کراچی: شہرِ بے اماں۔۔۔

[تحریر: پارس جان]
کراچی ایک دفعہ پھر اخباری سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ پھر سے نام نہاد ’آپریشن کلین اپ‘ شروع کر دیا گیا ہے جس کا نتیجہ بھی ماضی کی روایات کے مطابق پہلے سے زیادہ گندگی اور غلاظت کی صورت میں بر آمد ہو گا۔ صاف اور دو ٹوک وجہ یہ ہے کہ اقتدار پر براجمان حکمران طبقے کے مفادات اور ترجیحات کے تحفظ کے لیے تعفن آمیز درندگی کی اب پہلے سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر ضرورت ہے۔ سیاسی پارٹیاں اور سکیورٹی ادارے جرائم پیشہ افراد (یعنی خود اپنے) خلاف شفاف اور غیر جانبدارانہ آپریشن کا ناٹک کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ سنجیدہ بھی ہیں۔ اس لیے نہیں کہ ان کے دل میں اچانک معصوم شہریوں کے لیے ہمدردی پیدا ہو گئی ہے بلکہ اس لیے کہ وہ کچھ بے لگام اور ناپسندیدہ قاتلوں کی جگہ اطاعت شعاراور ہونہا درندوں کو لا کر طاقتوں کے بے ہنگم توازن کو اپنی جانب کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ’’غیر جانبدارانہ‘‘ کے مطالبے کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے ’مجرم ‘ بھی تو آپ کے ہی ہیں، لہذٰا ان کو مارنے یا گرفتار کرنے کی بجائے مزید استعمال کیا جائے۔ بھتہ خوروں کے خلاف کاروائی کے مطالبے کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ جو بھتہ ہم تک نہیں پہنچ رہا وہ سراسر غیر قانونی ہے، اسے فوراًاً بند کرا کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ یہ مالیاتی سرمائے کے مختلف دھڑوں کے وظیفہ خواروں اورکالے دھن کی اجارہ داریوں کے باہمی تصادم کی نورا کشتی ہے جس کا نام کسی ’منچلے‘ نے ’’آپریشن کلین اپ‘‘ رکھ دیا ہے۔
آج کے عہد میں مالیاتی سرمائے کا بنیادی خاصہ یہ ہے کہ وہ سماجی معمولات کو معطل کیے بغیر اپنے معاشی اور سیاسی غلبے کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ افراتفری اور ہیجان کی غیر موجودگی میں وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اپنی افزائش تو درکناراسے اپنے خلاف بغاوت کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے۔ دنیا بھر کے حالات کا سرسری سا تجزیہ بھی اس حقیقت کی تصدیق کے لیے کافی ہو گا۔ کیفیتی اعتبار سے مختلف ہونے کے باوجود دنیا کے ہر خطے اور برِ اعظم میں انتشار اور عدم استحکام نہ صرف موجود ہے بلکہ برق رفتاری سے برھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ وینٹی لیٹر پر رکھے سرمایہ دارانہ نظام کے حکمران طبقے کو ایسی آ ب و ہوا کی ضرورت ہے جس میں آبادی کی اکثریت کے لیے سانس لینا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو۔ انہیں انسان نہیں درندے درکار ہیں۔ ان کو شہروں کی نہیں جنگلوں کی ضرورت ہے۔ یہ تہذیب نہیں بربریت کے نمائندے ہیں۔ یہ حکمران اب ان حشرات سے مشابہت رکھتے ہیں جنہیں صاف ستھری غذا راس نہیں آتی بلکہ وہ غلاظت اور فضلات کھا کر ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔
کراچی ایک معتبر اندازے کے مطابق دو کروڑ تیس لاکھ نفوس پر مشتمل دنیا کا تیسرا بڑا شہر بن چکا ہے۔ امن امان کے مسئلے سے اگر صرفِ نظر کر بھی لیا جائے تو اتنی بڑی آبادی کو منظم کرنے کے لیے جس قسم کے سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے پاکستان کے نا اہل حکمران طبقے کے لیے وہ صریحاً نا ممکن ہے۔ پانی، گیس، بجلی، سینی ٹیشن سمیت تمام شعبے زبوں حالی کا شکار ہیں اور گزشتہ برسوں میں جتنے بھی ترقیاتی کام ہوئے ہیں ان کا کردار انتہائی ناہموار اور متضاد نوعیت کا رہا ہے جس کی وجہ سے آبادی کی اکثریت میں احساسِ محرومی نے بڑھ کر لسانی اور نسلی تعصبات کے لیے زرخیز زمینوں کا کردار ادا کیا ہے۔ روز بروز منہدم ہوتی ہوئی پیداواری معیشت کے متوازی ایک غیر سرکاری معیشت بنتی اور پروان چڑھتی رہی ہے جس پر ’غیر ریاستی عناصر‘ پل کر ریاستی قوتوں کے کنٹرول سے باہر ہوتے چلے گئے ہیں۔ ریاستی اداروں نے اپنے خصی پن کی وجہ سے ان غیر ریاستی عناصر سے ٹکرانے کی بجائے ان کی معاونت کی پالیسی اپنائی اور اب حقیقی معنوں میں ’ریاستی ‘ اور ’غیر ریاستی‘ کی تفریق اتنی مبہم ہو گئی ہے کہ کسی پر بھی کوئی لیبل لگانا ناممکن ہوتا چلا جا رہا ہے۔ روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ کراچی سے 83 کروڑ روپے بھتہ اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اصل رقم اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ ساری رقم محض جرائم پیشہ گروپوں اورسیاسی پارٹیوں کے مسلح ونگز تک ہی نہیں جاتی بلکہ اس کا مناسب حصہ پولیس اور رینجرز سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگوں تک بھی پہنچتا ہے۔ اس لیے ان اداروں کے ذریعے نہیں بلکہ ان کے خلاف آپریشن سے ہی کراچی کے عوام کو سکھ کا سانس لینے کا موقع مل سکتا ہے۔
اگرچہ ایک یورپی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کراچی کو دنیا کا خطرناک ترین شہر قرار دے دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود ملک کے طول و عرض سے روزگار کی تلاش میں کراچی کی طرف ہجرت کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ قدرتی آفات، ناقص منصوبہ بندی اور عدم توجہ سے برباد حال زراعت کی وجہ سے مختلف قوموں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے غریب عوام کراچی آنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یوں کراچی میں آبادی کا تناسب مسلسل بدل رہا ہے جس کی وجہ سے بھی سیاسی رسہ کشی میں شدت آتی جا رہی ہے۔ ماضی کے برعکس اب باعزت روزگار ناپید ہو چکا ہے۔ روزگار کی تلاش میں آنے والوں میں سے وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں جنہیں ریڑھی لگانے یا چھابڑی وغیرہ کا کام مل جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں دیہاڑی دار مزدوروں کی تعداد اوسطاً تقریباً 20 لاکھ سے زائد ہے۔ کسی بھی قسم کی ہڑتال یا کشیدگی کی وجہ سے ان 20 لاکھ گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں بیروزگار روز گار کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ وہ بارود کے ڈھیر سے اپنے بچوں کا رزق تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مسلسل ناکامی کے بعد جب ان میں سے بہت سے نوجوان مانگنے سے چھین لینے کی نفسیات کی طرف راغب ہوتے ہیں تو کسی انقلابی سیاست کے فقدان اور محنت کشوں کی سیاسی روایت پاکستان پیپلز پارٹی کے طبقاتی سیاست سے انحراف کی وجہ سے قبضہ مافیا، بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورک کے علاوہ ان کے پاس کوئی معاشی نعم البدل نہیں بچتا۔ جتنے زیادہ ٹارگٹ کلرز مارے جاتے ہیں اس سے زیادہ اسی لمحے تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔ روزگار پیدا کرنے والا کراچی جو کبھی محنت کی وسیع منڈی ہوا کرتا تھا اب مجرم پیدا کرنے والی ہیوی انڈسٹری میں تبدیل ہو چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ پانی اب سر سے گزر چکا ہے۔ انقلابی جراحی کے بغیر اب کسی بھی قسم کے آپریشن سے کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
بڑے سرمایہ کاروں، صنعتی اشرافیہ اور تاجر مافیا کو کراچی میں ’حسبِ ضرورت‘ جب ’امن کے وقفوں‘ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اس طرح کے آپریشن دیکھنے میں آتے ہیں۔ جرائم پیشہ متحارب گروپوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کو بلواسطہ یا بلا واسطہ ریاستی سرپرستی حاصل نہ ہو۔ بلکہ گزشتہ چند برسوں میں وقتاً فوقتاً ایسی رپورٹیں بھی سامنے آتی رہی ہیں جن کے مطابق کراچی میں بلیک واٹر اور القاعدہ سمیت دیگر علاقائی اور بین الاقوامی خفیہ ادارے بھی سرگرم ہیں جنہوں نے یہاں کے ریاستی اور غیر ریاستی با اثر افراد اور گروہوں سے مضبوط تعلقات استوار کر لیے ہیں۔ اسی طرح ایران اور سعودی عرب کی ’سرد جنگ‘ بھی آجکل کراچی میں کافی گرم ہے۔ شیعہ سنی بنیادوں پر کوئٹہ اور گلگت کی طرح کراچی میں بھی بڑے پیمانے پر ٹارگٹ کلنگ اور جواباً دھرنے اور احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ نہ صرف کراچی بلکہ ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں اور مضافات میں بھی بڑی تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ آئندہ محرم اس حوالے سے بے حد حساس قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسے دیو ہیکل اوربدمست نیٹ ورک میں دوستوں کا دشمن اور دشمنوں کا دوستوں میں تبدیل ہوتے رہنا معمول کی بات ہوتا ہے جس پر اب فریقین کوئی زیادہ حیرت اور شکایت کا مظاہرہ بھی نہیں کرتے۔ یوں ان تمام سرگرم مرکز گریز قوتوں کی تعداد اور انواع کی فراوانی نے صورتحال کو اتنا پیچیدہ کر دیا ہے کہ ریاست کی رِٹ تقریباً معدوم ہو گئی ہے۔ گزشتہ عرصے میں ریاست کے نسبتاً سنجیدہ حصوں نے رِٹ بحال کرنے کے لیے جتنے بھی پاپڑ بیلے ہیں ان سے صورتحال بہتر ہونے کی بجائے اور بھی المناک ہوتی جا رہی ہے۔ عدلیہ کی ’اصلاح پسندی‘ اور پارلیمان کی نِت نئی قانون سازیوں کے معجونوں سے بھی کوئی افاقہ نہیں ہو پا رہا۔
MQM جسے 68۔69ء کے انقلاب کے انتقام کے طور پر محنت کشوں کو نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لیے ضیا آمریت نے کراچی پر مسلط کیا تھی، جب طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر توسیع پسندانہ رجحانات کی طرف مائل ہو گئی اور کراچی سے بڑھ کر ملکی پیمانے پر اقتدار اور لوٹ مار میں حصہ داری کا مطالبہ کرنے لگی تو پہلے براہِ راست طاقت کے استعمال کے علاوہMQM حقیقی اور سنی تحریک کی طرح کی پھوٹ ڈلوا کر اسے قابو کرنے کی کوشش کی گئی، مگر جب خاطر خواہ نتائج بر آمد نہ ہو سکے توبعد میں پیپلز امن کمیٹی، پنجابی پشتون اتحاد اور ANP کے مسلح گینگ بنا کر علاقائی بنیادوں پر MQM کی بلیک مارکیٹ کی معاشی ناکہ بندی کے ذریعے اسے اپنے ’بیرونی‘ یارانوں کو ترک کر کے خالصتاً ملکی آقاؤں کے تابع کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس تمام عرصے میں ریاست کے امریکہ نواز دھڑے کی مکمل آشیر باد MQM کے ساتھ رہی جس کی وجہ سے کوئی دوا کارگر نہ ہو سکی بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اب صورتحال پہلے سے زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ ان مسلح گروپوں میں سے زیادہ تر داخلی خلفشار کا شکار ہو کر نیم خانہ جنگی کی تصویر کشی کر رہے ہیں۔ MQM سمیت کوئی بھی گروپ ایسا نہیں جس میں آپسی تضادات کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ نہ کی جا رہی ہو۔ چند روز قبل پیپلز امن کمیٹی کے لیڈر ظفربلوچ کا قتل بھی داخلی سرد جنگ کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل بابا لاڈلہ پر بھی ایک ناکام قاتلانہ حملہ کیا جا چکا ہے۔ لیاری کے ان علاقوں میں یہ وارداتیں کی گئی ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ پیپلز امن کمیٹی کی اجازت کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ اس کا مطلب تو صاف ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے اور عین ممکن ہے کہ بہت جلد ساری دال ہی کالی ہو جائے۔ مستقبل میں تمام گروپوں کے کچھ بڑے نام زیرِ عتاب آ سکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ فوج کے کچھ با اثر لوگ MQM سے بہت نالاں ہیں اور اس کی ریڑھ کی ہڈی پر حملہ کرنے کی دلی خواہش رکھتے ہیں مگر وہ کمزور ہیں کہ اس مقصد کے لیے جتنے بڑے پیمانے کی لڑائی اور مہم جوئی درکار ہے وہ اس کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔
گزشتہ عام انتخابات میں اردو بولنے والی آبادی کے اکثریتی علاقوں سے تحریک انصاف کو پڑنے والے لاکھوں ووٹوں (جو MQM سے نفرت کی بنیاد پر پڑے نہ کہ عمران خان کی مقبولیت کی وجہ سے) نے MQM کے اندر داخلی ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو اور بھی تیز کر دیا ہے۔ کراچی کمیٹی اور رابطہ کمیٹی کی از سرِ نو تنظیم سازی کے ذریعے وقتی طور پر اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر عمران فاروق قتل کیس اور لندن میں منی لاندرنگ سمیت دیگر سکینڈلوں کی وجہ سے یہ رسہ کشی مختلف شکلیں اختیار کر سکتی ہے۔ گورنر اب کتنا MQM کا نمائندہ ہے یہ بات کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔ اس کے استعفوں اور ان کی نامنظوری کے ڈرامے کی کتنی اقساط ابھی باقی ہیں اس کے بارے میں بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح حقیقی سے آنے والے عامر خان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں شکوک و شبہات بھی کم ہونے کی بجائے شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی MQM میں تفاوت موجود ہے۔ ایسی کیفیت میں اگر الطاف حسین کو منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے تو MQM کے حصے بخرے ہو جائیں گے اور جتنی طرح کی مسلم لیگیں بنی ہیں اس سے زیادہ MQMS بن سکتی ہیں جن کے ناموں کے ساتھ لگانے کے لیے شاید ساری ABC بھی کم پڑ جائے۔ یہ سراسر ہولناک خانہ جنگی ہو گی۔ یوں الطاف حسین کی اس ریاست اور ان کے سامراجی آقاؤں کو آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مقدمات کو تاخیر زدہ کرنے کی پالیسی جاری ہے تاکہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا جا سکے۔
گرتی ہوئی سماجی حمایت کو سنبھالا دینے کے لیے MQM آنے والے دنوں میں کراچی کی انتظامی بنیادوں پر علیحد گی اور مہاجر صوبے کے شوشے کو ایک دفعہ پھر ہوا دے سکتی ہے۔ دوسری طرف سندھی قوم پرست بھی تھوڑی بہت سماجی پذیرائی کے حصول کی جدوجہد میں ’سندھ میری ماں‘ جیسی ریلیاں نکال کر آنکھیں نکال دینے اور ہڈیاں چبا لینے جیسی دھمکیوں کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ عدم استحکام ایک دفعہ پھر مہاجر سندھی تنازعے کی طرف جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی بے حسی پر مبنی سیاست کی وجہ سے قومی، نسلی اور لسانی گروہوں کو جز وقتی سیاسی توانائی حاصل کرنے اور ریاستی اداروں کی جانب سے اس مظہر کو اپنے حق میں باآسانی استعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
کراچی کی اس لڑائی میں اصل فریق یعنی محنت کش طبقہ ابھی تک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ لیکن یہ خاموشی زیادہ دیر پا نظر نہیں آ رہی، کیونکہ محنت کشوں کی اپنی روایت پیپلز پارٹی کم از کم مرکز میں حکومت سے باہر ہوئی ہے اور نظام کا بحران دائیں بازو کی حکومت کو محنت کشوں پر شدید معاشی حملے کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ IMF سے قرضے لیے بغیر یہ نظام چل نہیں سکتا اور IMF کی مسلط کردہ شرائط کے تحت نیو لبرل پالیساں لاگو کی جا رہی ہیں جن میں نجکاری سرِ فہرست ہے۔ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں بھی ہر مہینے اضافہ کیا جائے گا۔ ڈاؤن سائزنگ کے ذریعے لاکھوں محنت کش گھرانوں کو فاقہ کشی پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اس سے PIA اور پاکستان اسٹیل سمیت تمام اداروں کے محنت کشوں کے اندر پھر غم و غصے کا لاوا پکنا شروع ہو گیا ہے۔ اگر ان اداروں میں سے کوئی تازہ دم تحریک بر آمد ہوتی ہے تو وہ صنعتی شعبے کے لاکھوں محنت کشوں کے لیے بھی امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہے۔ صنعتی شعبے کے زیادہ تر محنت کش رجسٹرڈ نہیں ہیں اور یونین سازی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر یہ محنت کش کسی تحریک میں منظم ہو جائیں تو سماج کو ہلا دینے والے انقلابی واقعات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
اس بار محنت کشوں کو دو طرفہ نہیں چو طرفہ لڑائی لڑنی ہو گی۔ سب سے پہلے تو انہیں اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو بے نقاب کر کے نئی بے لوث نوجوان قیادت تراشنی ہو گی۔ دوسری طرف این جی او زکی غلاظت سے لتھڑے سیاسی کلچر کو تہس نہس کرنا ہوگا۔ پھر محنت کشوں کی اپنی سیاسی روایت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی میں بھی تحریکوں کو بیچنے والے منجھے ہوئے سیاسی شعبدہ گروں کی کمی نہیں ہے۔ ماضی میں PTCL کی تحریک کا سودا کرنے والے تجارت پیشہ نام نہاد انقلابی بھی پھر ریاستی ایجنڈا لے کر سر گرم ہو رہے ہیں، ان کو بے نقاب کر کے تحریک کی صفوں سے پرے دھکیلے بغیر اپنے دشمن طبقات کا مقابلہ کرنا دیوانے کے خواب کے مترادف ہو گا۔ اگر محنت کش یہ پل سراط عبور کر گئے تو کراچی کی پہچان ہی بدل جائے گی۔ تاریخ اپنے آپ کو ایک بلند پیمانے پر دہرائے گی۔ آج درجنوں لاشیں روزانہ اٹھا لینے کے بعد بھی کراچی بند نہیں ہوتا۔ سیاسی ٹھیکیداروں کی ہڑتالوں کے دعووں کے باوجود اور میڈیا کی مکروہ رپورٹوں سے قطع نظر کراچی کہیں نہ کہیں چلتا رہتا ہے۔ کیونکہ کراچی کو صرف وہ ہاتھ بند کر سکتے ہیں جو کراچی کو چلاتے ہیں۔ یہ محنت کشوں کے ہاتھ ہیں۔ ان رجعتی، غنڈہ گرد اور فاشسٹ قوتوں کو صرف اور صرف محنت کش عوام کی اجتماعیت کے ذریعے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ کراچی کی ملکیت کے دعویدار اور قابضین ماضی سے سبق سیکھیں۔ اگر محنت کش تاریخ کے میدان میں کود پڑے تو ان دہشت گردوں کو پناہ دینے والا نہ تو زمین پر کوئی ہو گا اور نہ ہی آسمانوں میں!

متعلقہ:
اداریہ جدوجہد: کراچی، کس جراحی کا طلبگار؟
ایم کیو ایم: دولت کی سیاست کا تشدد
ریاستِ پاکستان کا زوال