یمن پر سعودی جارحیت اور پاکستان

| تحریر: لال خان، ترجمہ: حسن جان |
saudi attack on yemen latuff cartoonجس چیز نے پاکستان کے حکمرانوں اور ریاستی آقاؤں کو حیران کردیا ہے وہ یمن پر سعودی جارحیت کے خلاف عوام کا شدید رد عمل ہے۔ حتیٰ کہ سعودی بادشاہت کے سفاک کردار اور اس کے پچیس لاکھ پاکستانی تارکین وطن مزدوروں کو غلاموں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرنے کو میڈیا کے کچھ حصوں نے بھی بے نقاب کیا ہے۔ حکمرانوں کی ہچکچاہٹ، عدم اعتمادی اور منافقت دیدنی ہے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ’’پاکستان نے اقوام متحدہ، او آئی سی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یمن کے بحران کے سیاسی حل کے لیے تعمیری کردار ادا کریں۔ ایوان وزیر اعظم سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان، پاکستانی عوام کے جذبات کے عین مطابق سعودی عرب کی خودمختاری اور سلامتی کے دفاع کے لیے پرعزم ہے۔ میٹنگ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورت حال میں معنی خیز کردار ادا کرنے کے لیے پر عزم ہے۔‘‘
یہ بیان کتنا مضحکہ خیز، قابل رحم اور بزدلانہ ہے! در حقیقت ’پارلیمنٹ ‘ سے مشاورت اور عوام کو مطلع کرنے کی باتیں انتہائی بھونڈا مذاق ہیں۔ یہ حکمران خود محض کٹھ پتلیاں ہیں جن کوان کے ریاستی اور سامراجی آقا فوجی آپریشنوں اور اہم خارجہ پالیسی کے فیصلوں کے بارے میں صرف اطلاع دیتے ہیں، وہ بھی اکثراوقات فیصلے پر عمل درآمد ہو جانے کے بعد۔
نواز شریف کو سعودی بادشاہوں کے دباؤ پر معاف کیا گیا تھا اور 1999ء میں مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد اس نے اپنی جلاوطنی کے سال سعودی عرب میں گزارے، جہاں وہ شاہی خاندان کا مہمان تھا اور ان کے ساتھ اسکی کاروباری شراکت داری بھی تھی۔ سعودی شاہی خاندان نے ہی اس کی ملک اور اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کی۔ 2013ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سعودی حکومت نے اسے 1.5 اَرب ڈالر کا ’’تحفہ‘‘ بھی دیا۔ چین، ترکی اور قطر کے بار بار دوروں، کاروباری معاہدوں اور امریکہ کے ساتھ اسکی وابستگی کے باوجود وہ اب بھی سعودی عرب کا زیادہ مقروض و ممنون ہے۔ سعودی عرب باقاعدگی کے ساتھ پاکستانی ملٹری کو مفت تیل اور دوسرے ’تحفے‘ فراہم کرتا رہتاہے۔ جب ٹینک، جنگی جہاز اور بحری جہاز سعودی تیل سے چل رہے ہوں تو اس صورت میں اپنے آقاؤں کی حکم عدولی کرنا پاکستان کے حکمرانوں کے بس کی بات نہیں۔ پاکستان کے ملاؤں اور مذہبی پارٹیوں کے ایک بڑے حصے کو بھی سعودی عرب سے باقاعدہ مالی امداد آتی ہے جس سے وہابی مدرسوں اور دہشت گرد تنظیموں کا وسیع نیٹ ورک چلتا ہے۔ 1996ء میں سعودی عرب ہی پوری دنیا میں وہ پہلا ملک تھا جس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔
سعودی عرب پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ سے ایک اہم کھلاڑی رہا ہے۔ فوج اور ملاؤں کے لیے بھاری رقوم کے علاوہ ناپسندیدہ حکومتوں کو گرانے اور پسندیدہ کٹھ پتلیوں کو اقتدار دلانے میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے۔ یہ سب کچھ امریکی سامراجی آقاؤں کے تعاون سے کیا جاتا رہا لیکن امریکہ سعودی تعلقات میں جزوی بگاڑ کے بعد پاکستان کے حکمران طبقے کے لیے ایک ہی وقت میں دو آقاؤں کی خدمت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے دہشت گرد اور ’’سیاسی‘‘ مذہبی تنظیموں اور پاکستان کے حکمران طبقے کی سرپرستی کو محنت کش عوام کے سامنے ہمیشہ مقدس سرزمین کی طرف سے اپنے ’’مذہبی بھائیوں کے لیے تحفے‘‘ کے طور پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اس ’مقدس سرزمین‘ پر کام کرنے والے محنت کشوں کو اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے گھناؤنے سلوک کا خوب پتا ہے۔ سعودی حکمران انہیں غلام اور اچھوت سمجھتے ہیں۔ وہ اس مقدس سرزمین کی قومیت کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے اور کام یا کسی طرح کے کاروبار کے لیے انہیں کسی سعودی شہری کی ضمانت درکار ہوتی ہے۔ پاکستانیوں کی طرف سعودی حکومت کے حقارت آمیز رویے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چالیس سال سے کم عمر کے کسی بھی پاکستانی کو عمرہ کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ پابندی صرف پاکستان کے شہریوں پر لگائی گئی ہے۔ تاہم جب بھی کسی پاکستانی حکمران کا اقتدار خطرے میں ہوتا ہے تووہ بھاگ کر ’’عمرہ‘‘ کرنے سعودی عرب جاتا ہے جس کا مقصد مقدس مقامات کی زیارت سے زیادہ طاقتور سعودی شاہی خاندان کے تلوے چاٹنا ہوتا ہے جو پاکستانی ریاست کے اصل مالک ہیں۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی، زیادہ تردرمیانہ طبقہ، مکہ اور مدینہ میں حج کے لیے جاتے ہیں جو اس رجعتی سعودی حکومت کے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔
nawaz sharif pakistan and saudi arabia yemen war cartoonدوسری طرف سعودی فوج، جو دنیا میں چوتھی سب سے مہنگی فوج ہے، نے آج تک کوئی جنگ نہیں لڑی۔ جب سعودی 2011ء میں بحرین میں انقلاب کو کچلنے کے لیے گئے تو انہوں نے زیادہ تر کرائے کے سپاہیوں پر انحصار کیا جن کی بڑی تعداد پاکستانی تھی۔ سعودیوں نے حالیہ دنوں میں مبینہ طور پر پاکستانی فوج سے سعودی عرب کی عراق کے ساتھ سرحد پر تیس ہزار فوجی تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے سے آل سعود کا دفاع کیا جاسکے۔ یہ بات واضح ہے کہ انہیں اپنی ہی فوج پر اعتماد نہیں ہے جو اپنے مہنگے ہتھیاروں کا رخ آل سعود کی طرف کرسکتی ہے۔ یہ اس آمرانہ حکومت کی اندرونی کمزوری اور سعودی حکمران ٹولے کے خوف کا کھلا اظہار ہے۔
سعودی عرب کے جنگی جہاز وحشیانہ انداز میں یمن پر بمباری کر کے ہزاروں شہریوں، بشمول بچوں کو قتل کررہے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ اعداد ڈرامائی انداز میں بڑھ جائیں گے کیونکہ حملوں کا ہدف صنعا کے گنجان علاقوں اور شمالی حوثی دیہاتوں کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ مہاجر کیمپوں، فیکٹریوں اور گنجان آباد علاقوں پر بمباری کی جارہی ہے۔ انفراسٹرکچر، قصبوں اور شہروں کو تباہ کرکے کھنڈرات میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ عرب ریاستوں کے ’’مقدس اتحاد‘‘ کے ساتھ ساتھ اسرائیل بھی یمن میں حوثیوں پر بمباری کی حمایت کر رہا ہے (بعض اطلاعات کے مطابق عملی طور پر بھی شریک ہے) یہ اس نظام کے زوال کی علامت ہے کہ ان عرب حکمرانوں کا اسرائیل دشمنی کا ڈھونگ بے نقاب ہورہا ہے۔ اپنے مفادات کے لئے یہ حکمران ہمیشہ یکجا ہوجاتے ہیں جبکہ عوام کو مذہب اور قوم کے نام پر تقسیم کیا جاتا ہے۔
یمن، جو غریب ترین عرب ملک ہے، ایک بار پھر سعودی حکومت کے نشانے پر ہے۔ سعودی ریاست کا داخلی بحران بھی بڑھ رہا ہے، خطے میں اس کا اثر و رسوخ کم ہورہا ہے اور شاہ سلمان کی تخت نشینی کے ساتھ اقتدار میں آنے والا ٹولہ انتشار کا شکار ہے۔ شاہ سلمان کا تیس سالہ بیٹا، محمدبن سلمان السعود، جسے نیا وزیر دفاع بنایا گیا ہے، ذہنی طور پر غیر متوازن اور وحشی انسان ہے۔ سعودی حکمران طبقہ مشرق وسطیٰ میں اپنے گرتے ہوئے سامراجی اثر و رسوخ کی حفاظت کے لئے پاگل ہو کر ہاتھ پیر مار ہا ہے۔ سعودی عرب یمن کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کی جنوبی سرحد ایرانی حمایت یافتہ قوتوں کے ہاتھوں میں جانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ عراق جنگ کے بعد ایران اور اب کسی حد تک قطر خطے میں سعودی عرب کی بالا دستی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ترکی بھی عراق اور شام میں داعش اور دوسرے پراکسی گروہوں کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔
saudi arabia iran proxy war in yemen cartoon by latuffسعودی عرب کی طرح ایرانی ریاست بھی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے بہت سے دوسرے ممالک میں شیعہ ملاؤں اور فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی اور فنڈنگ کرتی ہے۔ شیعہ تنظیموں اور مسلح ملیشیاؤں کو فرقہ وارانہ نفرت کی بنیاد پر تربیت بھی دی جاتی ہے۔ عرب انقلاب کی عارضی پسپائی سے جنم لینے والی پراگندگی اور سیاسی خلا نے انہیں موقع فراہم کیا کہ وہ دوسرے ممالک میں مداخلت کرکے اپنی سامراجی دھاک بٹھا سکیں۔ ایرانی ریاست کو داخلی بحران اور زوال پذیر معیشت کے تحت پنپنے والی طبقاتی کشمکش کو کچلنے کے لیے بھی بیرونی دشمنوں کی ضرورت رہتی ہے۔ ان حالات میں داعش ایرانی ملا ریاست کے لیے ایک تحفے سے کم نہیں ہے جس کے خلاف وہ نعرے بازی کرکے اپنی فرقہ وارانہ حمایت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح یمن پر سعودی جارحیت سے بھی ایرانی حکمرانوں کو فرقہ وارانہ جنون کو ہوا دینے کا مزید موقع ملے گا۔ اپنے جوہر میں، سعودی اور ایرانی پراکسی جنگ قلیل مدت کے لیے دونوں حکومتوں کو فائدہ پہنچا رہی ہے لیکن ان کی خواہشات اور عزائم کے بر عکس، ان جنگوں اور جارحیتوں کے نتائج واپس ان کے اپنے لیے مسئلہ بنیں گے۔ اگرچہ عرب انقلاب اپنے حتمی مقاصد حاصل کئے بغیر پسپاہوا ہے لیکن رجعتی عناصر اپنے نظریات کو پھیلانے کے لیے وسیع زرخیز زمین پھر بھی حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ واقعات کی رفتار رائے عامہ میں تیز تبدیلیاں لا سکتی ہیں اور انقلابی خطوط پر عوامی تحریکیں پھر سے ابھر سکتی ہیں لیکن رد انقلابی رجعت کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مشرق وسطیٰ میں پاکستانی فوج کی مداخلت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ دہائیوں تک خطے کی رجعتی اور آمرانہ حکومتوں نے انہیں کرائے کے قاتلوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ سب سے لرزہ خیز واقعہ 1970ء میں بادشاہت کو بچانے کے لیے اُردن میں فلسطینیوں کا قتل عام تھا۔ 1967ء سے 1970ء کے دوران بریگیڈئر محمد ضیاء الحق (بعد میں چیف آف آرمی سٹاف اور صدر پاکستان ) سرکاری طور پر اردن میں ہاشمی بادشاہت کی حفاظت کے لیے تعینات تھا۔ 15 ستمبر 1970ء کو شاہ حسین نے اردن میں مارشل لا لگا دیا تاکہ فلسطینیوں کی انقلابی سرکشی کو کچلا جا سکے۔ اگلے دن اردنی ٹینکوں کی 60ویں آرمرڈ بریگیڈ نے عمان میں فلسطینی تنظیموں کے ہیڈ کوارٹر ز پر حملہ کردیا۔ فوج نے اربد، سالت، سویلہ، بقعا، وحدت اور زرقا کے کیمپوں پر بھی حملہ کیا۔ ضیاالحق کو سیکنڈ ڈویژن کی کمانڈ دی گئی۔ شا ہ حسین نے ضیا کو کمانڈ اس خوف کے تحت دی کہ اردن کے جرنیل فلسطینیوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیں گے اور اپنی بندوقیں اسی کی طرف موڑ دیں گے۔ امریکی حمایت یافتہ اردنی فوج نے عمان میں پی ایل او کے ہیڈ کوارٹر وں پر بمباری کی اور فلسطینی چھاپہ ماروں کے خلاف دارالحکومت کی تنگ گلیوں میں لڑائی لڑی۔

zia ul haq in jordan black september
اردن میں فلسطینیوں کے قتل عام کے دوران ضیاالحق کی ایک تصویر

یاسر عرفات نے بعد میں دعویٰ کیا کہ اردنی اور پاکستانی فوجیوں نے پچیس ہزار فلسطینی قتل کیے۔ ضیاء الحق کے ہاتھوں ہونے والا قتل عام اتنا وسیع تھا کہ اسرائیل کے ایک بنیاد پرست رہنما موشے دایان کے مطابق ’’شاہ حسین نے پاکستانی فوج کے ضیاء الحق کی قیادت میں 27ستمبر کو اپنی فوج بھیجی تاکہ اردن میں فلسطینی ٹھکانوں کا صفایا کر سکے۔ انہوں نے گیارہ دنوں میں اس سے زیادہ فلسطینی مارے جتنے اسرائیل بیس سال میں مار سکا۔‘‘ اگلے سال (1971ء) مشرقی بنگال میں پاکستانی فوج نے ایک اور قتل عام اور نسل کشی کا بازار گرم کیا۔ لیکن سب سے تباہ کن پراکسی جنگ 1980ء کی دہائی میں لڑی گئی۔ اب کی بار ضیاء الحق پاکستان کا فوجی آمر بن چکا تھا جس نے افغانستان میں رد انقلابی ڈالر جہاد لڑنے کے لیے پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو امریکی سامراج اور سعودی بادشاہت کو کرائے پر دے دیا۔ اس ڈالر جہاد نے گھناؤنی اور وحشت ناک اسلامی بنیادپرستی کو جنم دیا جو پورے خطے کو تقریباً نصف صدی سے تاراج کر رہی ہے۔ القاعدہ، داعش اور دوسری جنونی دہشت گرد تنظیمیں اسی رجعتی جہاد کی ضمنی پیداوار ہیں۔
یمن کے خلاف سعودی جارحیت میں پاکستانی فوج کی براہ راست مداخلت بہت زیادہ خطرناک ہوگی اور الٹا حکمران طبقے اور ریاست کے گلے پڑ سکتی ہے۔ نہ صرف ایران کے ساتھ علاقائی مخاصمت جنم لے گی بلکہ کرائے کے قاتل کی حیثیت سے عوام کے سامنے اس ریاست کا حقیقی چہرہ کھل کر بے نقاب ہوگا۔ حکمران ٹولے کا تذبذب اسی خوف کو عیاں کرتا ہے۔ آج پاکستانی ریاست ستر اور اسی کی دہائی کے پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ ریاست کے مختلف دھڑے ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں۔ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن ہو رہا ہے جس میں بلوچ عسکریت پسند اور عام نوجوان مارے جارہے ہیں اور ان کی مسخ شدہ لاشیں روزانہ گلیوں میں پھینکی جارہی ہیں۔ گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پورے دیہاتوں اور قصبوں کو نیست و نابود کیا جا رہا ہے جس میں خواتین اور بچے بھی بے رحمی سے قتل کیے جارہے ہیں۔ ایک نام نہاد آپریشن افغان بارڈر کے ساتھ قبائلی علاقوں میں طالبان کے خلاف بھی کیا جا رہا ہے۔ اس ’’آپریشن ‘‘ میں بہت سے عام پشتونوں کو طالبان کے نام پر قتل کیا جا رہا ہے جب کہ اصل دہشت گردوں کو ریاست کے کچھ حصے تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ کراچی میں یہ فوج ایم کیو ایم، طالبان کے مختلف گروہوں اور کالے دھن پر پلنے والی دوسری رجعتی قوتوں کی لڑائیوں میں ملوث ہے۔
خودکش حملے، وحشی ہجوم کی طرف سے قتل کے واقعات اور دوسری بربریت ایک معمول بن چکی ہیں جس میں پاکستانی ریاست کے مختلف دھڑے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے اور کچلنے کے لیے یہ حکمران فرقہ وارانہ نفرت پر انحصار کرتے ہیں۔ بحران زدہ ریاست میں فوج کی یکجہتی ٹوٹ پھوٹ رہی ہے اور مختلف خفیہ ایجنسیوں اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے اندرونی تضادات خونی تصادم کا باعث بن رہے ہیں۔

yemen conflict cartoonپاکستان میں فوج سب سے بڑے پراپرٹی ڈیلر کی حیثیت اختیار کر گئی ہے جبکہ صنعتوں اور خدمات کے شعبے میں یہ سب سے بڑے سرما یہ کار ہیں۔ افغانستان سے اربوں ڈالر کی منشیات کو بحیرہ عرب کے ساحلوں کے ذریعے یورپ اور دوسرے خطوں تک سمگل کیا جاتا ہے جس میں ریاست کا ہر ادارہ ملوث ہے۔ اس کالے دھن کی حصہ داری پراکسی گروہوں کے درمیان مزید خون خرابے کا باعث بن رہی ہے۔ اگر پاکستانی فوج کو یمنی تنازعے میں جھونک دیا جاتا ہے تو پہلے سے داخلی ٹوٹ پھوٹ کے شکار اس فیصلہ کن ادارے کی ظاہری جڑت پر ایک اور چوٹ لگے گی۔ اگرچہ فوج کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تر بیت نہیں دی جاتی ہے لیکن اسے اگر ایک فرقے کے حکمرانوں کے حکم پر دوسرے فرقے کے لوگوں پر بمباری کرنے اور لڑنے کے لیے بھیجا جاتا ہے تو اندر کی ٹوٹ پھوٹ بڑھ سکتی ہے اور بحیثیت مجموعی پوری ریاست کا بچا کھچا استحکام بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
لیکن پاکستان کے محنت کش طبقے کی حکمران طبقے کے حملوں کے خلاف جد وجہد اور انقلابی تحریکوں کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔ پاکستانی محنت کش یمنی مزدوروں کے ساتھ سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں میں سخت حالات میں کام کر رہے ہیں۔ جب کبھی حکمرانوں نے انہیں تقسیم کرکے کرائے کے قاتلوں کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے تو محنت کش عوام نے طبقاتی یکجہتی کی سنہری مثالیں قائم کی ہیں۔ ماضی میں بلوچ طالب علم رہنماؤں نے پاکستانی ریاست کی طرف سے بلوچوں کو عمان اور بحرین میں کرائے کے قاتلوں کے طور پر بھیجنے کے خلاف شاندار بغاوت کی تھی جس میں جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے گئے۔ اس خطے کا محنت کش طبقہ اور انقلابی نوجوان مشرق وسطیٰ اور پاکستان کے حکمران طبقات کی خون ریزیوں کے خلاف بغاوت کریں گے۔ محنت کش عوام کی طبقاتی یکجہتی ہی سامراجی قوتوں کے اس جبر اور بربادی سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔
بحرہ روم کے ساحلوں سے لے کر جزیرہ نما عرب تک، پورا مشرق وسطیٰ خونی انتشار اور بر بریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سرمایہ داری میں اب یہی ممکن ہے۔ 2011ء کے عرب انقلاب نے ثابت کیاہے کہ جب عوام حرکت میں آتے ہیں تو ہر رجعتی قوت کو اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ اسرائیل کی صیہونی ریاست سے لے کر جابر سعودی بادشاہت، ایرانی ملائیت اور پاکستان کے گلے سڑے حکمران طبقے کو اکھاڑے بغیر کوئی نجات ممکن نہیں ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے بغیر یہ تاریخی فریضہ ادا نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی ایک ملک میں کامیاب انقلابی تبدیلی جلد یا بدیر اس انقلابی لہر کوپورے خطے اور اس سے بھی آگے لے جائے گی۔

متعلقہ:

کہاں سے آتی ہے یہ کمک؟

عراق: وحشت کے ساتھ وحشت کا تصادم!

دبئی: رنگینیوں میں سلگتی بغاوت

عراقی المیہ

ایران: نئے سال کا پیغام