ترقی کے دوہرے معیار

[تحریر: لال خان]
20 صدی کے ترقی پسند ناول نگار‘ مفکر اور انقلابی حریت پسند جارج آرویل نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ’’دھوکہ دہی اور فریب کے عہد میں صرف سچ بولنا بھی ایک انقلابی اقدام بن جاتا ہے۔‘‘ اگر ہم آج کے حکمرانوں کی جانب سے کئے جانے والے ترقی کے دعووں کا موازنہ عوام کی حالتِ زار سے کریں تو یوں لگتا ہے کہ یہ حکمران کسی اور ہی سیارے کی مخلوق ہیں۔ اس جلتے ہوئے سماج کے بیچوں بیچ اپنے محفوظ اور پرتعیش محلات میں رہنے والے یہ لوگ وہ عوام کے مسائل، ان کی ذلتوں اور دکھوں کے بالکل بیگانہ اور بے نیاز ہیں۔ معاشرے پر حاوی نیم رجعت کے اس عہد میں سماجی شعور نیم خوابی کیفیت میں ہے لیکن حکمران اسے مکمل طور پر خوابوں کی دنیا میں لے جا کرتلخ حقائق کو چھپا دینا چاہتے ہیں۔ محلے کی مختلف ٹیموں کے درمیان کرکٹ یا کبڈی ٹورنامنٹ کی طرح حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے درمیان نورا کشتیاں اور دھینگا مشتیاں جاری ہیں۔ لیکن ان سیاسی تماشوں سے عوام کو عارضی طور پرمحضوظ کیا جاسکتا ہے کیونکہ میچ تو ختم ہوجاتے ہیں لیکن زندگیوں کی تلخیاں اور استحصال، طبقاتی جنگ کے فیصلہ کن تاریخی معرکے میں فتح حاصل ہونے تک جاری رہتے ہیں۔ 11 مئی کی نورا کشتی کا زیادہ شور شرابا ٹیلی ویژن پر ہی تھا۔ اسلام آباد کے احتجاج میں کی جانے والی تقاریر اور میڈیا پر حکومت کی حمایت میں دئیے گئے ’’دلائل‘‘ سچ سے عاری جذبات اور کھوکھلی لفاظی پر مشتمل تھے۔ یہ جعلی محاذ دونوں اطراف کے لئے ایک مفت کی سرگرمی ہی تھی۔
وفاق، پنجاب اور جزوی طور پر بلوچستان کے اقتدار پر براجمان ٹولے نے حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر جو دعوے کیے وہ کسی اور جنم اور خطے کی روداد معلوم ہوتے ہیں۔ بجلی کی پیداوار کے عالی شان اور دیوہیکل منصوبوں سے لے کر چین کی بھاری سرمایہ کاری، لاہور کراچی موٹروے کا منصوبہ، یورو بانڈز کی کامیابی، کرپشن کا قلع قمع، ٹیلی کمیونیکیشنز میں 3 جی اور 4 جی کا انقلاب، ریلوے کی صحتیابی، ڈالر کی قیمت میں کمی، زرمبادلہ کے زخائر میں اضافہ، یورپی یونین سے تجارتی مراعات کا حصول، ٹیکس وصولی میں 15 فیصد اضافہ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی، مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ، نوجوانوں کے لئے قرضے اور لیپ ٹاپ وغیرہ۔ کارناموں کی ایک طویل فہرست پیش کی گئی جن میں سے اکثر ابھی ’’انڈر پراگریس‘‘ ہیں۔ کوئی بھی ذی شعور انسان ہر ترقی کے منصوبے اور جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کو خوش آمدید کہے گا۔ اسی طرح دنیا کی ہر جدید سہولت، ٹیکنالوجی اور ایجاد کا سماج میں استعمال ایک ترقی پسندانہ عمل ہے۔ لیکن یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ انفراسٹرکچر کے جن منصوبوں کا ڈھول پیٹا جارہا ہے وہ کس کے لئے تعمیر ہورہے ہیں اور ان کی تعمیر سے حاصل ہونے والے منافعے کن کی تجوریوں میں جائیں گے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی تعمیرات اور منصوبوں کی تعمیر کا عمل ایسے اداروں اور طریقوں سے پایہ تکمیل کو پہنچے جن میں ٹھیکیداری نظام اور منافع خوری کا عمل سرے سے موجود ہی نہ ہو؟ ایسا سرمایہ د ارانہ نظام میں ممکن نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے سرمایہ دارانہ نظام کے مقصد اور وجود کی ہی نفی ہوجائے گی۔ یہ صرف ایک ایسے معاشرے میں ممکن ہے جہاں دولت، مشین اور طاقت کی بجائے محنت کرنے والے انسانوں کی اشتراکی حکمرانی ہو، منڈی کے اور معیشت منڈی کی بجائے منصوبہ بندی پر مبنی ہواور پیداوار کا مقصد منافع کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل ہو۔
فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار اور دوسرے منصوبوں کے لئے بڑے پیمانے پر قرضے لئے جارہے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے بیرونی قرضے میں تقریباً 1500 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ سود سمیت ان قرضوں کی ادائیگی عوام کو کرنی پڑے گی۔ اس مقصد کے لئے بلاواسطہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جائے، اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی، مہنگائی کا نیا سیلاب آئے گا اورعام آدمی کی رہی سہی قوت خرید کوبھی بہا لے جائے گا۔ کچھ روز قبل وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اسی طرح 2 ارب ڈالر کے جن یورو بانڈز کا شور مچایا جارہا ہے ان پر 7.25 سے 8.25 فیصد سود بھی عوام کو ہی ادا کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ سری لنکا جیسی چھوٹی معیشتوں کے بانڈز پر شرح سود 5 فیصد ہے۔ یوں مکمل حقائق آشکار کئے بغیر اس طرح کے عوام دشمن اقدامات کو کارنامے بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ زہر کی گولی چینی میں ڈبو کر دی جارہی ہے۔
مشکل معاشی اصطلاحات اور اعداد و شمار کے ہیر پھیر کے علاوہ غربت، بیماری، محرومی، استحصال اور جہالت میں کمی کے کسی اعشاریے یا ایسے کسی منصوبے کا کوئی ذکر سرے سے موجود نہیں ہے۔ یہ حکمران ’’ٹریکل ڈاؤن اکانومی‘‘ کے پیروکار ہیں جس کے مطابق ایسے منصوبوں اور معاشی پالیسیوں سے سرمایہ دار طبقے کے سیٹھوں کی تجوریاں پہلے بھرنی چاہئیں۔ اس کے بعدشاید وہ اپنی دولت کے انباروں میں سے چند سکے غریبوں کی طرف اچھال دیں۔ اس خیرات کو استحصال کا جواز بنا کر حکمران طبقے کی کاسہ لیسی کرنے والے سیاسی فنکار، تجزیہ نگاراور ملا عوام کا شعور ماؤف کرتے رہیں گے اور قانونی لوٹ مار کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور دائیں بازوکے دوسرے دھڑے کی نمائندگی کرنے والی جماعتیں انتخابی دھاندلی، لوڈ شیڈنگ اورمہنگائی کے خلاف احتجاج میں مصروف ہیں۔ لیکن تبدیلی کے وعدے کرنے والے اپنے صوبے میں عوام کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں کرسکیں ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی قیادت ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کے نام پر ’’کھاؤ اور کھانے دو‘‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ اپوزیشن میں آکر پارٹی قیادت کا کردار اقتدار سے بھی زیادہ شرمناک ہوگیا ہے۔ ’’اٹھارویں ترامیم‘‘ کا اصل مقصد ہی حکمرانوں کو دھوکہ دہی کے نئے مواقع فراہم کرنا ہے۔ مرکزی حکومت خود پر ہونے والی تنقید کے جواب میں کہتی ہے کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے جبکہ صوبائی حکومتیں گیند کو مرکزی حکومت کے کورٹ میں پھینک دیتی ہیں۔ عوام نے یہ آئینی شقیں اگرچہ پڑھی نہیں ہیں لیکن وہ اتنے بھی لاعلم نہیں ہیں!
کیا عمران خان اور اس کے حواری اتنے ہی لاعلم ہیں کہ انہیں لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کی اصل وجوہات کا نہیں پتا؟ کیا یہ لوگ نہیں جانتے تمام سماجی اور معاشی مسائل کی بنیادی وجہ منافع خوری پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام ہے؟ لیکن عمران خان اس سرمایہ دارانہ استحصال کے خاتمے کی بات کرتا ہے نہ ہی جماعت اسلامی کے پاس نجی ملکیت کے خاتمے کے لئے مودودی کی کوئی تفسیر موجودہے، اور نہ ہی ڈگریوں کے بوجھ تلے دبا مولوی طاہری القادری اس نظام زر کا کوئی متبادل دے سکتا ہے۔ یہ لوگ بھی اقتدار میں آکر وہی کریں گے جو موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ سرمائے کی حاکمیت کا نام، طریقہ کار اور انداز تبدیل کر دینے سے ’’نظام‘‘ تبدیل نہیں ہوا کرتے۔ اس نظام میں غریب، غریب تر ہوتا چلا جائے گا اورامراء، امارت کی انتہاؤں کی جانب گامزن رہیں گے۔ سرمایہ داری اسی اصول اور قانون کے تحت انسانوں کی اکثریت کو کچلتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔
جہاں تک دھاندلی کا سوال ہے تو اس ملک میں صرف 1970ء کے انتخابات نسبتاً کم متنازعہ تھے جس کی بنیادی وجہ 1968-69ء کی انقلابی تحریک کا شدید دباؤ تھا۔ حکمران طبقہ اور ریاست انتخابات کے ذریعے انقلاب کو زائل کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد ایسے کون سے الیکشن ہیں جن میں دھاندلی نہیں ہوئی؟طبقاتی نظام میں بھلا دھاندلی کے بغیر انتخابات ہوسکتے ہیں؟حقیقت سب جانتے ہیں، باقی محض ناٹک ہے! اصل حکومت سرمائے کی ہوتی ہے۔ سامراجی اجارہ داریاں اور مقامی کارپوریٹ سرمایہ دارریاست اور سیات کو اپنی لونڈی سمجھتے ہیں۔ ’’جمہوریت‘‘ کے کھلواڑ سے عوام بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ کیا ہوا جو محنت کشوں پرتھوڑا برا آگیا۔ پسپائیوں اور غداریوں کے بوجھ تلے دبے یہ عوام خاموش ضرور ہیں لیکن ذہنی طور پر مفلوج نہیں ہیں۔ عام لوگوں بھی اب یہ بات کرتے نظر آتے ہیں کہ زرداری اگر ملک ریاض کا فرنٹ مین تھا تو میاں صاحب بھی میاں منشا کے فرنٹ مین کا کردارادا کررہے ہیں۔ یہاں ساری سیاست ہی سرمائے کی فرنٹ مین ہے اور ریاست اس ’’کاروبار‘‘ کی محافظ۔۔ عوام سسک رہے ہیں لیکن کب تلک؟

متعلقہ:
’’پھیکی سیاہی‘‘
لاغر حاکمیت
طبقہ پروری
ن لیگ کی حکومت: کیا عوام پچھتائیں گے؟
گلیمر میں لپٹی قدامت پرستی