بالادستی
نواز شریف کی یہ مزاحمت اس خلا کی وجہ سے اہمیت اختیار کرگئی ہے جو عوام میں کسی بڑی تحریک کی عدم موجودگی میں پیدا ہوا ہے۔
نواز شریف کی یہ مزاحمت اس خلا کی وجہ سے اہمیت اختیار کرگئی ہے جو عوام میں کسی بڑی تحریک کی عدم موجودگی میں پیدا ہوا ہے۔
علاج زندگی کی ایسی سلگتی ہوئی ضرورت ہے جس کے لئے انسان سب کچھ بیچنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔
داعش کی جانب سے پاکستان میں یہ اتنے بڑے پیمانے کا پہلا حملہ ہے۔
وہاں مقدس سمجھے جانے والے اداروں کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ قانون کے اندھے پن اور نام نہاد غیر جانب داری کی دھجیاں بکھر گئی ہیں۔
کم و بیش 90 فیصد آبادی کے حقیقی ایشوز اور بنیادی معاشی و سماجی حقوق کو نظر انداز کرکے یہاں نہ تو کوئی جمہوریت چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مستحکم آمریت بھی قائم ہو سکتی ہے۔
آج کی پیپلز پارٹی قیادت اپنے مذموم مقاصد کے لئے دولت و اقتدار کے لالچ میں ضیاالحق کے ہاتھوں بھٹو کے عدالتی قتل کو ’’قانونی‘‘ تسلیم کر رہی ہے۔
لیاری کو کربلا جیسی پیاس سے دوچار کرنے والے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی کوئی آواز تو بلند ہونی تھی۔ اتوار کو بس یہی ہوا۔
خیرپورناتھن شاہ میں کارل مارکس کی زندگی اور افکار پر ایک لیکچر پروگرام منعقد کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی۔
کوئی بھی پارٹی کسی حقیقی سماجی مسئلے اور اقتصادی ایشو کو اپنی کمپئین کے ایجنڈے پر نہیں آنے دے رہی۔ کیونکہ حل کسی کے پاس نہیں ہے۔
طاقت کا بے پناہ اجتماع فرد کو حقیقت سے دور کر کے اپنے عقل کل اور نجات دہندہ ہونے کی خوش فہمی پیدا کر دیتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پہلے ہی متعدد ریڈ لائنیں گزر چکی ہیں…
شجاعت بخاری کا قتل وہ چنگاری ثابت ہوا ہے جس نے بھڑک کر اس مخلوط حکومت کو بھسم کر دیا ہے ۔ لیکن اس کے پیچھے قربانیوں کی ایک طویل داستان کشمیری عوام نے رقم کی ہے۔
چند ہفتے پیشتر ہی ٹرمپ نے کِم کو ’راکٹ مین‘ اور ’تاریک جوکر‘ کے خطابات سے نوازا تھا جبکہ کِم نے ٹرمپ کو ذہنی مریض اور ’ہلڑ باز‘ قرار دیا تھا۔
شرکا نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جس پر ’جسٹس فار مزمل‘ اور ’مشال خان، مرجان اور اب مزمل، کیا اگلی باری میری ہے؟‘
جس نظام اور جس اقتدار میں عوام کی کوئی نمائندگی ہو نہ ہی عام لوگوں کو اس سے کوئی امیدیں باقی رہیں وہ کتنا مستحکم ہو سکتا ہے اور کب تک چل سکتا ہے؟