر تماشائیوں سے داد وصول کی جاتی ہے۔ معیشت انتہائی سنجیدہ سائنس ہے جو سماج میں دولت اور محنت کی تقسیم جیسے کلیدی فریضے کے ساتھ ساتھ تمام سماجی شعبوں میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ روپے کی قدر میں تیز ترین گراوٹ چند سیاسی مخالفین یا سر پھرے بروکروں کی وجہ سے نہیں اور نہ ہی اس کی وجہ منڈی میں عارضی رسد اور طلب کے مسائل ہیں بلکہ یہ اس نظام اور پورے معاشی ڈھانچے کا نامیاتی بحران ہے جس کی وجہ سے روپیہ تیز ترین گراوٹ کا شکار ہے۔
اسحاق ڈار نے اپنے کھوکھلے دعوے کو سچ کرنے کے لیے جو مصنوعی طریقے استعمال کرنے شروع کئے ہیں وہ بہت جلد ناکام ہو کر صورتحال کو مزید بگاڑ دیں گے اور سماجی معاشی سائنس کی حقیقتیں بے رحم طریقے سے اپنا اظہار کریں گی۔ اس وقت پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 2.9 ارب ڈالر کی قلیل حد تک پہنچ چکے ہیں جو نومبر 2001ء کے بعدکی سب سے کم سطح ہے۔ اس سے صرف دو ہفتوں کی ضروری اشیاء درآمد کی جا سکتی ہیں۔ ن لیگ کی حکومت آنے کے بعد روپے کی قدر میں ہونے والی کمی سے پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 403 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ کی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپنے کا آغاز کیا ہے کہ پرنٹنگ مشینیں کم پڑ چکی ہیں اور افراط زر کا یہ عالم ہے کہ سٹیٹ بینک دس ہزار روپے کا نوٹ چھاپنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ان حالات میں روپے کی قدر کو گرنے سے کون روک سکتا ہے؟
کچھ دن پہلے اسٹیٹ بینک نے 25 کروڑ ڈالر کی خریداری کی ہے تا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے دئیے گئے بیرونی کرنسی کے ذخائر کے ٹارگٹ کو پورا کیا جا سکے۔ اسٹیٹ بینک کی ایسی خریداری کے باعث عمومی طور پر روپے کی قدر میں گراوٹ آتی ہے لیکن اس دفعہ اس کے الٹ ہوا ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر ڈالر مارکیٹ سے خریدنے کے باوجود روپیہ بظاہر مضبوط ہوا ہے۔ اس عمل سے یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ فارن ایکسچینج کمپنیوں اور حکومت کے مابین کوئی خفیہ معاہدہ موجود ہے تا کہ منڈی میں روپے کی قدر کو مستحکم رکھا جا سکے۔ بعض ذرائع کے مطابق صرف دو لوگوں سے یہ ڈالر خریدے گئے ہیں جو فارن ایکسچینج کی منڈی کا دو تہائی حصہ کنٹرول کرتے ہیں۔ جب اسی سال اگست میں اسٹیٹ بینک نے منڈی سے 12.5 کروڑڈالر خریدے تو روپے کی قدر میں خاطر خواہ کمی آئی تھی گو کہ اس وقت بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر 5.3 ارب ڈالر تھے۔ اب جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 2.9 ارب ڈالر ہیں اور 25 کروڑ ڈالر خریدے گئے ہیں لیکن روپے کی قدر میں کمی نہ آنا واضح طور پر کسی معاہدے کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ زر مبادلہ کے ذخائر 3.4 ارب ڈالر ہو گئے ہیں کیونکہ 500 ملین ڈالر مزید وصول ہوئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق 137 ملین ڈالر اسلامی ڈویلپمنٹ بینک سے ملے ہیں جبکہ باقی منڈی سے خریداری اور دیگر ذرائع کی شکل میں آئے ہیں۔ اگلے ہفتے آئی ایم ایف نے پاکستان کو 545 ملین ڈالر کی قسط دینے کے لیے حکومتی عہدہ داروں سے میٹنگ بھی کرنی ہے۔ یہ بھیک ہی اس ڈوبتی معیشت کا کلیدی سہارا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے بھی قرضہ دینے سے پہلے پٹرول اور بجلی پر سبسڈی کے خاتمے کی شرط عائد کر دی ہے۔
روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات ہی معیشت کی بیماری کا اعلان کرتے ہیں۔ اگر منڈی پر حاوی افراد اور حکومت کے مابین خفیہ معاہدوں سے معیشت کو چلایا جا سکتا تو سرمایہ داری میں کبھی بحران آتا ہی نہ اور نہ ہی امریکہ جیسی مضبوط معیشت 2008ء میں بحران کا شکار ہوتی۔ یہ طریقہ کار خود بھونڈے معیشت دانوں کے جعلی نظریات کی عکاسی کرتا ہے۔ کرنسی کو 70 کی دہائی میں سونے کے ذخائر کی شرط سے آزاد کر دیا گیا تھا جس کے بعد بتدریج کرنسی شرح پیداوار سمیت دیگر زنجیروں سے آزاد ہوتے ہوتے آج مادر پدر آزاد ہو چکی ہے۔ امریکہ جیسا ملک بھی بڑے پیمانے پرڈالر چھاپ رہا ہے۔ اور ابھی تک انہدام سے اس لیے بچا ہے کیونکہ ڈالر انٹرنیشنل کرنسی ہے۔ پاکستانی روپے کو یہ’ سہولت‘حاصل نہیں ہے۔ ایسے میں افراط زر کا ٹائم بم کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے اس دھماکے کو مؤخر کیاجا سکتا ہے ، ختم نہیں۔
صحت مند سرمایہ دارانہ نظام میں برآمدات میں اضافہ کرنسی کی قدر کو مضبوط رکھتا ہے۔ اس کے لیے صنعتوں کو ترقی دی جاتی ہے، بجلی، گیس، سڑکیں اور دیگر انفرا اسٹرکچر تعمیر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شرح سود میں کمی کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں سب کچھ الٹ ہے۔ شرح سود میں اضافہ ہو رہا ہے، دھڑا دھڑکرنسی نوٹ چھاپے جا رہے ، بجلی ، گیس دیگر بنیادی سہولتوں کو نجکاری کی پالیسی کے ذریعے منافع خوری کی خاطر بتدریج ختم کیا جا رہا ہے یعنی یہ بڑے سرمایہ دار اب اپنے بچوں یعنی مقامی سرمایہ داروں کو ہی کھانا شروع ہو گئی ہے۔ ایسے میں اس ملک کا واحد کاروبار پراپرٹی کی خرید و فروخت رہ گیا ہے۔ بینکوں میں جمع شدہ رقوم پر ملنے والے منافعے میں کمی سے بھی اس رجحان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی سرکاری معیشت سے کئی گنا بڑی کالے دھن کی معیشت کی بھی واحد پناہ گاہ اب یہ پراپرٹی کا شعبہ رہ گیا ہے۔ پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافے کی بنیاد صرف اور صرف قیاس آرائی ہے جو جوئے کی ہی ایک قسم ہے۔ یہاں کوئی شے پیدا نہیں ہوتی اور پیداواری صنعت میں کوئی تیزی نہیں آتی۔ پراپرٹی کا گورکھ دھندہ صرف کالے دھن کو سفید کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
ایسے میں حکومت نوجوانوں کو قرضے کی سہولت دے رہی ہے جو بیس لاکھ روپے کی رقم سے اپنا کاروبار کریں گے۔ سب سے پہلے تو اس منصوبے کے لیے 100 ارب روپے کے کرنسی نوٹ چھاپ کر کرنسی کی حقیقی قدر میں مزید گراوٹ کی جائے گی۔ دوسری طرف ایک لاکھ افراد کے لیے موجود اس سہولت کو حاصل کرنے کے لیے دو کروڑ سے بھی زیادہ نوجوان موجود ہیں۔ باقی نوجوان کیا کریں گے یہ کسی نے نہیں بتایا۔ دوسرا اس قرضے پر موجود 8 فیصد شرح سود کا مطلب ہو گا کہ بیس لاکھ روپے سے ایسا کاروبار کیا جائے جو کم ازکم پچاس ہزار روپے ماہانہ کما کر دے۔ ایسی حالت میں جب پہلے سے موجود صنعتیں ہزاروں کی تعداد میں بند ہو رہی ہیں نئے کاروبار کہاں سے چلیں گے؟آخر میں اس ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ میں سود سمیت قرضہ واپس نہ کرنے والوں کی رہی سہی جمع پونجی ضبط کر کے انہیں جیلوں میں ڈال دیا جائے گا۔ کیونکہ یہاں کا اصول ہے کہ چھوٹے مجرم جیلوں میں جاتے ہیں اور بڑے اقتدار کے ایوانوں میں۔ اسی طرح قرضہ لینے کی شرائط کے مطابق پندرہویں گریڈ یا اس سے اوپر کے افسر یا کسی دولت مند شخص کی ضمانت درکار ہے۔ یعنی پہلے سے دولت مند یا بااثر افراد ہی اس ’’سہولت‘‘ سے مستفید ہوسکیں گے۔ غریب اور بے روزگار کی ضمانت کون دے گا؟لیکن سب سے بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ نوجوانوں کو روزگار دینے کی بجائے انہیں بھیک کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ ایک طرف نجکاری کی پالیسی سے بارہ لاکھ سے زائد روزگار چھیننے کی تیاری کی جا رہی دوسری جانب نوجوانوں کو بھکاری بنا کر ذلت کی زندگی ان کا مقدر بنائی جا رہی ہے۔
یہ حکمران کوئی بھی حربہ استعمال کر لیں ان مصنوعی ہتھکنڈوں سے دیوالیہ معیشت کو زیادہ عرصے نہیں چلایا جا سکتا۔ جنوری سے گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسے میں روپے کی قدر کو اس حالت میں نہیں رکھا جا سکے گا بلکہ گرتی چلی جائے گی۔ جیسے مٹھی میں سے ریت نکل جاتی ہے۔ درحقیقت یہ حکمران اور ان کا نظام انسان کا ماضی بن چکے ہیں اور ان کے ہاتھوں سے وقت بھی ریت کی طرح نکل رہا ہے۔ یہ سماج ایک پگھلا ہوا گرم لاوا بن چکا ہے جس میں پرانا نظام اور اس کے تمام سماجی معاشی رشتے ختم ہو رہے ہیں جبکہ ان کی جگہ نئے رشتے جنم لینے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جس دن یہ لاوا اس سماج کی بالائی سطح کو پھاڑ کر باہر نکلا تو اس کے ساتھ ہی نئے جنم لینے والے رشتے بھی تیزی کے ساتھ پورے سماج میں پھیل جائیں گے۔ ایک نیا سورج طلوع ہوگاجو محرومی، غلامی اور اذیت کی تاریکیوں کا ہر نشان مٹا دے گا۔